سن 2024 میں دنیا بھر کے کھیتوں اور کارخانوں میں تقریباً 138 ملین بچے مزدوری کرنے پر مجبور تھے۔ اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ حالات نہ بدلے تو بچوں کی مزدوری کے خاتمے میں ’سینکڑوں سال‘ لگ سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق 138 ملین بچوں میں سے تقریباً 40 فیصد (55 ملین) سن 2024 میں ایسے خطرناک حالات میں مزدوری کر رہے تھے، جو ان کی صحت، حفاظت یا نشو و نما کے لیے نقصان دہ ہیںتصویر: Rafat Saeed/DW
اشتہار
اقوام متحدہ کی جانب سے بدھ 11 جون کو ایک نئی رپورٹ جاری کی گئی، جس میں ایسے بچوں کی زندگیوں کے مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے، جو بچپن میں ہی مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
عالمی سطح پر دس سال قبل 'پائیدار ترقیاتی اہداف‘ اپناتے ہوئے سن 2025 تک بچوں کی مزدوری ختم کرنے کا ہدف مقرر کیا تھا۔ تاہم عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) اور بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق، ''اس ہدف کا وقت اب ختم ہو چکا ہے لیکن بچوں کی مزدوری نہیں۔‘‘
سن 2024 میں پانچ سے 17 سال کی عمر کے 137.6 ملین بچے، یعنی اس عمر کے 7.8 فیصد، مزدوری کرنے پر مجبور ہوئے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ تعداد فرانس کی کل آبادی سے دو گنا بنتی ہے۔ تاہم یہ تعداد سن 2000 کے مقابلے میں کم ہے۔ اس وقت 246 ملین بچوں کو اکثر اپنے غربت زدہ خاندانوں کی مدد کے لیے کام کرنا پڑتا تھا۔
سن 2016 سے 2020 تک تشویشناک اضافے کے بعد سن 2024 میں 20 ملین کم بچوں نے مزدوری کی۔ یونیسیف کی سربراہ کیتھرین رُسل نے کہا کہ بچوں کی مزدوری کم کرنے میں ''نمایاں پیش رفت‘‘ ہوئی لیکن ''اب بھی بہت سے بچے کانوں، کارخانوں، یا کھیتوں میں خطرناک حالات میں کام کر رہے ہیں۔‘‘
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق 138 ملین بچوں میں سے تقریباً 40 فیصد (55 ملین) سن 2024 میں ایسے خطرناک حالات میں مزدوری کر رہے تھے، جو ان کی صحت، حفاظت یا نشو و نما کے لیے نقصان دہ ہیں۔
27 فیصد بچے گھریلو کام اور دیگر خدمات کے شعبوں میں کام کرتے ہیںتصویر: Saifurahman Safi/dpa/XinHua/picture alliance
آئی ایل او کے ڈائریکٹر جنرل جیلبر اُونگبو نے کہا کہ اگرچہ کچھ اُمیدیں ہیں لیکن، ''ہمیں اس حقیقت سے نظریں نہیں چرانا چاہییں کہ بچوں کی مزدوری کے خاتمے کے لیے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا باقی ہے۔‘‘
بچوں کی مزدوری کا خاتمہ اور سست روی
یونیسیف کی ماہر کلاؤڈیا کاپا کے مطابق اگر حالات ایسے ہی رہے تو بچوں کی مزدوری کے خاتمے میں ''سینکڑوں سال‘‘ لگ سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر سن 2000 سے اب تک کی پیش رفت کو چار گنا تک بڑھایا جائے تو تب بھی یہ ہدف سن 2060 تک حاصل ہو گا۔ سب سے کم عمر بچوں (پانچ سے 11 سال) کے لیے پیش رفت خاص طور پر سست ہے اور گزشتہ برس ایسے مزدور بچوں کی تعداد 80 ملین تھی۔
سب صحارا افریقہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے، جہاں 87 ملین بچے کام کرتے ہیںتصویر: Thomas Coombes/Amnesty International/dpa/picture alliance
کاپا کے مطابق بچوں کو مزدوری سے بچانے والے عوامل دنیا کو معلوم ہیں۔ ان کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ مفت اور لازمی تعلیم نہ صرف بچوں کو مزدوری سے بچاتی ہے بلکہ انہیں غیر محفوظ یا غیر مہذب روزگار سے بھی تحفظ فراہم کرتی ہے۔
دوسری جانب رُسل نے خبردار کیا کہ عالمی فنڈنگ میں کٹوتی ''مشکل سے حاصل کردہ کامیابیوں کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔‘‘
اشتہار
سب سے زیادہ مزدور بچے کھیتوں میں
رپورٹ کے مطابق زراعت بچوں کی مزدوری کا سب سے بڑا شعبہ ہے، جہاں کام کرنے والے بچوں کی تعداد تقریباً 61 فیصد بنتی ہے۔ اس کے بعد 27 فیصد بچے گھریلو کام اور دیگر خدمات کے شعبوں میں کام کرتے ہیں جبکہ 13 فیصد بچوں سے صنعت بشمول کان کنی اور مینوفیکچرنگ میں کام لیا جاتا ہے۔
سب صحارا افریقہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے، جہاں 87 ملین بچے کام کرتے ہیں۔ ایشیا پیسیفک میں سب سے زیادہ پیش رفت ہوئی، جہاں مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد سن 2000 میں 49 ملین سے کم ہو کر سن 2024 میں 28 ملین رہ گئی ہے۔
ادارت: افسر اعوان
لاکھوں پاکستانی بچوں کا بچپن مشقت کی نذر
بارہ جون کو منائے جانے والے ’چائلڈ لیبر‘ کے خلاف عالمی دن کی مناسبت سے بین الاقوامی ادارہ محنت آئی ایل او کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قریب چار ملین بچے محنت مزدوری پر مجبور ہیں اور ان کا بچپن مشقت کی نذر ہو چکا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پاکستان میں بچوں سے لی جانے والی مشقت
آئی ایل او کے مطابق پاکستان میں محنت مزدوری پر مجبور قریب چالیس لاکھ بچے یا تو کوڑا چنتے ہیں، سڑکوں پر چھوٹی موٹی چیزیں بیچتے ہیں، ریستورانوں میں کام کرتے ہیں یا پھر مختلف ورکشاپوں میں کام کرتے ہیں۔ اس تصویر میں نظر آنے والا پانچ سالہ عرفان مجید اپنے گیارہ سالہ بھائی کے ہمراہ اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں ایک ورکشاپ مکینک کے پاس دیہاڑی پر کام کرتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’بچے مزدوری نہ کریں تو گزارہ کیسے ہو؟‘
چھ سالہ گزشتہ دو برس سے تنویر مشتاق اپنے والد کے ساتھ گوشت کی ایک دکان پر کام کرتا ہے۔ تنویر کے والد عمر مشتاق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ عارف والا سے تعلق رکھتا ہے۔ مسلسل مہنگائی کے باعث اسے اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی کام پر ڈالنا پڑا۔ اس کے بیٹوں کی طرح دو بیٹیاں بھی مختلف گھروں میں کام کرتی ہیں۔ ’’میرے بچے بھی کام نہ کریں تو ہم سب کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
’میں نے خود ایسے کپڑے کبھی نہیں پہنے‘
ںور احمد اپنی عمر نہں جانتا۔ راولپنڈی میں ڈھوک پراچہ کے اس رہائشی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ روزانہ اپنی ماں اور بھائی کے ہمراہ ویگن پر بیٹھ کر ریڈی میڈ شلوار کرتے بیچنے اسلام آباد آتا ہے۔ اس کے والد فوت ہو چکے ہیں اور دو بھائی اس سے چھوٹے بھی ہیں،’’میری بڑی خواہش ہے کہ کسی عید پر میں خود بھی ایسا ہی کوئی نیا شلوار کرتا پہنوں، جیسے میں بیچتا ہوں۔‘‘ یہ کم سن مزدور روزانہ چار سو روپے تک کما لیتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
شدید گرمی میں کمائی کا ذریعہ دستی پنکھے
پروین اختر اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن میں اپنی پھوپھو کے ہمراہ رہتی ہے۔ اس کے والدین سرگودھا کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔ اس کے چار اور بہن بھائی بھی ہیں۔ اس کی پھوپھو اسے مزدوری کرانے کے لیے سرگودھا سے اسلام آباد لائی تھی۔ پروین نے بتایا کہ یہ دستی پنکھے اس کی امی اور خالہ گاؤں سے بنا کر بھیجتی ہیں۔ پروین نے کہا کہ اس کا خواب ہے کہ وہ بھی اپنے گاؤں کی دیگر بچیوں کی طرح اسکول جائے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بالغ چھاؤں میں، بچے دھوپ میں
اسلام آباد میں ایک موٹر سائیکل مکینک کی ورکشاپ پر کام کرنے والے یہ بچے دھوپ کی تپش کو نظر انداز کیے اپنی دیہاڑی کی خاطر اپنے کام میں مگن ہیں۔ مہنگائی، گھریلو غربت، والدین کی بیماری یا پیٹ کی بھوک، ان بچوں کی مجبوریوں کے بہت سے نام ہیں، جو ان سے ان کا بچپن چھین کر ان کے ہاتھوں میں کوڑے کے تھیلے یا مختلف اوزار پکڑا دیتی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ایک روٹی کے لیے لوہے کے کئی ٹکڑے
سڑکوں پر سارا دن گرمی، دھوپ یا بارش سے بے نیاز ایسے بچے کوڑے کرکٹ میں سے لوہے کے ٹکڑے، پلاسٹک اور دیگر ایسی چیزیں تلاش کرتے ہیں، جنہیں بیچ کر وہ ہر شام کچھ رقم اپنے ساتھ گھر لا جا سکیں۔ اس تصویر میں چار بچے اور دو ننھی منی بچیاں ایک میدان سے وہاں گری ہوئی لوہے کی کیلیں جمع کر رہے ہیں۔ یہ سوال بہت تکلیف دہ ہو گا کہ لوہے کے کتنے ٹکڑے جمع کیے جائیں تو ایک روٹی خریدی جا سکتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
والدین سے چوڑیاں مانگنے کی عمر میں چوڑیاں بیچنے والی
اس ننھی سی بچی نے اپنا نام فیروزاں (فیروزہ) بتایا اور اسے چوڑیاں بیچتے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں۔ فیروزہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پہلے اس کی والدہ گھر گھر جا کر چوڑیاں بیچتی تھی لیکن گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ اب کراچی کمپنی نامی علاقے میں بس اڈے کے قریب فیروزہ اور اس کی والدہ زمین پر چادر بچھا کر چوڑیاں بیچتی ہیں۔ باقی مہینوں کی نسبت عید سے پہلے رمضان میں اس ماں بیٹی کی روزانہ آمدنی زیادہ ہو گئی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’اب ڈر نہیں لگتا‘
سات سالہ عمر خلیل ایک ایسی دکان پر پھل بیچتا ہے، جو اس کا والد ہر روز زمین پر لگاتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ پہلے اس کا والد جب اسے دکان پر چھوڑ کر اکثر پھل لینے منڈی چلا جاتا تھا، تو اسے بہت ڈر لگتا تھا۔ ’’اب مجھے اکیلے دکان چلانے کی عادت ہو گئی ہے اور ڈر بالکل نہیں لگتا۔‘‘ محض سات برس کی عمر میں حالات نے اس بچے کو ایسا دکاندار بنا دیا ہے، جو اکیلا بھی بڑی خود اعتمادی سے گاہکوں سے لین دین کر لیتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسکول کے بعد وین پر پھل فروشی
چودہ سالہ محمد رفیق آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ اس کا والد ایک وین پر منڈی سے کوئی نہ کوئی پھل لا کر بیچتا ہے۔ شام کے وقت محمد رفیق اپنے والد کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے ڈاکٹر بننے کا بہت شوق ہے لیکن ڈاکٹری کی تعلیم بہت مہنگی ہے۔ رفیق کے والد نے کہا، ’’میں اپنے بیٹے کو ضرور ڈاکٹر بناؤں گا۔ میں اس کا خواب ہر صورت میں پورا کروں گا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
مستقبل کی مائیں در بدر
گرمی سردی کی پرواہ کیے بغیر کوڑے کا تھیلا کندھوں پر ڈالے یہ معصوم بچیاں دن بھر سڑکوں کی خاک چھانتی ہیں۔ جہاں بھوک پیاس لگی، کسی کا دروازہ کھٹکھٹایا، کہیں سے کچھ مل گیا تو ٹھیک، ورنہ آگے چل پڑیں۔ ان تینوں بچیوں کا تعلق اسلام آباد کے مضافات میں ایک کچی بستی سے ہے۔ گرمیوں کی تیز دھوپ میں ان کے چہرے چمک رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر یہ سوچ ہی تکلیف دینے لگتی ہے کہ یہی بچیاں آنے والے کل کی مائیں ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
’کام ٹھیک کرو، ورنہ دیہاڑی ضبط‘
موٹر مکینک کا کام سیکھنے والے گیارہ سالہ عبداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جس دکان پر وہ دیہاڑی پر کام کرتا ہے، وہ ورکشاپ اس کے ماموں کی ہے۔ اس کا والد اس کی والدہ کو طلاق دے چکا ہے اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ اپنی نانی کے گھر رہتا ہے۔ عبداللہ نے بتایا، ’’ماموں بہت سخت آدمی ہیں، اگر کبھی کام ٹھیک نہ کروں تو مار پڑتی ہے۔ اس روز دیہاڑی کے سو روپے بھی نہیں ملتے۔ ایسی صورت میں ہم بھوکے ہی سو جاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
کھلونے خواب ہیں اور بھوک سچ
آئی نائن سیکٹر میں عید کا رش بڑھتا جا رہا ہے۔ فٹ پاتھوں پر چھوٹے چھوٹے اسٹال لگا کر یا زمین پر کپڑا بچھا کر مختلف چیزیں بیچنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے خوانچہ فروشوں میں اکثریت بچوں کی ہوتی ہے۔ وہ کچھ نہ کچھ بیچ کر زندگی کے تسلسل کو یقینی بنانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ شدید گرمی میں یہ بچے ایسے گاہکوں کے انتظار میں رہتے ہیں، جو ان سے بس کچھ نہ کچھ خرید لیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
ساری دنیا ایک ڈبے میں
آٹھ سالہ محمد رفیق اپنی گتے کے ایک ڈبے میں بند دنیا سر پر اٹھائے پہلے جگہ جگہ گھومتا ہے۔ اب اسے راولپنڈی کی کمرشل مارکیٹ میں ہر روز ایک فٹ پاتھ پر چادر بچھا کر چیزیں بیچتے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ اس کی والدہ دو تین مختلف گھروں میں کام کرتی ہے۔ محمد رفیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم کچی بستی میں رہتے ہیں۔ میری دو چھوٹی بہنیں بھی ہیں۔ میرے ابو اخبار بیچتے ہیں۔ ہم سب مل کر اپنا گھر چلاتے ہیں۔‘‘