کینیا کی حکومت سکیورٹی اور معاشی وجوہات کی بنا پر ملک میں موجود پناہ گزینوں کے دو کیمپ بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان میں سے ایک ایسا بھی ہے جسے دنیا کا سب سے بڑا مہاجر کیمپ کہا جاتا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے پی کی نیروبی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق کینیا نے دنیا کے سب سے بڑے مہاجر کیمپ سمیت دو کیمپوں کو سکیورٹی اور معاشی وسائل کی کمی کے باعث بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں نے نیروبی حکام کے اس فیصلے پر شدید تنقید کی ہے۔
کینیا کی وزارت داخلہ کے مستقل سیکرٹری کرانیا کیبیچو کا کہنا تھا کہ کیمپوں کی بندش سے منفی اثرات مرتب ہوں گے اور بین الاقوامی برادری کو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ذمہ داری نبھانا چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حکومت نے مہاجرین کی مدد کرنے والے سماجی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے والے حکومتی ادارہ برائے امور مہاجرین ختم کر دیا ہے۔
کیبیچو کا یہ بھی کہنا تھا کہ یو این ایچ سی آر، کینیا اور صومالیہ کے مابین طے ہونے والے پناہ گزینوں کی رضاکارانہ واپسی کے معاہدے پر عمل درآمد صومالیہ کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے۔ ان کے بقول کینیا گزشتہ پچیس برسوں سے تارکین وطن کا بوجھ سنبھالے ہوئے ہے۔
نیروبی حکام نے داداب اور کاکوما نامی دو کیمپوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کینیا کے مشرقی علاقے میں قائم دنیا کے سب سے بڑے داداب مہاجر کیمپ میں تین لاکھ 28 ہزار تارکین وطن آباد ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق صومالیہ سے ہے۔
کاکوما کیمپ میں بھی ایک لاکھ 90 ہزار سے زائد مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بھی زیادہ تر تارکین وطن جنگ زدہ ملک صومالیہ سے بھاگ کر آئے ہیں۔ صومالیہ کو القاعدہ سے منسلک الشباب کے جنجگوؤں سے نمٹنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
کیبیچو کا کہنا تھا کہ ان کیمپوں میں الشباب کے دہشت گرد پروان چڑھ رہے ہیں۔ الشباب نے کینیا کی جانب سے افریقی اتحادی افواج کے ہمراہ صومالیہ میں فوج بھیجنے کے فیصلے کے بعد کینیا میں حملے کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے۔ گزشتہ برس ستمبر کے مہینے میں نیروبی کے ایک شاپنگ مال میں کی گئی دہشت گردی کی کارروائی میں 63 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حملہ کرنے والے دہشت گرد مبینہ طور پر کاکوما کیمپ میں رہائش پذیر تھے۔
ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے کینیا کی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ کیمپ بند کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔
ان دنوں شورش زدہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مہاجرين مختلف يورپی رياستوں ميں مہاجر کيمپوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ دنيا کے مختلف حصوں ميں مہاجر کيمپوں ميں زندگی کيسی ہوتی ہے، اس پر ڈی ڈبليو کی خصوصی پکچر گيلری۔
تصویر: picture-alliance/AP/R, Adayleh
اميد کے منتظر
ايک شامی پناہ گزين ترکی کے ايک مہاجر کيمپ ميں پيدل چلتے ہوئے۔ شامی خانہ جنگی کے سبب قريب 2.7 ملين شامی پناہ گزين ترکی ميں پناہ ليے ہوئے ہيں۔ متعدد مرتبہ انقرہ حکومت کی يقين دہائيوں کے باوجود شامی شہريوں کو ايک عرصے تک ترکی ميں ملازمت کی اجازت نہ ملی، جس سبب ملازمت کے اہل مردوں ميں نا اميدی بڑھ رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Court
انسانی معيارات پر پورا اترنے والا پہلا فرانسيسی مہاجر کيمپ
تارکين وطن شمالی فرانس کے شہر ڈنکرک کے پاس گراندے سانتھ کے مقام پر تعمير کردہ نئے مہاجر کيمپوں ميں منتقل ہوتے ہوئے۔ ’انسانی معيارات پر پورا اترنے والے‘ پہلے فرانسيسی مہاجر کيمپوں ميں تارکين وطن کی منتقلی کا کام مارچ کے آغاز ميں شروع ہوا۔ امدادی تنظيم ’ڈاکٹر ود آؤٹ بارڈرز‘ (MSF) کی جانب اب تک ايسے دو سو کيبن تعمير کيے جا چکے ہيں، جبکہ منصوبہ 375 کيبنز کی تعمير کا ہے۔
تصویر: Reuters/P. Rossignol
اميد کا چہرہ
عراق سے تعلق رکھنے والی ايک تين سالہ کُرد بچی، لکڑی سے بنے کيبن ميں مسرت اور اميد بھری نگاہوں سے ديکھتی ہوئی۔ گراندے سانتھ ميں تعمير کردہ ان نئے کيبنز ميں رہنے والے زيادہ تر مہاجرين قبل ازيں گراندے سانتھ اور کيلے کے مقامات پر انتہائی خراب حالات ميں وقت گزار چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/P. Rossignol
نہ آگے جانے کا راستہ، نہ واپسی کی کوئی راہ
يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر اڈومينی شہر ميں ہزاروں پناہ گزين انتہائی ناقص حالات ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ چند بلقان ممالک کے حاليہ اقدامات کے سبب وہاں ہزاروں تارکين وطن پھنس گئے ہيں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
چند لمحوں کی مسکراہٹيں
اڈومينی کے مقام پر بچے ايک کرتب دکھانے والے کی حرکتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے۔ طبی ماہرين بارہا يہ تنبيہ کررہے ہيں کہ اس کيمپ ميں بچوں کے ليے حالات انتہائی ناساز ہيں اور سردی اور نمی کے باعث بچوں ميں بہت سے بيمارياں پيدا ہو رہی ہيں۔
تصویر: Getty Images/D. Kitwood
ايک گمنام زندگی گزارتے ہوئے
شمال مشرقی سوڈان ميں اريٹريا کے پناہ گزين واد شريفے کے مہاجر کيمپ ميں زير علاج۔
تصویر: Reuters/M. N. Abdallah
مضبوط بنيادوں کا قيام
الجزائر کی بلديات تندوف ميں واقع ايک مہاجر کيمپ ميں سہاواری قبيلے سے تعلق رکھنے والی ايک استانی بچوں کو پڑھاتے ہوئے۔ اس مقام پر کُل پانچ مہاجر کيمپ موجود ہيں، جن ميں ايک لاکھ پينسٹھ ہزار مہاجرين اپنے شب و روز گزارتے ہيں۔ وہاں ايک ديوار پر پيغام لکھا ہے، ’’اگر آپ کا آج دشوار ہے، تو مستقبل روشن ہو گا۔‘‘
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
افغان مہاجرين پاکستان ميں : ايک ناگزير بوجھ
پاکستان ميں بسنے والے تقريباً 1.7 ملين رجسٹرڈ افغان مہاجرين ميں سے کچھ کے بچے ايک اسکول ميں تعليم حاصل کرتے ہوئے۔ اقوام متحدہ کا مسلسل يہ مطالبہ ہے کہ سالہا سال سے پاکستان ميں مقيم افغان تارکين وطن کے حوالے سے کوئی حتمی فيصلہ کيا جائے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
ہر حالت ميں خوش
يک شامی مہاجر بچہ اردن کے زاتاری مہاجر کيمپ ميں ايک گاڑی کے ٹائر کے ساتھ کھيلتا ہوا۔ يہ کيمپ سن 2012 ميں کھولا گيا تھا تاکہ شامی خانہ جنگی سے فرار ہونے والے يہاں آکر پناہ لے سکيں۔ اس وقت اس کيمپ ميں قريب ايک لاکھ افراد مقيم ہيں۔