دنیا میں تقریباﹰ ایک ارب انسانوں کو بھوک کے مسئلے کا سامنا
14 اکتوبر 2021
تازہ ترین ورلڈ ہنَگر انڈکس کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت تقریباﹰ ایک ارب انسانوں کو بھوک کے مسئلے کا سامنا ہے۔ گزشتہ برسوں میں عالمی سطح پر بھوک کا مسئلہ کچھ کم ہو گیا تھا مگر اب اس میں دوبارہ شدت آتی جا رہی ہے۔
اشتہار
عالمی سطح پر بھوک کے خاتمے کے لیے کوشاں جرمنی کی ایک غیر سرکاری تنظیم 'وَیلٹ ہُنگر ہِلفے‘ (Welthungerhilfe) کے رواں برس کے لیے جاری کردہ انڈکس کے مطابق اس وقت بین الاقوامی سطح پر آٹھ سو گیارہ ملین سے زائد انسانوں کو بھوک کا مسئلہ درپیش ہے، جن میں سے اکتالیس ملین کے لیے یہ صورت حال عنقریب بحرانی صورت اختیار کر سکتی ہے۔
کم ہوتی ہوئی بھوک پھر بڑھنے لگی
ورلڈ ہَنگر ہیلپ کے سیکرٹری جنرل ماتھیاس مَوگے نے جمعرات چودہ اکتوبر کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں اپنی تنظیم کا ورلڈ ہَنگر انڈکس 2021ء جاری کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برسوں میں دنیا میں بھوک کے مسئلے میں کچھ کمی آئی تھی مگر اب اس میں دوبارہ شدت آتی جا رہی ہے۔
ماتھیاس مَوگے نے کہا، ''2020ء میں زمین پر 811 ملین انسان ایسے تھے جنہیں مستقل بنیادوں پر بھوک اور کم خوراکی کا سامنا تھا۔‘‘ انہوں نے عالمی برادری خاص طور پر امیر اور ترقی یافتہ ممالک کے سیاست دانوں سے مطالبہ کیا کہ وہ مختلف بحرانوں کے باعث پیدا ہونے والی اشیائے خوراک کی قلت پر قابو پانے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات کریں۔
اس موقع پر ورلڈ ہَنگر ہیلپ کی خاتون صدر مارلیہن تِھیمے نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر مسلح تنازعات، کئی طرح کے بحرانوں اور جنگوں کی وجہ سے انسانیت کو درپیش بھوک کا مسئلہ دوبارہ شدید ہو چکا ہے۔ ان کے مطابق 2019ء میں پوری دنیا میں تقریباﹰ 690 ملین انسانوں کو پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملتا تھا لیکن گزشتہ برس یہ تعداد بڑھ کر 811 ملین ہو گئی۔
اشتہار
'بھوک بھی قتل ہی کی ایک صورت ہے‘
برلن میں امسالہ ورلڈ ہَنگر انڈکس کے اجراء کی تقریب کے موقع پر جرمن سیاسی جماعت کرسچن سوشل یونین سے تعلق رکھنے والے ترقیاتی امداد کے وفاقی جرمن وزیر گیئرڈ میولر نے کہا کہ کرہ ارض پر بھوک کے مسئلے کی موجودہ صورت حال تشویش ناک ہے اور اس کا فوری تدارک کیا جانا چاہیے۔
گیئرڈ میولر کے الفاظ میں، ''بھوک بھی قتل ہی کی ایک صورت ہے۔‘‘ انہوں نے زور دے کر کہا کہ آج کی دنیا اتنی ترقی کر چکی ہے اور ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ عین ممکن ہے کہ زمین پر تمام انسانوں کے لیے پیٹ بھر کر کھانے کی دستیابی کو یقینی بنایا جا سکے۔
افریقہ میں خُشک سالی: بھوک، پیاس اور خوف
کوئی بارش، کوئی فصل نہیں، کھانے کو بمشکل کچھ دستیاب۔ افریقہ کو اس دہائی کے بد ترین بحران سکا سامنا۔ وہاں 14 ملین انسان خطرے میں ہیں۔ ایتھوپیا کی صورتحال ابتر ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
افریقہ میں خشک سالی
کوئی بارش، کوئی فصل نہیں، کھانے کو بمشکل کچھ دستیاب۔ افریقہ کو اس دہائی کے بد ترین بحران سکا سامنا۔ وہاں 14 ملین انسان خطرے میں ہیں۔ ایتھوپیا کی صورتحال ابتر ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
سنگین نقصان
ایتھوپیا کے باشندوں کی اکثریت کھیتی باڑی اور مویشیوں کو پال کر اپنا گزر بسر کرتی ہے۔ عفار کے علاقے سے تعلق رکھنے واے ایک کسان کا کہنا ہے، ’’ بارش کی آخری بوندیں میں نے گزشتہ رمضان میں دیکھی تھیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Negeri
بچوں کو لاحق خطرات
خُشک سالی اور بھوک 1984ء کی یاد دلاتی ہے۔ تب ایتھوپیا میں غذائی قلت قریب ایک ملین انسانوں کی ہلاکت کی سبب بنی تھی۔ اب یہ ملک پھر بھوک کے بحران کا شکار ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق چار لاکھ کم سن لڑکے اور لڑکیاں کم خوراکی کا شکار ہیں اور انہیں فوری طبی امداد کے ضرورت ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
النینو کے سبب سانس لینا دشوار
زمبابوے میں بھی فصلوں کی ابتر حالت ہے۔ دارالحکومت ہرارے کے کھیت بُھٹے کی لہلاتی فصل کی بجائے خُشکی اور جھاڑ جنگل کا مسکن بنی ہوئی ہیں۔ اس سب کے باعث تھوڑے عرصے کے وقفے سے اس جگہ آنے والا موسمی سائیکل ہے جسے النینو کہا جاتا ہے۔ اس بار اس کا دور دور نام و نشان نہیں۔
تصویر: Reuters/P. Bulawayo
آخری صلاحیتوں کا استعمال
نقاہت زدہ گائے بمشکل کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ زمبابوے کے مرکزی علاقے کے کسان اسے چلانے کی تمام تر کوششیں کر رہے ہیں۔ 2015 ء میں اُس سے پہلے سال کے مقابلے میں نصف بارش بھی نہیں ہوئی۔ فصلیں اور کھیت چٹیل میدان بنے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/P. Bulawayo
بالکل خشک زمین پر
عموماً اس جگہ کھڑے ہونا یا بیٹھنا ناممکن ہے۔ جس کی وجہ دریائے بلیک اُمفو لوزی ہے۔ جنوبی افریقی شہر ڈربن کے شمال مشرق کا یہ دریا بالکل خُشک پڑا ہے۔ اس کے ارد گرد آباد شہریوں نے اس دریا کے وسط میں ایک کنواں کھودا ہے جس سے وہ پانی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/R. Ward
خُشک سالی کے سبب قیمتیں ہوش رُبا
ملاوی بھی بُری طرح خُشک سالی کا شکار ہے۔ اس کے دارالحکومت کے قریب ہی واقع ایک مارکیٹ میں خریدار مہنگائی سے پریشان نظر آ رہے ہیں۔ بنیادی غذائی اجزاء جیسے کہ بھٹے کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہو چُکا ہے۔ فصلوں کی خرابی کے باوجود انہیں درآمد کیا جانا ضروری تھا۔
تصویر: Reuters/M. Hutchings
7 تصاویر1 | 7
امسالہ انڈکس کے مطابق گزشتہ برس دنیا بھر میں 155 ملین انسانوں کو خوراک کی دستیابی کے حوالے سے انتہائی بے یقینی کی صورت حال کا سامنا رہا اور یہ تعداد 2019ء کے مقابلے میں تقریباﹰ 20 ملین زیادہ تھی۔
سب سے زیادہ متاثرہ خطے
ورلڈ ہَنگر ہیلپ کے اس سالانہ انڈکس کے مطابق دنیا میں پہلے کی طرح آج بھی سب سے زیادہ بھوک افریقہ میں زیریں صحارا کے خطے کے ممالک اور جنوبی ایشیائی ریاستوں میں پائی جاتی ہے۔
ان خطوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ وہاں انسانی آبادی بہت زیادہ ہے، اوسط فی کس سالانہ آمدنی کم ہے اور متاثرہ ترقی پذیر ریاستوں کو کئی طرح کے مسائل اور بحرانوں کا سامنا بھی ہے، جن سے بھوک کا مسئلہ اور بھی شدید ہو جاتا ہے۔
مزدوروں کا عالمی دن: پندرہ پاکستانی، پندرہ کہانیاں
پاکستان میں کروڑوں انسان ایسے ہیں، جنہیں پیٹ کی بھوک کے خلاف ہر روز ایک جنگ لڑنا پڑتی ہے۔ محرومی کی زندگی گزارنے والے یہ وہ انسان ہیں، جنہیں اس شکایت کا موقع بھی کم ہی ملتا ہے: ’ہیں تلخ بہت بندہٴ مزدور کے اوقات‘۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تیری دنیا کے یہ بندے کدھر جائیں؟
دھوپ میں سڑک پر اس تین پہیوں والی ریڑھی کو کھینچنے والے غلام مسیح نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یوم مئی منانے کا فائدہ؟ ہم غریبوں کے مسائل تو حل نہیں ہوتے۔ نہ محرومی کم ہوئی اور نہ زندگی آسان۔ میں پینتیس برسوں سے یہی کرتا آ رہا ہوں۔ اب میرے بچے بھی یہی کام کرتے ہیں۔ بس وقت کا پہیہ گھومتا جاتا ہے۔ ہم مزوری نہ کریں، تو بھوکے مر جائیں گے۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
پسینے میں گم ہو جانے والے آنسو
مظفر گڑھ کا ساجد حسن آٹھ برسوں سے مال بردار گاڑیوں پر سامان رکھتا اور اتارتا ہے۔ پرائمری پاس ساجد کو والد نے اسکول سے اٹھا کر کام پر لگا دیا:’’میرے والد کے تین شادیوں سے بائیس بچے پیدا ہوئے۔ اب میرا والد فوت ہو چکا ہے اور گھر مسائل سے بھرا ہوا ہے۔ مزدور کی زندگی کتے سے بھی بدتر ہے۔ مالک کام کے پیسے یوں دیتا ہے، جیسے احسان کر رہا ہو۔‘‘ یہ بتاتے ہوئے ساجد کے آنسو اس کے چہرے پر پسینے میں گم ہو گئے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
کام نہ ملنے کا مطلب فاقہ
فیاض علی آٹھویں پاس ہے، غربت نے اسکول چھڑوایا اور اب نتیجہ چار پانچ سو روز کی دیہاڑی ہے۔ اس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شدید گرمی میں مشقت سے کبھی کبھی طبیعت خراب بھی ہو جاتی ہے:’’جس شام پکانے کو کچھ گھر نہ لے جا سکوں، اس شام ہم فاقہ کرتے ہیں۔ دوسروں کے بچے تو اچھے اسکولوں میں جاتے ہیں اور ہمارے جیسے سڑکوں پر زندگی گزار دیتے ہیں۔ اس نا انصافی کا ذمے دار میں خود تو نہیں ہوں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
ہاتھوں کے چھالے اور ورم
پروین اختر پچھلے تیس سال سے مختلف لوگوں کے گھروں میں کام کر کے روزانہ دو تین سو روپے کما لیتی ہے اور کبھی ساتھ میں کھانا بھی مل جاتا ہے۔ پروین نے بتایا کہ اس کا شوہر نشے کا عادی ہے اور آئے دن مار پیٹ کرتا ہے۔ اس کی چار بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے، دو ابھی باقی ہیں۔ پروین نے اپنے ہاتھوں کے چھالے دکھاتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’اس ملک میں غریب کو یہ پوچھنے والا کوئی نہیں کہ وہ زندہ ہے تو کیسے؟‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
دوسرے شہر میں مزدوری
محمد جمیل ضلع مظفر گڑھ سے راولپنڈی اسلام آباد اس لیے آیا کہ اپنے قصبے میں اسے مزدوری بھی نہیں ملتی تھی۔ ہر موسم میں مزدوری کا کام کرنے والا جمیل آٹھ تا دس ہزار روپے ماہانہ تک کما لیتا ہے۔ اس کے تمام آٹھ بہن بھائی شادی شدہ ہیں اور اس کے اپنے بھی دو بچے ہیں۔ اس کا کہنا ہے، ’’افسوس اس بات کا ہے کہ والدین غریب تھے اور میں کم عمری میں محنت مزدوری پر مجبور ہونے کے باعث تعلیم حاصل نہ کر سکا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
گھروں میں مالی کا کام
اللہ نور نامی یہ شہری چالیس سال پہلے بنوں سے مزدوری کے لیے اسلام آباد آیا تھا۔ اسے ایسا اپنے والد کے انتقال کے باعث کرنا پڑا۔ پشاور موڑ کے قریب پانچ ہزار روپے ماہانہ کرائے پر رہنے والا اللہ نور عام لوگوں کے گھروں میں باغیچوں اور کیاریوں کی دیکھ بھال کر کے ہر ماہ دس بارہ ہزار روپے کما لیتا ہے، جس کا ایک حصہ اسے ہر ماہ اپنے آبائی گاؤں میں اپنے گھر والوں کو بھیجنا ہوتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بوٹ پالش سے بچوں کی تعلیم
پنڈی بھٹیاں کےعاشق علی کے باپ دادا بھی موچی تھے اور اب راولپنڈی میں مقیم عاشق اسلام آباد میں ایک درخت کے نیچے پوٹ پالش اور جوتے مرمت کرتا ہے:’’میں روزانہ تین چار سو روپے کما لیتا ہوں۔ ہے۔ اپنے پانچوں بچوں کو کسی نہ کسی طرح تعلیم بھی دلوا رہا ہوں تاکہ وہ پڑھ لکھ کر کوئی اچھی نوکری کر سکیں۔ مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ میری بیوی بھی لوگوں کے گھروں میں جا کر کام نہ کرے تو ہمارا گزارہ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
کوڑے میں سے کاغذ، گتے کے ذریعے رزق
گل بی بی سارا دن پرانا کاغذ اور کوڑے میں سے ایسی چیزیں ڈھونڈتی ہے، جنہیں بیچ کر وہ اپنی زندگی کی گاڑی چلا سکے۔ اس کی شادی بہت چھوٹی عمر میں ہو گئی تھی۔ اس کے نو بچے ہیں اور بیمار شوہر بوڑھا ہو چکا ہے۔ وہ روز چھ سات سو روپے تک کما لیتی ہے:’’میری ساری عمر سڑکوں پر کوڑا چنتے اور مزدوری کرتے گزری ہے۔ اپنے بچوں کو پڑھانا لکھانا ہمارے جیسوں کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام صرف پیسوں والے کر سکتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
نوکری نہ ملی تو سٹال لگا لیا
ایف اے پاس نوجوان فیاض حسین آٹھ ہزار روپے ماہانہ کرائے پر اسلام آباد کے ایک فلیٹ میں رہتا ہے۔ مسلسل بے روزگاری کے بعد اس نے اپنے فلیٹ ہی کے سامنے ایک دیوار کے ساتھ ایک سٹال لگا لیا۔ ’’میں روزانہ ٹافیاں، گولیاں، بسکٹ بیچ کر تین سے پانچ سو روپے تک کما لیتا ہوں لیکن مہنگائی اتنی ہے کہ یہ کمائی دال روٹی کے لیے بھی مشکل ہی سے کافی ہوتی ہے۔ میں ابھی تک اپنے گھر والوں کی کوئی مدد نہیں کر پا رہا۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
عمر تیرہ سال، کام کا تجربہ چار سال
چارسدہ سے تعلق رکھنے والے تیرہ سالہ اعجازالحق پچھلے چار سال سے ایک پرائیویٹ اسکول اور چند گھروں میں صفائی کا کام کرتا ہے۔ اس کے تین بہن بھائی ہیں، جو سب اس سے چھوٹے ہیں۔ اعجاز کو خود بھی پڑھائی کا بڑا شوق ہے اور اسے یونیفارم پہن کر اسکول جاتے بچے اچھے لگتے ہیں۔ ’’میرے والدین کہتے ہیں کہ تم کام نہیں چھوڑ سکتے۔ مزدوری نہیں کریں گے تو کھائیں گے کہاں سے؟‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
سڑک کے کنارے حجام
اسلام آباد میں ایک سڑک کے کنارے اور ایک درخت کے نیچے حجام کے طور پر اپنی چلتی پھرتی دکان چلانے والے ناصر کا تعلق سرگودھا سے ہے۔ اس کا پورا خاندان راولپنڈی کے علاقے راجہ بازار میں رہتا ہے۔ ناصر نے بتایا کہ وہ روزانہ پانچ چھ سو روپے تک کما لیتا ہے۔ ’’میرا خواب ہے کہ میری اپنی ہیئر ڈریسر کی ایک بڑی سی دکان ہو۔ اس کے لیے لاکھوں روپے ہونے چاہیئں۔ غریبوں کے تو خواب بھی ادھورے ہی رہ جاتے پیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
مڈل پاس ویٹر
مانسہرہ سے پاکستانی دارالحکومت میں آنے والا چوبیس سالہ اجمل پچھلے آٹھ سال سے ایک ریستوران پر ویٹر کا کام کرتا ہے۔ اس کی ماہانہ تنخواہ چودہ ہزار روپے ہے اور آجر کی طرف سے رہائش اور کھانا پینا بھی مفت ہے۔ وہ اپنے ساری کمائی گاؤں میں اپنے گھر والوں کو بھیج دیتا ہے۔ ’’مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ مجھے اپنی پڑھائی نامکمل ہی چھوڑ دینا پڑی۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
آٹھ بچوں کی بیوہ ماں
پشاور سے آنے والی زریں گل آٹھ بچوں کی ماں ہے اور بیوہ ہے۔ وہ سات سال سے اسلام آباد کے علاقے جی الیون میں رہتی ہے۔ اس کے تین بیٹے ہیں اور پانچ بیٹیاں۔ بیٹے بھی مزدوری کرتے ہیں۔ کوئی کوڑا کرکٹ اٹھاتا ہے، کوئی ردی بیچتا ہے۔ زریں گل نے شکایت کرتے ہوئے کہا، ’’سارے دن کی محنت کے بعد بھی گزارہ نہیں ہوتا۔ لوگ آتے ہیں، تصویریں بناتے ہیں۔ کوئی ہماری مجبوریاں نہیں سمجھتا۔ غربت تو تماشہ ہے امیروں کے لیے۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
باجوڑ کا قلفی فروش
احمد خان کا تعلق باجوڑ کے قبائلی علاقے سے ہے۔ وہ اسلام آباد میں اپنے ایک رشتے دار کے پاس رہتا ہے۔ وہ چھ سال سے قلفیاں بیچ رہا ہے۔ پرائمری پاس احمد خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے علاقے میں غربت بہت زیادہ ہے اور کام کاج کوئی نہیں۔ اسی لیے ہم محنت مزدوری کے لیے دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔ میرے کچھ دوست اسلام آباد آ رہے تھے تو میں بھی ساتھ آ گیا۔ اب میں باقاعدگی سے پیسے گھر بھیجتا ہوں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
کام کیا لیکن تنخواہ نہیں ملی
اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے میں ملازم زلیخا مسیح نے، جو کڑی دھوپ میں کچھ دیر سستانے کے لیے ایک درخت کے نیچے بیٹھی تھی، بتایا کہ اس کی تنخواہ بارہ ہزار ہے، جو رو رو کر ملتی ہے:’’پچھلے دو ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں۔ پہلے میں گھروں میں کام کر کے بھی کچھ پیسے کما لیتی تھی۔ اب بیمار رہتی ہوں تو مجھ سے زیادہ کام بھی نہیں ہوتا۔ مہنگائی اتنی ہے کہ سمجھ نہیں آتا کہ کھائیں کیا اور زندہ کیسے رہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
15 تصاویر1 | 15
بھوک میں اضافے کے بڑے اسباب
’وَیلٹ ہُنگر ہِلفے‘ کے سیکرٹری جنرل ماتھیاس مَوگے نے کہا کہ اس وقت دنیا کے جن ممالک میں بھوک کا مسئلہ پوری انسانیت کے لیے المیہ بن چکا ہے، ان میں افریقہ سے صومالیہ اور عرب دنیا سے یمن بھی شامل ہیں۔ صومالیہ برس ہا برس سے بدامنی کا شکار ہے اور یمن میں جاری کئی سالہ جنگ بھی اب تک اس ملک کی مجموعی آبادی کے بہت بڑے حصے کو بھوک کا شکار بنا چکی ہے۔
مَوگے نے کہا کہ جو عوامل دنیا میں گزشتہ برس بھوک کے مسئلے کی شدت میں اضافے کا سبب بنے، ان میں انتہائی گرم موسم، خشک سالی، تباہ کن سیلابوں میں اضافہ اور دیگر ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیاں تو شامل ہیں ہی، لیکن ساتھ ہی کورونا وائرس کی وجہ سے پھیلنے والی عالمی وبا نے بھی حالات کو مزید تکلیف دہ بنا دیا۔
م م / ع ح (ڈی پی اے،اے ایف پی)
یمن: تین لاکھ سے زائد بچوں کو خوراک کی شدید کمی کا سامنا
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 14 ملین یمنی باشندوں کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے جبکہ تین لاکھ ستر ہزار بچے غذائی قلت سے دوچار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
اقوام متحدہ کے مطابق جنگ کی وجہ سے یمن میں پانچ لاکھ بچوں کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور ان میں سے تین لاکھ ستر ہزار بچے شدید بھوک کے شکار ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
غذائی قلت کے شکار ان بچوں کی عمریں پانچ برس سے بھی کم ہیں جبکہ ان میں سے دو تہائی بچے ایسے ہیں، جنہیں فوری امداد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ بچے اس قدر بیمار ہو چکے ہیں کہ ان کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس یمن میں غذائی قلت کے شکار بچوں میں پچاس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر بچوں کا وزن ان کی جسمانی نشو نما کے لحاظ سے کم ہے اور وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/Yahya Arhab
اقوام متحدہ کے نئے اعداد و شمار کے مطابق یمن کی نصف آبادی کو غذائی قلت کا سامنا ہے اور یہ تعداد تقریبا چودہ ملین بنتی ہے۔ ان متاثرہ افراد کو طبی امداد کی بھی کمی کا سامنا ہے۔
تصویر: imago/Xinhua
اس جنگ زدہ ملک میں ہیضے جیسی متعدی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ صرف عدن شہر میں اس بیماری سے متاثرہ ایک سو نوے افراد کو ہسپتال لایا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
یمن کے کئی علاقوں میں قحط کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ قحط کا اعلان تب کیا جاتا ہے، جب کسی علاقے کے کم از کم بیس فیصد گھرانوں کو اَشیائے خوراک کی شدید قلّت کا سامنا ہو، غذائی قلّت کے شکار انسانوں کی تعداد تیس فیصد سے بڑھ جائے اور ہر دَس ہزار نفوس میں اَموات کی تعداد دو افراد روزانہ سے بڑھ جائے۔
تصویر: Getty Images/B. Stirton
کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے لحاظ سے یمن کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے لیکن ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے اس ملک میں تجارتی جہازوں کی آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کی اسی فیصد آبادی کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔
تصویر: AP
یمن کا اقتصادی ڈھانچہ درہم برہم ہو چکا ہے۔ بینکاری کا شعبہ بھی سخت متاثر ہوا ہے۔ تجارتی حلقوں کے مطابق دو سو ملین ڈالر سے زیادہ رقم بینکوں میں پھنسی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے درآمد کنندگان اَشیائے خوراک بالخصوص گندم اور آٹے کا نیا سٹاک منگوا نہیں پا رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Huwais
بہت سے مغربی بینکوں نے بھی یمن کے خوراک درآمد کرنے والے تاجروں کو قرضے دینے سے انکار کر دیا ہے کیونکہ اُنہیں خطرہ ہے کہ یمن کے ابتر حالات کے باعث یہ تاجر یہ قرضے واپس ادا کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔