دنیا کا مصروف ترین ایئر پورٹ: دبئی انٹرنیشنل
1 فروری 2016دبئی کے انٹرنیشنل ہوائی اڈے کی انتظامیہ کے مطابق سن 2015 میں اِس ہوائی اڈے پر کمرشل ہوائی جہازوں کی آمد و رفت میں تقریباً گیارہ فیصد اضافہ ہوا۔ اس طرح دبئی انٹرنیشنل ایئر پورٹ نے دنیا کے مصروف ترین ہوائی اڈے کا اعزاز برقرار رکھا ہے۔ انتظامیہ کے مطابق کئی نئی ہوائی کمپنیوں کے مارکیٹ میں آنے اور دبئی کو اپنی ایک منزل بنانے کی وجہ سے مجموعی ایئر ٹریفک میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
انتظامیہ نے بتایا کہ سن 2014 میں دبئی انٹرنیشنل نے تقریباً ساڑھے ستر ملین مسافروں کو خوش آمدید کہا تھا اور ایک سال بعد اِس تعداد میں آٹھ ملین کا اضافہ ہوا۔ اِس طرح سن 2015 میں خلیجی ریاست کے ہوائی اڈے پر اترنے اور اور روانہ ہونے والے مسافروں کی تعداد اٹھہتر ملین تک پہنچ گئی۔
صرف گزشتہ برس دسمبر میں ایک ملین سے زائد مسافر دبئی کے ہوائی اڈے پر اترے تھے۔ اِس ایئر پورٹ پر غیر ملکی فضائی کمپنیوں کے لیے ایک بڑے ٹرمینل ’ڈی‘ کی آزمائش جاری ہے اور رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں اِس نئے ٹرمینل کو چالو کر دیا جائے گا۔ اِسے 1.2 بلین ڈالر کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے۔
دبئی ایئرپورٹ کے چیف ایگزیکٹو پال گریفتھ کے مطابق سن 2015 میں علاقائی تنازعات میں بھی شدت پیدا ہوئی لیکن اُس کا کوئی بڑا اثر اُن کے ہوائی اڈے کی ٹریفک پر نہیں پڑا تھا۔ دبئی نے سن 2014 میں لندن کے ہیتھرو کو بین الاقوامی ایئر ٹریفک میں پیچھے چھوڑا تھا۔ ایک سال بعد سن 2015 میں ہیتھرو ایئر پورٹ پر اترنے والے مسافروں کی تعداد پچھتر ملین تھی اور یہ سن 2014 کے مقابلے میں دو فیصد سے زیادہ تھی۔
گزشتہ برس دبئی سے بارہ نئے مقامات کی جانب پروازیں متعارف کروائی گئیں۔ دبئی پہنچنے والی نئی ہوائی کمپنیوں میں جرمنی کی نئی ہوائی کمپنی یورو ونگز اور ایئر کینیڈا خاص طور پر نمایاں ہیں۔ کینیڈا میں نیم سرکاری ہوائی کمپنی ایئر کینیڈا کو ایک طرح سے اجارہ داری حاصل ہے اور ٹورنٹو سمیت دوسرے انٹرنیشنل ہوائی اڈوں تک یہی پرواز مسافر لے کر جاتی ہے۔
دبئی تک ایئر کینیڈا کی پرواز شروع ہونے سے پاکستان اور بھارت سمیت جنوبی مشرقی ایشیا کے دوسرے ملکوں کے مسافروں کو سہولت حاصل ہوئی ہے۔ اسی طرح چین کی بڑی ہوائی کمپنی چائنا سدرن نے بھی جنوبی چین سے دبئی کے ساتھ رابطہ استوار کیا ہے۔ مسافروں کے ساتھ ساتھ دبئی کے ہوائی اڈے پر سامان کی منتقلی میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ سوا تین فیصد سے زائد بتایا گیا ہے۔