دنیا میں امریکا کی عزت کی بحالی کا وقت آ گیا ہے، جو بائیڈن
8 نومبر 2020
نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے ملکی صدارتی الیکشن میں اپنی کامیابی کے بعد اولین خطاب میں کہا ہے کہ وہ امریکا کو دوبارہ متحد کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں امریکا کی عزت کی بحالی کا وقت آ گیا ہے۔
اشتہار
امریکا میں تین نومبر کو ہوئے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ سیاستدان اور ماضی میں دو مرتبہ نائب صدر رہنے والے جو بائیڈن کی کامیابی اس وقت یقینی ہو گئی تھی، جب کل ہفتہ سات نومبر کی رات انہیں صدر کا انتخاب کرنے والے الیکٹورل کالج کے 290 ارکان کے ووٹ حاصل ہو گئے تھے۔ بائیڈن کو اپنی فتح کے لیے کم از کم 270 الیکٹورل ووٹ درکار تھے۔ اب تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق وہ یقینی طور پر لازمی سے کہیں زیادہ الیکٹورل ووٹ حاصل کر چکے ہیں۔
اس کے برعکس ان کے ریپبلکن حریف امیدوار اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اب تک صرف 214 الیکٹورل ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ ٹرمپ نے حریف امیدوار بائیڈن کی فتح پر اپنے اولین ردعمل یہ ظاہر کیا تھا کہ ابھی مقابلہ ختم نہیں ہوا اور وہ ہارے نہیں ہیں۔
یہ رویہ واضح طور پر صدر ٹرمپ کی طرف سے بائیڈن کی فتح کو تسلیم کرنے سے انکار تھا۔ ماہرین کے مطابق اس رویے سے ٹرمپ اپنے حامیوں پر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ابھی الیکشن ہارے نہیں بلکہ اپنی انتخابی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اوول آفس کا سربراہ جو بھی ہو، کہتے ہیں کہ دنیا کی سیاست اس کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ تاہم اصل میں امریکی صدر کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ دیگر سرکاری محکمے بھی اس کے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
آئین کہتا ہے کہ
صدارتی مدت چار سال ہے اور کوئی بھی صرف دو مدت کے لیے ہی سربراہ مملکت کے منصب پر فائز رہ سکتا ہے۔ امریکی صدر ملک اور حکومت کا سربراہ ہوتا ہے۔ وفاقی انتظامیہ میں اس کے ماتحت لگ بھگ چالیس لاکھ ملازمین ہوتے ہیں، جن میں فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ کانگریس کی جانب سے منظور کردہ قوانین کا نفاذ صدر کی ذمہ داری ہے۔ اعلی سفارت کار کی حیثیت سے صدر سفیروں کا استقبال کرتا ہے اور ریاستوں کو تسلیم کرتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
چیک اور بیلنس
حکومت کی تین شاخیں ایگزیکیٹو( انتظامیہ)، عدلیہ اور مقننہ بھی فیصلہ سازی میں شامل ہوتے ہیں اور یہ تینوں ایک دوسرے کے اختیارات کو بھی حد میں رکھتے ہیں۔ صدر شہریوں کو معاف کر سکتا ہے اور ججوں کو نامزد کر سکتا ہے لیکن ان فیصلوں کی تصدیق صرف سینیٹ کی منظوری سے ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح کابینہ اور سفیروں کی نامزدگی کے لیے صدر کو سینیٹ پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
سٹیٹ آف دی یونین
صدر کو کانگریس کو آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ ملکی نظم و نسق کس طرح سے چل رہا ہے۔ ایسا وہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین سالانہ خطاب کے ذریعے کرتا ہے۔ اگرچہ صدر کو قانون سازی کی کوئی قرارداد پیش کرنے کا اختیار نہیں تاہم وہ دیگر موضوعات اور اپنے ارادوں پر بات کر سکتا ہے۔ یہ کانگریس پر عوامی دباؤ برقرار رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
’نہیں‘ آسانی سے نہیں کہہ سکتا
امریکی صدر دستخط کے بغیر کسی بھی بل کو ویٹو کرتے ہوئے کانگریس کو واپس بھیج سکتا ہے۔ تاہم کانگریس کے دونوں ایوان اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ اس صدر کے ان خصوصی اختیارات کو ختم بھی کر سکتے ہیں۔ سینیٹ کے مطابق اب تک صدر کی جانب سے تقریباﹰ پندرہ سو مرتبہ ویٹو کا استعمال کیا گیا، جن میں سے صرف ایک سو گیارہ کو کامیابی کے ساتھ منسوخ کیا گیا، جو صرف سات فیصد کے قریب بنتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
غیر واضح اختیارات
نا تو آئین اور نہ ہی عدالت عالیہ صدر کو حاصل اختیارات کو پوری طرح سے بیان کرتے ہیں۔ صدر کے پاس ایک اور طاقت بھی ہوتی ہے، جسے ’پاکٹ ویٹو‘ کہا جاتا ہے۔ ’پاکٹ ویٹو‘ صدر کو مخصوص حالات میں کسی بھی قانون سازی کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ویٹو کے خلاف کانگریس بے بس ہوتی ہے۔ یہ اختیار مختلف صدور ایک ہزار سے زائد مرتبہ استعمال کر چکے ہیں۔
تصویر: Klaus Aßmann
احکامات جو قانون کی طرح لاگو ہوتے ہیں
صدر سرکاری ملازمین کو فرائض مخصوص طریقے سے انجام دینے اورخاص انداز میں ختم کرنے کے احکامات دے سکتا ہے۔ ان ایگزیکیٹو آرڈرز کو قانون ہی کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے صدر کو کسی منظوری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ صدر جو چاہے وہ کر سکتا ہے۔ عدالت ان احکامات کو منسوخ کر سکتی ہے یا کانگریس بھی ان کے خلاف قانون سازی کر سکتی ہے۔ اگلا صدر آسانی سے انہیں کالعدم قرار دے سکتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
کانگریس کا کھیل
صدر دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں پر بات چیت کر سکتا ہے مگرسینیٹ کی دو تہائی اکثریت ہی انہیں منظور کر سکتی ہے۔ صدر اسے اگر ’’ایگزیکیٹو معاہدہ‘‘ قرار دے دے تو اسے کانگریس کی اجازت کی ضرورت نہیں ہو گی۔ اس کی حیثیت اس وقت تک قانونی ہوتی ہے، جب تک کانگریس اس پر اعتراض نہ اٹھائے یا اس کے خلاف کوئی قانون پاس کرے۔
تصویر: Klaus Aßmann
فوجیوں کا انخلاء
صدر امریکی افواج کا کمانڈر ان چیف بھی ہوتا ہے، مگر اعلان جنگ کا اختیار کانگریس کو ہوتا ہے۔ صدر کانگریس کی اجازت کے بغیر افواج کو کسی جنگ میں بھیج سکتا ہے لیکن اس طرح معاملہ پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
تصویر: Klaus Aßmann
حتمی کنڑول
اگر صدر اختیارات کا غلط استعمال کرتا ہے یا کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو ایوان نمائندگان اس کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کر سکتا ہے۔ امریکی تاریخ میں ابھی تک ایسا تین مرتبہ ہوچکا ہے مگر آخر میں کسی کومورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ یہ کانگریس کا ایک خفیہ ہتھیار بھی ہے کیونکہ بجٹ کی منظوری کانگریس کرتی ہے اور اس کا اثر براہ راست شہریوں کی جیبوں پر پڑ سکتا ہے۔ شہری ایسی صورتحال پر خوش نہیں ہوتے۔
تصویر: Klaus Aßmann
9 تصاویر1 | 9
امریکا کے دوبارہ متحد ہونے کا وقت
جو بائیڈن نے اپنی فتح کے بعد اولین خطاب میں کہا کہ الیکشن کی وجہ سے امریکی عوام میں واضح تقسیم پیدا ہو گئی تھی، لیکن اب اس داخلی سیاسی تقسیم پر قابو پاتے ہوئے 'دوبارہ متحدہ ہونے کا وقت‘ آ گیا ہے۔ ساتھ ہی بائیڈن نے یہ بھی کہا کہ ان کے لیے امریکی صدر کے طور پر فرائض انجام دینا بڑے فخر کی بات ہو گی۔
بائیڈن کے مطابق، ''اب وقت آ گیا ہے کہ پوری دنیا میں امریکا کی عزت اور وقار بحال ہونا چاہییں۔‘‘ ڈیموکریٹ امیدوار بائیڈن کی فتح یقینی ہو جانے کے بعد امریکا کے مختلف شہروں میں ان کے حامیوں نے جشن منانے شروع کر دیے تھے۔
اشتہار
ٹرمپ کے سیاسی کیمپ کا موقف
جو بائیڈن کی فتح کے بعد صدر ٹرمپ اور ان کی انتخابی مہم کے عہدیدار ابھی تک موجودہ صدر کی شکست تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی طرف سے کہا گیا، ''انتخابی معرکہ ابھی ختم تو نہیں ہوا۔‘‘ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ کل پیر نو نومبر کو روز ٹرمپ کے ایماء پر اس بارے میں عدالتی کارروائی شروع کر دی جائے گی۔
نیوز ایجنسی اے پی نے ٹرمپ کے قریبی حلقوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی شکست تسلیم کرنے پر قطعاﹰ آمادہ نہیں ہیں۔
سو سالہ روایت خطرے میں
ڈونلڈ ٹرمپ نے اگر اپنی ناکامی کو باقاعدہ طور پر تسلیم نہ کیا، تو وہ امریکا میں ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ پرانی اس روایت کو توڑ دیں گے، جس کے تحت ہر ہارا ہوا صدارتی امیدوار ہمیشہ اپنی شکست تسلیم کر لیتا ہے۔
ٹرمپ ابھی تک گزشتہ منگل کے روز ہوئے الیکشن کے نتائج کو 'غیر منصفانہ‘ قرار دے رہے ہیں۔ تاہم ان کے بائیڈن کی فتح تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق اس لیے نہیں پڑے گا کہ اگر انہوں نے شخصی وقار کے ساتھ اپنی ہار نہ بھی مانی، تو بھی انہیں اپنے عہدہ صدارت کی موجودہ مدت کے اختتام پر وائٹ ہاؤس ہر حال میں خالی تو کرنا ہی پڑے گا۔