پستہ ترین قد کے حامل کھاجیندرا تھاپا ماگر 27 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ ان کا انتقال نیپال کے شہر پوکھارا کے ایک ہسپتال میں جمعہ 17 جنوری کو ہوا۔
اشتہار
محض 67.08 سینٹی میٹر (یہ دو فُٹ 2.4 انچ) قد کے حامل تھاپا ماگر گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈز کے مطابق دنیا کے پستہ ترین قد کے حامل ایسے شخص تھے جو چل پھر سکتے تھے۔
کھاجیندرا کے بھائی مہیش تھاپا ماگر نے جمعہ 17 جنوری کو بتایا، ''نمونیا کے سبب انہیں متعدد بار ہسپتال جانا پڑا۔ مگر اس مرتبہ ان کا دل بھی متاثر ہوا۔ ان کا آج انتقال ہو گیا۔‘‘
تھاپا ماگر جو اپنے والدین کے ساتھ کھٹمنڈو میں رہتے تھے، دو مرتبہ دنیا کے ایسے پستہ ترین قد کے حامل شخص قرار پائے جو چل سکتا ہو۔ پہلی مرتبہ جب وہ 18 برس کے تھے۔ تاہم بعد میں نیپال کے ہی ایک اور شخص چندر بہادر دانگی کو یہ اعزاز مل گیا۔ 2015ء میں دانگی کے انتقال کے بعد ماگر دوسری مرتبہ دنیا کے پستہ ترین قد کے حامل شخص قرار پائے۔
تھاپا ماگر کو قبل ازیں دنیا کے پستہ ترین قد کے ٹین ایجر کا ٹائٹل بھی دیا گیا تھا۔ انہوں نے ٹیلی وژن پروگراموں میں شرکت کے لیے یورپ اور امریکا کا بھی سفر کیا۔ وہ نیپال میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے چلائی جانے والی مہم کا بھی چہرہ تھے۔
'زندگی چیلنجنگ ہو سکی ہے‘
گنیز ورلڈ ریکارڈ کے ایڈیٹر کریگ گلینڈے کے مطابق، ''اگر آپ کا وزن محض چھ کلوگرام ہو اور آپ اس دنیا میں فِٹ نہ ہوتے ہوں جو ایک عام انسان کے لیے بنائی گئی ہے تو زندگی انتہائی مشکل ہوتی ہے۔ مگر کھاجیندرا نے یقینی طور پر اپنے اس پستہ قد کو زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنے کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔
فلپائن سے تعلق رکھنے والے جُنری بالاوِنگ بدستور دنیا کے پستہ ترین قد کے حامل ایسے شخص ہیں جو چل پھر نہیں سکتے۔ ان کا قد محض 59.93 سینٹی میٹر ہے۔ گنیز ورلڈ ریکارڈ کے مطابق وہ مدد کے بغیر نہ تو کھڑے ہو سکتے ہیں اور نہ ہی چل سکتے ہیں۔
کھاجیندرا کی وفات کے بعد اب دنیا کے چل پھر سکنے والے پستہ ترین قد کے حامل شخص کولمبیا کے ایڈورڈ نینو ہرنانڈز بن گئے ہیں جن کا قد 70.21 سینٹی میٹر ہے۔
دنیا میں غیر معمولی نظام الاوقات
شمالی کوریا نے اپنا معیاری وقت ایک مرتبہ پھر تبدیل کرتے ہوئے گھڑیوں پر سابقہ ٹائم بحال کر دیا ہے۔ اب دونوں کوریائی ملکوں کا معیاری وقت ایک ہے۔ تاہم ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔
سن 1949 میں چین میں اقتدار سنبھالنے والی کمیونسٹ پارٹی نے سارے ملک میں پائے جانے والے مختلف ٹائم زونز کو ختم کرتے ہوئے ایک معیاری وقت نافذ کر دیا تھا۔ بیجنگ عالمی معیاری وقت سے آٹھ گھنٹے آگے ہے۔ اب سارے چین میں یہی نظام رائج ہے۔ ایک ٹائم کے نفاذ کی وجہ سے اس ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے چینی باشندوں کو اپنے جسم کے اندر بھی نئے معیاری وقت کے مطابق تبدیلیاں لانی پڑی تھیں۔
تصویر: Reuters/China Daily
رات کے اُلُو
اسپین کے ڈکٹیٹر فرانسیسکو فرانکو نے سن 1840 میں اپنی غیرجانبداری کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے معیاری وقت کو سینٹرل یورپی ٹائم کے برابر کر دیا تھا۔ یہ وقت نازی جرمنی کے مساوی تھا۔ اس باعث اسپین میں سورج جلدی طلوع ہو جاتا ہے اور غروب بھی دیر سے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
ماضی سے نجات
جزیرہ نما کوریا میں بھی معیاری وقت میں تبدیلی سامنے آئی ہے۔ سن 2015 میں انتہائی کشیدگی کے دور میں شمالی کوریا نے اپنے معیاری وقت کو جنوبی کوریا سے علیحدہ کر دیا تھا۔ شمالی کوریائی حکومت نے وقت کی تبدیلی کو جزیرہ نما کوریا میں جاپانی نوآبادیاتی دور کے وقت کو تبدیل کرتے ہوئے اُس عہد سے چھٹکارہ حاصل کرنا قرار دیا تھا۔ جاپان جزیرہ نما کوریا پر سن 1910 سے 1945 تک حاکم رہا تھا ۔
تصویر: picture-alliance/MAXPPP
مختلف ہونے کا احساس
نیپال بھی وقت کے حوالے سے قدرے غیرمعمولی ہے۔ یہ ملک اپنے ہمسائے بھارت سے پندرہ منٹ آگے ہے اور اس طرے عالمی معیاری وقت سے اس کا فرق پانچ گھنٹے پینتالیس منٹ ہے، جو حیرانی کا باعث ہے۔ نیپالی حکومت نے اپنے معیاری وقت کو بھارت سے پندرہ منٹ آگے کر کے جو فرق پیدا کیا ہے، اُس نے نیپالی عوام کو اپنا علیحدہ وقت رکھنے کا احساس دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/F. Neukirchen
بجلی بچاؤ، مستقبل کو بہتر کرو
وینزویلا کے صدر نکولاس مادُورو نے سن 2016 میں اپنے معیاری وقت کو تیس منٹ آگے کر دیا تھا۔ یہ ملک عالمی معیاری وقت سے چار گھنٹے پیچھے ہے۔ اس فیصلے سے مادورو نے اپنے پیشرو ہوگو چاویز کے سن 2007 کے فیصلے کو تبدیل کر دیا۔ مادورو نے يہ قدم بجلی بچانے کے مقصد سے اٹھايا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gutierrez
ایک طویل جست
وقت کے اعتبار سے سب سے بڑی جست بحر الکاہل کے ملک سموآ نے لگائی۔ سن 2011 میں سموآ نے معیاوی وقت میں ایک پورے دن کا فرق پیدا کر دیا۔ یہ پہلے سڈنی سے 21 گھنٹے پیچھے تھا اور پھر اس کے معیاری وقت کو سڈنی سے 3 گھنٹے آگے کر دیا گیا۔ انیسویں صدی میں سموآ کے بادشاہ نے امریکا سے وابستگی کے تحت معیاری وقت امریکا کے مساوی کر دیا تھا۔ اس تبديلی سے سموآ کے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔