ایک اسرائیلی جوہری کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ایک ایسا ماسک بنا رہا ہے، جو دنیا کا مہنگا ترین ماسک ہو گا۔ اس ماسک کی تیاری کا آرڈر چینی شہر شھنگائی کے ایک ارب پتی نے دیا ہے۔
اشتہار
کورونا وائرس کے بحران کو شروع ہوئے تقریباﹰ نو ماہ ہو چکے ہیں۔ اس دوران متعدد ممالک میں ماسک لازمی بھی قرار دے دیا گیا۔ یوں دنیا بھر کی مختلف ڈیزائنر کمپنیاں بھی ماسک بنانا شروع ہو گئیں۔
لیکن اب اسرائیل کی ایک کمپنی دنیا کا مہنگا ترین ماسک بنا رہی ہے۔ یہ ماسک اٹھارہ قیراط کے ڈھائی سو گرام سونے سے بنایا جا رہا ہے، جس میں ہیرے بھی جڑے ہوں گے۔
تین ہزار چھ سو سات قدرتی سفید اور سیاہ ہیروں سے بنے اس ماسک کی خاص بات یہ ہو گی کہ اس میں N-99 فلٹر کا نظام بھی موجود ہو گا، جو کورونا وائرس سے مکمل طور پر بچائے گا۔
یروشلم میں واقع یاوِل لگژری جیولری برانڈ کے نمائندے شیرون کارو نے صحافیوں کو بتایا کہ اس کی قیمت ڈیڑھ بلین ڈالر ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ حقیقی طور پر یہ دنیا کا مہنگا ترین ماسک ہو گا۔
پچیس مشاق جوہریوں کی ایک ٹیم اس ماسک کو تیار کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ یہ ٹیم شفٹوں میں کام کر رہی ہے تاکہ اکتیس دسبمر تک اس آرڈر کو ڈیلیور کر دیا جائے۔
کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی ممالک کی طرح اسرائیل کی معیشت کو بھی نقصان پہنچا ہے۔اس وجہ سے اس جیولر کمپنی کو بھی مالی نقصان اٹھانا پڑا۔
تاہم اس آرڈر کے بعد ڈیزائنر اسحاق لیوی نے کہا کہ اب انہیں اپنا کام جاری رکھنے میں مالی مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا، ''ان مشکل وقتوں میں، ہمیں جو آرڈر بھی ملتا ہے، اس سے ہونے والی آمدنی سے ہم اس کمپنی کے روزمرہ کاموں کو چلانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
اس کمپنی نے بتایا کہ اس انتہائی مہنگے ماسک کا آرڈر امریکا میں مقیم ایک چینی بزنس مین نے دیا ہے، جنہوں نے ساتھ تین شرائط بھی رکھی تھیں۔
ان شرائط میں اس ماسک کا امریکی فیڈرل ڈرگ اتھارٹی اور یورپی معیارات کے مطابق ہونا بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی انہیں یہ ماسک اکتیس دسمبر تک ڈیلیور کرنا ہے جبکہ تیسری شرط یہ ہے کہ یہ ماسک دنیا کا مہنگا ترین ماسک ہو۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
یورپ میں شدید گرمی کی لہر، چہرے پر ماسک پہننا دشوار ہو گیا
موسم گرما میں گرمی پڑنا کوئی حیرانگی کی بات نہیں لیکن موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مغربی یورپ میں ہر سال گرمی کی شدت بڑھ رہی ہے۔ برطانیہ، جرمنی، فرانس اور بیلجیئم میں درجہٴ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/L. Perenyi
انگلینڈ میں ریکارڈ توڑ گرمی
برطانیہ کے مختلف علاقوں میں درجہٴ حرارت 36 ڈگری سینٹی گریڈ کے ساتھ گزشتہ بیس سالوں میں سب سے گرم ترین اگست کا مہینہ ہے۔ دوسری جانب ملک میں کورونا وائرس سے متاثرین میں بتدریج اضافہ جاری ہے۔ متعدد شہری پانی کے مزے لینے کے لیے برائٹن جیسے ساحل سمندر کا رخ کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance / ZUMAPRESS.com
فرانس نے ’ہیٹ ویو الرٹ‘ جاری کردیا
پیرس میں چہرے پر ماسک کے استعمال کو لازمی قرار دینے کے فوراﹰ بعد ہی، فرانسیسی دارالحکومت کو شدید گرمی کی لہر کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ حکومت نے گرمی سے پچنے کے لیے مختلف انتظامات کیے ہیں۔ سیاحوں سے گزارش کی جارہی ہے کہ وہ سماجی دوری کا احترام کریں اور گرمی کے باوجود ماسک پہنے رہیں۔
تصویر: picture alliance / Xinhua News Agency
جرمن افراد کی جھیل سے محبت
گزشتہ ہفتے کے آخر میں جرمنی کے بعض علاقوں میں درجہ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر گیا۔ متعدد افراد گرمیوں کی تعطیلات گزارنے کے لیے سیر و تفریح کے لیے نکلے ہوئے ہیں، حکام کو خدشہ ہے کہ جھیلوں کی طرف جانے والے لوگ سماجی فاصلے کا احترام نہیں کریں گے۔ تاہم، جرمنی کی جھیلوں پر ہجوم توقع سے کچھ کم ہی دکھائی دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. von Ditfurth
بیلجیئم - سیاحوں کے بغیر
بیلجیئم کے صوبے اینٹورپ میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے کے بعد سے جرمنی سمیت متعدد یورپی ممالک نے بیلجیئم کے مختلف حصوں میں جزوی سفر ی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ 30 ڈگری سینٹی گریڈ کے ساتھ گرمی کی شدت میں اضافے کے نتیجے میں بیلجیئم کے شہری بھی ساحل سمندر کی طرف رواں دواں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Seco
جرمنی میں آگ بھڑکنے کا خطرہ
اس طرح کی گرمی اور کم یا پھر بارش نہ ہونے کا مطلب ہے کہ ملک کے بیشتر جنگلاتی علاقے آگ کے خطرے سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ اس کے باوجود، جرمن شہری باربی کیو کر رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ملک بھر میں طوفانوں کی بھی پیشگوئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. von Ditfurth
بحیرہ بالٹک کا بدلتا موسم
موسم گرما کی اسکولوں کی تعطیلات ختم ہونے سے پہلے پہلے زیادہ تر فیملیز بحیرہ بالٹک میں ڈبکی لگانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتیں۔ لہٰذا جرمن حکام نے شلیسوگ ہولشٹائن صوبے میں بحیرہ بالٹک کے ساحل پر جانے والے افراد کو معاشرتی فاصلے کا احترام کرنے کی تلقین کی ہے۔ حکام کو خدشہ ہے کہ گرمی میں اضافے کی وجہ سے ساحل پر سیاحوں کا رش بڑھ جائے گا۔