انٹارکٹیکا کی برف سے ٹوٹ کر الگ ہونے والا یہ برفانی تودہ ہسپانوی جزیرے میجروکا کے سائز سے بھی بڑا ہے۔ اس لحاظ سے پانی کی سطح پر تیرنے والا برف کا یہ ٹکڑا دنیا کا سب سے بڑا برفانی تودہ ہے۔
اشتہار
یورپی خلائی ایجنسی (ای ایس اے) نے بدھ کے روز اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انٹارکٹیکا کے منجمد کنارے سے برف کا ایک بہت بڑا ٹکڑا الگ ہو کر ویڈیل کے سمندری علاقے میں آ گیا ہے جس سے دنیا کے ایک سب سے بڑے آئس برگ یعنی برفانی تودے کا جنم ہوا ہے۔
اس برفانی تودے کو، اے - 76 کا نام دیا گیا ہے جس کا سائز سطح سمند پر تقریباً چار ہزار 320 مربع کلو میٹر بتایا گیا ہے۔ اس کی لمبائی 175 کلو میٹر جبکہ چوڑائی 25 کلومیٹر کے قریب ہے۔ اس طول عرض کی بنا پر برف کا یہ تودہ اسپین کے معروف جزیرے میجروکا سے بھی بڑا ہے۔
اے- 76،رون آئس شیلف سے الگ ہوا ہے۔ سب سے پہلے برطانوی 'انٹارکیٹک سروے' نے اس کا پتہ لگایا تھا۔ برف سے متعلق امریکی ادارے 'نیشنل آئس سینٹر'' نے بھی خلائی ادارے کی مدد سے لی جانے والی تصاویر کی بنیاد پر اس کی تصدیق کی ہے۔
ویڈیل کے سمندر میں ہی 'اے - 23 اے' نامی ایک برفانی تودہ پہلے سے ہی تیر رہا ہے تاہم برف کا یہ نیا ٹکڑا اس سے کہیں بڑا ہے۔ اے - 23اے حجم کے حساب سے تقریباً تین ہزار 380 کلومیٹر پر مشتمل ہے جبکہ اس نئے برفانی تودے کا حجم سوا چار ہزار مربع کلو میٹر سے بھی زیادہ ہے۔
اس سمندری علاقے میں متعدد بہت بڑی تیرتی ہوئی برف کی چادروں میں سے 'رون آئس شیلف' ایک ہے جو بر اعظم انٹارکٹیکا کی سرزمین سے ملتی ہیں اور آس پاس کے سمندروں تک پھیلی ہوئی ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیاں انٹارکٹیکا اور وہاں کے پینگوئنز کے لیے خطرناک
سائنسدانوں کو حال ہی میں یہ پتا چلا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں بر اعظم انٹارکٹیکا اور وہاں موجود پینگوئنز کی آبادی پر گہرے اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ فروری سن 2020 انٹارکٹیکا کی تاریخ میں اب تک کا گرم ترین فروری تھا۔
تصویر: Reuters/U. Marcelino
ایک انٹارکٹک مشن پر
اس سال کے اوائل میں دو یونیورسٹیوں سے وابستہ امریکی سائنسدانوں کی ایک ٹیم ایک مشن پر انٹارکٹیکا روانہ ہوئی۔ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ مغربی انٹارکٹک میں سن 1970 کے مقابلے میں اب کتنے ’چن سٹریپ‘ پینگوئن بچے ہوئے ہیں۔ اس خطے میں آخری مرتبہ ایسا سروے سن 1970 میں کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/U. Marcelino
چِن سٹریپ پینگوئنز کی خصوصیات
چِن سٹریپ نسل کے پینگوئنز بحیرہ جنوبی پیسیفک اور بحیرہ انٹارکٹک کے جزائر پر رہتے ہیں۔ انہیں یہ نام اپنے سر کے نچلے حصے پر پتلی کالی پٹی کی وجہ سے دیا جاتا ہے۔ وہ کافی بلند آواز میں چلاتے ہیں۔ ایک مخصوص بو دور سے ہی بتا دیتی ہے کہ آس پاس چن سٹریپ نسل کے پینگوئنز ہیں۔ انہیں عموما انسانوں سے ڈر نہیں لگتا۔
تصویر: Reuters/U. Marcelino
پریشان کن نتائج
سائنسدانوں نے پینگوئنز کی گنتی کے لیے ڈرون سمیت مختلف طریقے استعمال کیے۔ انہیں پتا چلا کہ پینگوئنز کی چند کالونیوں میں تعداد ستر فیصد سے بھی کم ہو چکی تھی۔ بیالوجسٹ اسٹیو فارسٹ کے بقول یہ ڈرامائی کمی ہے۔
تصویر: Reuters/U. Marcelino
کھانے کی قلت
چن سٹریپ نسل کے پینگوئنز عام طور پر چھوٹی مچھلیاں کھاتے ہیں۔ اپنا کھانا تلاش کرنے کے لیے وہ روزانہ پچاس میل یا اسی کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتے ہیں۔ ان کے پر ایک کوٹ کی طرح کام کرتے ہیں جن کی مدد سے وہ برف جیسے ٹھنڈے پانی میں تیر کر یہ فاصلہ طے کرتے ہیں۔ لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ان پینگوئنز کی خوراک کم ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/U. Marcelino
نسل آگے بڑھانے کا چیلنج
چن سٹریپ نسل کے پینگوئنز اپنے بچوں کی پیدائش کے وقت الگ تھلگ جگہوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ پتھروں کے بیچ ایک گھونسلہ بنا کر دو انڈے دیتے ہیں اور پھر نر اور مادہ دونوں ان انڈوں کا خیال رکھتے ہیں۔ البتہ کھانے کی قلت کی وجہ سے ری پروڈکشن کا عمل بھی متاثر ہو رہا ہے۔
تصویر: Reuters/U. Marcelino
پچاس سالوں میں تعداد نصف
دنیا بھر میں اس وقت قریب آٹھ ملین چن سٹریپ پینگوئنز ہیں۔ لیکن گزشتہ پچاس برسوں میں بحیرہ جنوبی پیسیفک اور بحیرہ انٹارکٹک کے خطے میں ان کی تعداد نصف رہ گئی ہے۔ فی الحال ان پینگوئنز کو ناپید ہونے کا خطرہ نہیں تاہم ان کی تعداد میں اس قدر کمی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں ہمیں کس طرح متاثر کر رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/U. Marcelino
6 تصاویر1 | 6
اس علاقے میں بڑے برفانی ٹکڑوں کا اپنی شیلف سے الگ ہوتے رہنما عموما ًقدرتی عمل کا حصہ ہے تاہم بعض شیلف کے اندر گزشتہ چند برسوں کے دوران اس طرح کی ٹوٹ پھوٹ میں کافی تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ برف کے اعداو شمارسے متعلق امریکی ادارے 'نیشنل اسنو اینڈ آئس ڈیٹا سینٹر' کے مطابق سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ موسم میں ہونے والی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔