جرمنی مسلسل تیسرے برس دنیا کے سب سے بڑے ٹریڈ سرپلس رکھنے والے ملک کا اعزاز حاصل کرنے کی راہ پرگامزن ہے۔ دو سو ننانوے بلین ڈالر سرپلس کی وجہ سے تاہم جرمنی کو نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر بھی تنقید کا سامنا ہو سکتا ہے۔
اشتہار
میونخ کے اکنامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ Ifo کے مطابق رواں مالی سال کے اختتام تک جرمنی کا ٹریڈ سرپلس 264 بلین یورو ( 299 بلین ڈالر) تک پہنچ جائے گا۔ یہ تیسری مرتبہ ہو گا کہ یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی دنیا میں سب سے زیادہ تجارتی سرپلس رکھنے والی ریاست بن جائے گی۔
جرمنی میں ٹریڈ سرپلس سے متعلق اعدادوشمار کے مطابق البتہ اس ملک کی اقتصادی ترقی کی نمو میں معمولی سی کمی نوٹ کی گئی تھی۔ سن 2017 میں جرمنی میں اقتصادی ترقی کی رفتار 7.9 فیصد رہی تھی جبکہ سن 2018 میں متوقع طور پر یہ شرح 7.8 ہو گی۔
انفو کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کی ٹریڈ سرپلس میں مصنوعات، خدمات اور غیرملکی اثاثہ جات سے ہونے والے منافع کو شامل کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک خدمات کے شعبے میں جرمنی کو اٹھارہ بلین ڈالر کا خسارہ ہو سکتا ہے۔
ان اعدادوشمار سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں خدمات اور مصنوعات برآمد کرنے کے حوالے سے جرمنی نے اپنی پوزیشن مزید مستحکم کی ہے۔ تاہم جرمنی کی یہ پالیسی تنقید کی زد میں بھی آ سکتی ہے۔ بالخصوص امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کئی مرتبہ اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں۔ وہ یہ الزام بھی عائد کر چکے ہیں کہ امریکا کو ہونے والے 460 بلین ڈالر کے تجارتی نقصان کا ذمہ دار جرمنی ہی ہے۔
دوسری طرف جرمنی میں ٹریڈ یونینز بھی جرمنی کے ٹریڈ سرپلس کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے طریقہ کار کو تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ ایسی متعدد انجمنوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو موجودہ سرپلس کو صارفین کی طلب کو بہتر بنانے اور سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرنا چاہیے، جیسا کہ ٹریڈ یونینز گزشتہ کئی برسوں سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ تنخواہوں میں اضافہ اور اجرتوں کی نئی سطح کا تعین کیا جائے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ جرمنی پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتصادیات کا زیادہ تر دارومدار برآمدات پر ہے جبکہ درآمدات پر توجہ مرکوز نہیں کی جاتی۔ یورپی یونین کی رکن ریاستیں بھی کہہ چکی ہیں کہ جرمنی کو درآمدات اور برآمدات میں توازن پیدا کرنا چاہیے تاکہ دیگر ممالک کو بھی موقع ملے کہ وہ تجارتی مواقع سے مستفید ہو سکیں۔
ع ب / ع ح / خبر رساں ادارے
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔