1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا میں بھوک اور افلاس میں اضافہ

13 اکتوبر 2022

جرمن غیرسرکاری تنظیم ویلٹ ہنگر ہلفے نے ایک تازہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ جنگی تنازعات، ماحولیاتی تبدیلیوں اور کووِڈ کی عالمی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں بھوک اور افلاس میں اضافہ ہوا ہے۔

Welthunger-Index | Dürre und schwerer Hunger im Süden Madagaskars
تصویر: Tsiory Andriantsoarana/WFP/dpa/picture alliance

ویلٹ ہنگر ہلفے کی جانب سے بھوک کا عالمی انڈیکس برائے 2022 جاری کیا گیا ہے، جس کے مطابق جنگی تنازعات، ماحولیاتی تبدیلیوں اور کورونا وائرس کی عالمی وبا کے علاوہ مختلف ممالک میں انتظامی سطح پر موجود خرابیوں کی وجہ سے بھوک اور افلاس کے خلاف لڑائی کو متاثر کیا ہے۔

اقوام متحدہ کی افغان معیشت کی ڈرامائی صورتحال پر تشویش

موسمیاتی تبدیلیاں، غذائی قلت کے شکار افراد کی تعداد دوگنی ہو گئی

ویلٹ ہنگر ہلفے کے مطابق اس رپورٹ کے لیے استعمال کیا جانے والا ڈیٹا یوکرینی جنگ سے پہلے کا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوکرین کی جنگ نے پہلے سے خراب صورت حال کو مزید ابتر بنایا ہے۔

ویلٹ ہنگر ہلفے کے مطابق پچھلے برس کے مقابلے میں دنیا بھر میں بھوک سے متاثرہ افراد کی تعداد آٹھ سو گیارہ ملین سے تجاوز کر کے آٹھ سو اٹھائیس ملین ہوئی ہے، جن میں 193 ملین خوراک کی شدید قلت کے شکار افراد شامل ہیں۔

اس تنظیم نے اپنی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ یوکرینی کی جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر خوراک، توانائی اور کھادوں پر قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جس سے آئندہ وقت میں صورت حال کو مزید خراب ہو سکتی ہے۔

دنیا میں خشک سالی کے تباہ کن اثرات

03:08

This browser does not support the video element.

اس تنظیم کے انڈیکس میں 121 ممالک کو چار اشاریوں کی مدد سے جانچا گیا ہے، جس میں یمن سرفہرست ہے، جہاں ملک کی 41 اعشاریہ چار فیصد آبادی بھوک سے متاثرہ ہے۔ اس انڈیکس میں جنوبی ایشیا اور سب صحارن افریقہ کے خطے میںبھوک اور افلاس کی شرح بلند ترین بتائی گئی ہے۔

ع ت، ر ب (ڈی پی اے)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں