مشرقی تیمور کے سابق صدر اور وزیر اعظم جوزے راموس ہورتا نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کو ’خطرناک وقت‘ کا سامنا ہے، جس کی مثال کشمیر کی صورتحال سے بھی واضح ہوتی ہے۔
اشتہار
جرمن شہر لنڈاؤ میں منعقد ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس 'مذاہب برائے امن‘ میں شرکت کے لیے آئے ہوئے مشرقی تیمور کے سابق صدر اور وزیر اعظم جوزے راموس ہورتا نے زور دیا ہے کہ دنیا میں جاری تنازعات اور جنگی حالات سے نمٹنے کے لیے مکالمت انتہائی ضروری ہے۔ حال ہی میں منعقد ہونے والی اس چار روزہ کانفرنس میں سو سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد علما، دانشوروں اور مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ہورتا نے کہا، '' دنیا کو اس وقت خطرناک وقت کا سامنا ہے۔ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور بھارت کو دیکھیے۔ کسی بھی طرف سے تھوڑا سا غلط اندازہ ایک کھلے تنازعے کا رنگ اختیار کر سکتا ہے۔‘‘
نوبل امن انعام یافتہ ہورتا نے مزید کہا کہ افغانستان میں ابھی جنگ ختم نہیں ہوئی ہے، ''اس شورش زدہ ملک کے عوام مصائب کا شکار ہیں۔ تقریبا دو عشرے بیت گئے لیکن یہ تنازعہ ختم نہیں ہو سکا ہے۔‘‘
انہتر سالہ ہورتا سن دو ہزار سات تا دو ہزار بارہ تک مشرقی تیمور کے صدر رہے تھے جبکہ سن دو ہزار چھ تا سات وہ ملکی وزیر اعظم کے منصب پر بھی براجمان رہے تھے۔
مشرقی تیمور کے تنازعے کے پرامن حل کی کوششوں کے صلے میں ہورتا اور ان کے ہم وطن بشپ کارلوس بیلو کو سن انیس سو چھیانوے میں امن کا نوبل انعام بھی دیا گیا تھا۔
بیس برس قبل تیس اگست سن انیس سو ننانونے کو مشرقی تیمور میں کرائے گئے ایک عوامی ریفرنڈم میں عوام نے انڈونیشیا سے آزادی کے حق میں فیصلہ کیا تھا، جس کے بعد مشرقی تیمور میں شورش شروع ہو گئی تھی۔ تاہم ہورتا اور دیگر ملکی رہنماؤں کی کوششوں کی وجہ سے یہ تنازعہ پر امن طریقے سے حل ہوا اور آزادی کے بعد مشرقی تیمور اور انڈونیشیا کے مابین دوستانہ باہمی تعلقات بھی استوار ہوئے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ہورتا کا کہنا تھا کہ دنیا بھر کے متعدد خطوں میں تنازعات اور جنگی حالات انسانوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مشکل وقت میں عالمی رہنماؤں کو تناؤ کے بجائے مکالمت پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔ اس تناظر میں انہوں نے شام، جنوبی کوریا اور میانمار میں روہنگیا مسلم اقلیتی آبادی کا تذکرہ بھی کیا۔
ہورتا کا یہ بھی کہنا تھا کہ جوہری ہتھیار اس دنیا کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں اور جب کوئی ملک انہیں حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے ہمسائے ممالک بھی اس دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں۔
سابق صدر ہورتا نے کہا، '' مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ستر کی دہائی میں بھارت نے پہلا جوہری تجربہ کیا تھا تو تب پاکستانی وزیر اعظم بھٹو نے کہا تھا کہ وہ بھی جوہری ہتھیار ضرور حاصل کریں گے، چاہیں انہیں (عوام کو) گھاس ہی کیوں نہ کھانا پڑے۔‘‘
ہورتا کے مطابق حقیقی طور پر دنیا میں مسائل بڑے اور شدید ہیں اور ان کے فوری حل کی کوئی توقع نہیں۔ تاہم مکالمت ہی ایک ایسا طریقہ ہے، جس کی بدولت مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
دنیا بھر سے امن کے پیغامات
جرمن شہر لنڈاؤ میں ’مذاہب برائے امن‘ کے عنوان سے ایک عالمی کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس میں شریک مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں نے ڈی ڈبلیو کے ذریعے دنیا کو امن کا پیغام دیا ہے۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
کرن کور، سکھ، برطانیہ
درگزر کرنا مفاہمت کا راستہ ہے اور مفاہمت امن کی راہ ہے۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
راؤنی میٹوکٹیرے، اینسڑیس آف دی کیاپو، ایمازونس، برازیل
تنازعات سے بچنے کے لیے لوگوں کو ایک دوسرے کو دوست بنانا چاہیے۔ انسانوں کو ایک دوسرے کا دشمن نہیں ہونا چاہیے۔ خدا نے پہاڑ سب کے لیے بنائے ہیں۔ خدا نے انسانوں کے لیے بہترین سوچا ہے اور ہمیں ایک دوسرے کے لیے بہترین سوچنا ہے۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
پرسکاراکوروکل، ہندو، جرمنی
امن دنیا کا مرکزی دھارا ہے، امن کو آپ خرید نہیں سکتے۔ امن ہمارے اندر ہے۔ اگر ہم سب امن کے لیے پرعزم ہیں، تو یہ رفتہ رفتہ ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
الحاج اسحاق کنلے، مسلم، نائجیریا
میں دنیا بھر کے تمام مذہبی افراد سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ نفرت انگیزی سے دور رہیں، کیوں کہ یہ برف کی گیند کی طرف بڑھتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کے جنگ تک کی نوبت آ سکتی ہے۔ اس کی بجائے، لوگ امن کی تبلیغ کریں اور مختلف مذاہب بقائے باہمی کے اصول کے تحت رہیں۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
ہائے فودو، بَہائی، جنوبی افریقہ
امن صرف ممکن ہی نہیں بلکہ یہ ضروری بھی ہے۔ یہ اس سیارے کی ارتقاء کی اگلی منزل ہو گا۔ یہ زمین ایک ملک ہو گی اور ہم سب انسان اس کے شہری۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم امن کے قیام تک کیسے پہنچ سکتے ہیں۔ مشترکہ اقدامات اور روحانی اقدار کے فروغ کا عزم، اس مشکل مرحلے میں ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
ریورنڈ جیک بوسٹن، اینگلیکن کرسچن، گنی کوناکری
امن نہیں ہو گا، تو ترقی نہیں ہو گی، ترقی نہیں ہو گی، تو انسانیت نہیں ہو گی۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
امام احسان سکندر، مسلم، بیلجیم
امن کا مطلب ہے محبت۔ اختلافات کو قبول کرنا اور عزت دینا، پھر تمام اختلافات کو ایک طرف رکھ کر مشترک اقدار ڈھونڈنا۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
کشور ٹھاکر، ہندو، تنزانیہ
ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے سے امن سے جڑ کر رہنا، ہمارے معاشروں میں ترقی کا راستہ ہے۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
محمد سیف اللہ، مسلم، سنگاپور
امن کو محض ایک طرح کی عیاشی نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ اسے تمام افراد کے لیے ایک حقیقی ضرورت سمجھنا چاہیے، اب بھی اور مستقبل کے لیے بھی۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
ربی مارسیلو ماٹر، یہودی، ارجنٹائن
لوگوں کے درمیان تعاون اور مکالمت ہی امن کے حصول کا واحد راستہ ہے۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
آیت اللہ احمد مبلغی ، مسلم، ایران
اللہ قرآن میں ہمیں امن سے رہنے کا حکم دیتا ہے۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
کوشو نیوانو، بدھ بھکشو، جاپان
ہماری دنیا تنوع کی وجہ سے خوب صورت ہے۔ ہمیں اس خوب صورتی کا اظہار اسی تنوع سے کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ہم اس دنیا میں امن کی تعمیر کر سکتے ہیں۔
تصویر: DW/A. Purwaningsih
انتونی سامی تھومائی، کیتھولک مسیح، بھارت
ہر انسان امن چاہتا ہے، جو اس کی زندگی میں تحفظ اور معنی کا احساس دے۔ اس طرح ہم ایک پرامن دنیا تخلیق کر سکتے ہیں۔
امن کو سب سے پہلے اپنے اندر ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ پہچاننے کی ضرورت ہے کہ آپ کیا ہیں، جب آپ کے اندر امن ہو گا۔ تو آپ دوسروں کے لیے امن کی تعمیر میں مددگار ہوں گے۔ ہم اسے محبت ڈھونڈ لینا کہتے ہیں۔