دنیا کی دوسری سب سے بڑی پارلیمان کتنی بڑی اور کتنی مہنگی؟
1 جولائی 2020
جرمنی کی بنڈس ٹاگ دنیا کی دوسری سب سے بڑی پارلیمان ہے، جو بہت بڑی ہونے کے علاوہ بہت مہنگی بھی ہے۔ لیکن اگر جرمن انتخابی قوانین میں جامع اصلاحات نہ لائی گئیں، تو یہی پارلیمان اور بڑی اور مزید مہنگی ہو جائے گی۔
اشتہار
ایک پارلیمانی جمہوری نظام والی ریاست کے طور پر جرمنی کی وفاقی مقننہ کے بھی دو ایوان ہیں۔ ان میں سے ایک عوام کا نمائندہ ایوان زیریں ہے، جو بنڈس ٹاگ کہلاتا ہے تو دوسرا وفاقی صوبوں یا ریاستوں کا نمائندہ پارلیمانی ایوان بالا ہے، جسے جرمن زبان میں بنڈس راٹ یا وفاقی کونسل کہتے ہیں۔
کئی سیاسی ماہرین یہ تنبیہ کر چکے ہیں کہ یورپی یونین کے آبادی کے لحاط سے اس سب سے بڑے ملک کو اپنے ہاں مروجہ انتخابی قوانین میں ترجیحی بنیادوں پر اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ بنڈس ٹاگ کو مزید بڑا ہونے اور اس پر اٹھنے والے اخراجات کو مزید پھیلنے سے روکا جا سکے۔ یہ بات جرمن سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بھی سمجھتے ہیں۔ اس کے باوجود ملکی سیاسی شعبے کی طرف سے اس سلسلے میں اب تک کی جانے والی پیش رفت کافی سست ہے۔
بدھ یکم جولائی کو، یعنی آج جس روز جرمنی نے چھ ماہ کے لیے یورپی یونین کی صدارت بھی سنبھال لی، برلن میں بنڈس ٹاگ کے ایوان میں ارکان کی طرف سے سوالات کے وقفے کے دوران وفاقی چانسلر انگیلا میرکل بھی ایوان میں موجود تھیں۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ارکان اگرچہ آپس میں ایک دوسرے سے دور رہتے ہوئے سماجی فاصلوں کے ضابطے پر بھی عمل پیرا تھے، تاہم رائش ٹاگ کی تاریخی عمارت کے گنبد کے نیچے ایوان منتخب عوامی نمائندوں سے پھر بھی بھرا ہوا ہی تھا۔
آئندہ پارلیمان میں ارکان کی ممکنہ تعداد 800 تک
جرمنی میں اگلے وفاقی پارلیمانی انتخابات ممکنہ طور پر ستمبر 2021ء میں ہوں گے۔ اگر تب تک موجودہ انتخابی قوانین میں اصلاحات کا عمل مکمل نہ کیا گیا، تو یہی پارلیمان اور اس کا ایوان زیریں تب اب سے بھی زیادہ بھرے ہوئے ہوں گے۔ موجودہ بنڈس ٹاگ کے ارکان کی تعداد 709 ہے، جو بذات خود ایک ریکارڈ ہے۔ لیکن اصلاحات میں اگلے عام انتخابات کے بعد تک کی تاخیر کر دی گئی، تو اگلی بنڈس ٹاگ کے ارکان کی تعداد 800 تک یا اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔
لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ جرمنی کے موجودہ الیکشن قوانین ہیں ہی ایسے۔ اصولی طور پر تو پارلیمانی ارکان کی تعداد 598 ہے، جو طے ہے۔ لیکن اس وقت وفاقی پارلیمان کے ارکان کی تعداد چھ سو سے کچھ کم کے بجائے سات سو سے زائد اس لیے ہے کہ جرمنی میں عوامی رائے دہی کی نوعیت، ڈالے گئے کل ووٹوں میں سے سیاسی پارٹیوں کے لیے کم از کم پانچ فیصد ووٹ حاصل کرنے کی لازمی شرط اور پھر ووٹوں کے تناسب سے سیاسی جماعتوں میں سیٹوں کی تقسیم کا نظام اتنا متنوع اور پیچیدہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے لیے عوامی ہمدردیوں میں ذرا سے تبدیلی سے بھی منتخب نمائندوں کی مجموعی تعداد پر بھی فرق پڑتا ہے۔
ہر ووٹر کے دو ووٹ
جرمنی میں صوبائی اور وفاقی پارلیمانی اداروں کے ارکان کا انتخاب افراد کی بنیاد پر متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت عمل میں آتا ہے۔ ہر ووٹر کے دو ووٹ ہوتے ہیں۔ ایک ووٹ کسی امیدوار کو دیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار فاتح ہوتا ہے۔ دوسرا ووٹ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کو دیا جاتا ہے۔ یہ دوسرا ووٹ پہلے کی نسبت زیادہ اہم ہوتا ہے اور پارلیمان میں کسی بھی جماعت کو ملنے والی اکثریت کا انحصار زیادہ تر اسی دوسرے ووٹ پر ہوتا ہے۔
جرمنی: سن 2019 میں ٹیکس ادا کرنے والوں کے پیسے کا بڑا ضیاع
چوہوں کے لیے پُل، چوری شدہ سہنرا گھونسلا اور سولر فلاور پلانٹ ایسے بڑے منصوبے ہیں جنہیں پیسے کا ضیاع قرار دیا گیا ہے۔ ان کو جرمن عوام کے ٹیکس کے استعمال کی سالانہ رپورٹ’’ بلیک بُک‘‘ میں شامل کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schutt
سائے میں شمسی توانائی کا پھول
ہر سال جرمن شہری اپنے ادا شدہ ٹیکس رقوم کے ضیاع پر ’بلیک بُک ‘نامی ایک رپورٹ شائع کرتے ہیں۔ اس میں ناپسندیدہ منصوبوں کی تفصیل شامل کی جاتی ہے۔ رواں برس کی بلیک بک میں تھیورنگیا کی وزارت ماحولیات کا شمسی توانائی کا وہ پھول بھی شامل ہے جسے سائے میں کھڑا کیا گیا ہے۔ وزارت نے اس منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ شمسی توانائی کے حصول کے لیے نہیں تیار کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Schutt
چوہوں کے لیے پُل
جنوبی جرمن شہر پاساؤ میں ایک سڑک کی تعمیر کے دوران ایسا قدرتی علاقہ استعمال میں لایا گیا جہاں چھوٹے چوہے اِدھر اُدھر پھرا کرتے ہیں۔ مقامی انتظامیہ نے چوہوں کے نقل و حرکت بحال رکھنے کے لیے سڑک کے اوپر ایک پل تعمیر کر دیا۔ عام لوگوں کے نزدیک اس پل کی تعمیر ناقابل فہم ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Schreiter
سلامتی کا خطرناک راستہ
پاساؤ میں چوہوں کے لیے تعمیر کیا جانے والا پُل حیران کن بھی ہے۔ سڑک کے دوسری جانب جانے کے لیے کسی بھی چوہے کو پہلے سات میٹر (تیئیس فٹ) اوپر پہنچ کر بیس میٹر لمبا پل پار کرنا ہوتا ہے۔ اس پل پر ترانوے ہزار یورو کا خرچ آیا ہے۔ بلیک بُک مرتب کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ایسا امکان کم ہے کہ کسی ایک چوہے نے یہ پل عبور کیا ہو گا۔
تصویر: idowa.de
چوری شدہ مگر سنہرا
برلن کے ایک اسکول کی ایک قیمتی شے وہ پرندے کا سنہرا گھونسلا تھا جو اب چوری ہو چکا ہے۔ اس گھونسلے کی تیاری میں خالص سونے کی چوہتر باریک شاخوں کا استعمال کیا گیا اور اس کو ایک نہ ٹوٹنے والے شیشے کے کیس میں رکھا گیا۔ اس آرٹ ورک پر ساڑھے بانوے ہزار یورو خرچ ہوئے تھے۔ چور اس گھونسلے کو تیسری کوشش میں اڑانے میں کامیاب رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Vossen
جرمنی میں موٹر وے ٹیکس کا ناکام منصوبہ
بلیک بُک میں رواں برس کے دوران جرمن موٹرویز پر ٹیکس جمع کرنے کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ اس منصوبے کو نافذ کرنے کا ابتدائی فیصلہ کر لیا گیا تھا لیکن یورپی عدالتِ انصاف نے اسے امتیازی منصوبہ قرار دے دیا۔ جرمن وزیر ٹرانسپورٹ آندریاس شوئر نے تعمیر کے ٹھیکے پر دستخط بھی کر دیے تھے۔
جرمنی کے مغربی حصے میں نیول ٹریننگ کی اشتہاری مہم سے معلوم ہوا کہ اس مقصد کے لیے استعمال میں لائی جانے والی کشتی کی تزئین و آرائش پر ایک لاکھ پینتیس ہزار یورو خرچ کیے گئے۔ جرمن وزارت دفاع کے آڈیٹرز نے اس منصوبے پر سخت تنقید کی ہے۔ بلیک بُک کے مرتبین کے مًطابق جتنی رقم آرائش و تزئین پر خرچ کی گئی ہے، اس میں ایک نئی کشتی بن سکتی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Rehder
سیاہ گوش (بِلا) کی حفاظت کا پراجیکٹ
مغربی جرمنی میں ایک جانور سیاہ گوش کے تحفظ کے منصوبے پر بھی سخت نکتہ چینی کی گئی۔ اس مقصد کے لیے مختص ستائیس لاکھ یورو میں سے زیادہ تر انتظامی و دفتری امور پر خرچ کر دیے گئے۔ اس جانور کی حفاظت کرنے والی تنظیم کا موقف ہے کہ سیاہ گوش کا تحفظ اہم ہے لیکن اس کے لیے جرمنی اور یورپی یونین میں لاگو قانونی تقاضوں کو پورا کرنا بھی اہم تھا۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/R. Sturm
رنگ سازی کا پلان جو مکمل نہیں ہوا
رواں برس کے اوائل میں ہینوور شہر کی انتظامیہ نے امریکی اسکلپچر الیگزانڈر کالڈر کے ایک ڈیزائن کو رنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس منصوبے میں صفائی ستھرائی کے ساتھ ساتھ باڑ بنانا بھی شامل تھا۔ اس مقصد کے لیے ڈیزائن کو جلد از جلد رنگ کرنا تھا تاہم شہری انتظامیہ کی جانب سے پیشگی اجازت حاصل نہ کرنے کی وجہ سے یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ ہر چیز وہیں رہی لیکن چودہ ہزار یورو خرچ ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Schuldt
مہنگی غلطیاں
رواں برس جرمن ریاست رائن لینڈ پلاٹینیٹ میں مائنز سمیت تین شہروں میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے۔ انتخابات کے لیے چھاپے گئے بیلٹ پیپرز میں امیدواروں کے ناموں میں ٹائپنگ کی بہت غلطیاں تھیں۔ دوبارہ سے پانچ لاکھ بیلٹ پیپرز چھاپے گئے۔ ایک امیدوار الیگزانڈرا (Alexandra) کا نام اکسنڈرا (Aexandra) چھاپا گیا تھا۔ اس سارے عمل پر اسی ہزار ہزار یورو خرچ ہوئے۔
تصویر: picture alliance / dpa
مہنگی پارٹی
شمالی شہر پاپن برگ کی انتظامیہ نے ایک قدیمی مکان پر پارٹی کا انتظام کیا۔ اس پر تیس ہزار یورو خرچہ آیا۔ یہ خرچہ مختص بجٹ کے دوگنا سے بھی زائد تھا۔ ڈھائی سو افراد کو ٹیکس ادا کرنے والوں کی رقوم پر عیاشی کرائی گئی۔
تصویر: Colourbox
10 تصاویر1 | 10
اسی نظام کی وجہ سے پارلیمان میں موجودہ قوانین کی رو سے 'معلق نشستوں‘ اور 'ازالے کے لیے دی جانے والی پارلیمانی نشستوں‘ جیسی اصطلاحات بھی سننے کو ملتی ہیں۔
یہ اسی انتخابی نظام کا نتیجہ تھا کہ 2017ء کے وفاقی الیکشن کے نتیجے میں 598 کی طے شدہ تعداد کے مقابلے میں 709 عوامی نمائندے بنڈس ٹاگ کے رکن بنے۔
یہ عملی تعداد ارکان پارلیمان کی اصولی تعداد سے 111 زیادہ تھی۔
بنڈس ٹاگ: بہت بڑی، بہت مہنگی
جرمنی کے وفاقی آڈٹ آفس کے اعداد و شمار کے مطابق بنڈس ٹاگ کے اراکین، ان کے معاون کارکنوں اور دفاتر وغیرہ پر سالانہ ٹیکس دہندگان کے تقریباﹰ ایک ارب یورو خرچ کیے جاتے ہیں۔
اس بارے میں جرمن ٹیکس دہندگان کی مرکزی تنظیم کے صدر رائنر ہولس ناگل کہتے ہیں، ''جرمنی کے لیے 500 اراکین پارلیمان کافی ہوں گے۔ ہمیں ان سالانہ رقوم میں سے کئی سو ملین یورو بچا لینا چاہییں، جو جرمن بنڈس ٹاگ پر خرچ کی جاتی ہیں۔‘‘
دنیا کی دوسری سب سے بڑی پارلیمان
جرمن بنڈس ٹاگ اس وقت دنیا کی دوسری سب سے بڑی پارلیمان ہے۔ اس معاملے میں جرمنی صرف چین سے پیچھے ہے، جہاں یہ پارلیمان فی زمانہ تقریباﹰ 2900 ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین کی نیشنل پیپلز کانگریس کہلانے والی پارلیمان دراصل کمیونسٹ پارٹی کے مندوبین کا ایک اجلاس ہوتا ہے، جس میں ملک بھر سے پارٹی اہلکار حصہ لیتے ہیں۔
328 دن: انقلاب سے ریاستی معاہدے تک
عوام کی طاقت اور غلطی سے زبان سے نکل جانے والا ایک لفظ: نومبر 1989ء کی ایک رات شروع ہونے والے انقلاب نے مشرقی اور مغربی جرمنی کے تب تک ناممکن تصور کیے جانے والے دوبارہ اتحاد کو 328 روز میں پایہٴ تکمیل تک بھی پہنچا دیا۔
تصویر: DHM, Peter M. Mombaur
’’... فوراً، بلاتاخیر‘‘
نو نومبر 1989ء: گنٹر شابووسکی کی زبان سے نادانستگی میں نکلے ہوئے یہ الفاظ جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک GDR کے شہریوں کے لیے سفر کی آزادی کا پیغام بن گئے۔ پھر عوام کے جذبات کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر نے تاریخ کا دھارا بدل ڈالا۔ مشرقی برلن کے ہزاروں شہریوں نے سرحدی راستوں پر دھاوا بول دیا۔ مغربی برلن میں اُن کا والہانہ استقبال کیا گیا۔
کمیونسٹ ریاست کو بچانے کی آخری کوششیں
تیرہ نومبر 1989ء: ڈریسڈن شہر میں سوشلسٹ یونٹی پارٹی کے ضلعی سربراہ ہنس مودروف کی کوشش ہے کہ جتنا کچھ بچ سکتا ہے، بچا لیا جائے۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے چار روز بعد پیپلز چیمبر نے اُنہیں وزارتی کونسل کا چیئرمین منتخب کر لیا لیکن اراکینِ اسمبلی اُن کے ساتھ نہیں تھے۔ اراکین نے تب تک انتہائی طاقتور چلی آ رہی سوشلسٹ یونٹی پارٹی کی حمایت کرنے سے بھی انکار کر دیا۔
تصویر: ullstein bild/ADN-Bildarchiv
کوہل نے قدم اٹھانے میں دیر نہیں کی
28 نومبر 1989ء: یہ وہ دن تھا، جب اُس وقت کے وفاقی جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل نے جرمن پارلیمان میں اپنا دَس نکاتی منصوبہ پیش کیا، جس نے ایک دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ فرانسیسی وزیر خارجہ رولانڈ دُوماس کہہ اُٹھے کہ جرمنوں میں ’بڑھتا ہوا غرور‘ نظر آ رہا ہے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کے نظام الاوقات کی حیثیت کے حامل اس منصوبے کے اعلان سے پہلے کسی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
پرانی قیادت مستعفی ہو گئی
تین دسمبر 1989ء: پولٹ بیورو اور مرکزی کمیٹی عوامی دباؤ کے سامنے نہیں ٹھہر سکے اور مستعفی ہو گئے۔ استعفیٰ دینے والوں میں ایگون کرینس بھی شامل تھے، جنہوں نے GDR کی شہری حقوق کی تحریکوں کو مراعات دیتے ہوئے ریاست کو بچانے کی کوشش کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Peter Kroh
الفاظ اور لب و لہجے کا چناؤ
19 دسمبر 1989ء: ہیلموٹ کوہل کی ڈریسڈن کے ’چرچ آف آور لیڈی‘ نامی گرجا گھر کے سامنے تقریر ایک جذباتی نقطہٴ عروج تھی۔ اُن کے الفاظ اور لب و لہجے کا چناؤ مشرقی جرمنی کے لاکھوں شہریوں کے دل کی آواز بن گیا۔ اُنہوں نے امن اور آزادی میں دونوں ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کو اپنا نصب العین قراردیا۔
تصویر: imago/Sven Simon
آزادانہ انتخابات کے غیر متوقع نتائج
18 مارچ 1990ء: جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کی قومی اسمبلی کے انتخابات۔ ہیلموٹ کوہل خود انتخابی مہم پر نکلے۔ اُنہیں سننے کے لیے لاکھوں لوگ جلسوں میں شریک ہوئے۔ عام طور یہی سمجھا جا رہا تھا کہ میدان سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے ہاتھ رہے گا لیکن حتمی نتائج سامنے آئے تو غیر متوقع طور پر کوہل اور اُن کی اتحادی جماعتیں کو فتح حاصل ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kroh
جرمن مارک کی آمد آمد
یکم جولائی 1990ء: تب تک دوبارہ اتحاد ایک مسلمہ حقیقت بنتا نظر آ رہا تھا اور مشرقی جرمنی میں بھی آزاد معاشی اصول رائج کرنے کی بات کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ اٹھارہ مئی کو بون میں دونوں ریاستوں کے درمیان اقتصادی، کرنسی اور سوشل یونین بنانے کے ایک ریاستی معاہدے پر دستخط کیے گئے اور یوں جی ڈی آر کے عوام کو بھی کرنسی جرمن مارک حاصل ہو گئی۔
تصویر: picture-alliance/ ZB
گورباچوف نے جرمن اتحاد کے لیے ہاں کر دی
پندرہ اور سولہ جولائی 1990ء: متحدہ جرمنی کی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں شمولیت کا تصور ماسکو قیادت کی نظر میں دونوں جرمن ریاستوں کے دوبارہ اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ تاہم جب نیٹو نے مدافعانہ طرزِ عمل اختیار کیا تو ماسکو حکومت کو بھی اطمینان ہوگیا اور قفقاز میں ہیلموٹ کوہل نے گورباچوف سے یہ رضامندی حاصل کر لی کہ متحدہ جرمنی نیٹو کا حصہ بنے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مشرقی جرمن اسمبلی کے لیے تاریخی دن
23 اگست 1990ء: جرمن ڈیموکریٹک رپبلک کے اراکینِ اسمبلی نے وفاقی جمہوریہٴ جرمنی میں شمولیت کی منظوری دے دی۔ پی ڈی ایس کے سربراہ گریگور گیزی کے اس تبصرے پر اراکین ہنسنے لگے کہ پارلیمان نے اس منظوری کے ساتھ دراصل جرمن ڈیموکریٹک ری پبلک کے خاتمے کی منظوری دی ہے۔
تصویر: ullstein bild/ADN-Bildarchiv
حتمی معاہدے کی راہ میں آخری رکاوٹ
بارہ ستمبر 1990ء: آخر میں معاملہ پیسے پر آ کر اٹک گیا تھا۔ بون کی وفاقی جرمن حکومت سوویت یونین کو مشرقی جرمنی سے سرخ فوج کے انخلاء کے لیے زرِ تلافی کے طور پر بارہ ارب جرمن مارک کی پیشکش کر رہی تھی جبکہ گورباچوف یہ کہہ رہے تھے کہ یہ کم ہے۔ کوہل پہلے تو اپنی پیشکش پر جمے رہے، پھر اس پیشکش میں تین ارب کے قرضوں کا اضافہ کر دیا۔ یوں ’دو جمع چار معاہدے‘ کی راہ میں حائل آخری رکاوٹ بھی دور ہو گئی۔
تصویر: Imago/S. Simon
نئے جرمنی کا پہلا دن
تین اکتوبر 1990ء: نیویارک میں دوسری عالمی جنگ کی فاتح طاقتوں کے وُزرائےخارجہ تمام خصوصی حقوق سے دستبردار ہو گئے۔ سابق مشرقی جرمن کمیونسٹ ریاست کی اسمبلی کا آخری اجلاس ہوا، جس میں GDR نے وارسا پیکٹ سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا۔ برلن کی اسمبلی کی عمارت رائش ٹاگ کے سامنے نصف شب سے جرمن پرچم لہرا دیا گیا۔ اس موقع پر دو ملین افراد موجود تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
11 تصاویر1 | 11
یہ بات بھی اہم ہے کہ چین کی آبادی تقریباﹰ 1.4 بلین ہے اور نیشنل پیپلز کانگریس کے ارکان کی تعداد 2897۔ لیکن جرمنی کی آبادی صرف 83 ملین ہے اور وفاقی پارلیمان کے ارکان کی تعداد 709 بنتی ہے۔
'پارلیمان چھوٹی کی جائے‘
جرمنی کے تقابلی سیاسیات کے معروف پروفیسر کلاؤس شٹُیووے کہتے ہیں، ''بین الاقوامی سطح پر موازنہ کیا جائے تو جرمنی کی مجموعی آبادی کے مقابلے میں وفاقی ارکان پارلیمان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اسے کم کیا جانا چاہیے۔ ارکان کی تعداد میں کمی سے جرمنی میں پارلیمانی جمہوریت کے معیار پر تو ظاہر ہے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘
دنیا کے دو سب سے بڑے پارلیمانی اداروں کے طور پر چین اور جرمنی کا موازنہ کیا جائے تو چین میں ایک رکن پارلیمان اوسطاﹰ پونے پانچ لاکھ شہریوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کے برعکس جرمنی میں ہر ایک لاکھ سترہ ہزار شہریوں کے لیے ایک رکن پارلیمان موجود ہے۔
فولکر وٹِنگ (م م / ا ا)
برلن کا رائش ٹاگ، جمہوریت کا گھر
جرمن دارالحکومت برلن میں واقع تاریخی عمارت رائش ٹاگ کی گنبد نما چھت دنیا بھر میں مشہور ہے۔ یہ عمارت جرمن تاریخ کی کئی میٹھی اور تلخ یادیں ساتھ لیے ہوئے ہے، نازی دور حکومت سے لے کر جرمنی کے اتحاد تک۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Spata
رائش ٹاگ کا لان
رائش ٹاگ کا لان منتخب ارکان پارلیمان کو پرسکون انداز میں غور وفکر کا موقع فراہم کرتا ہے۔ سن انیس سو ننانوے سے یہ عمارت جرمن بنڈس ٹاگ یعنی جرمن پارلیمان کے طور پر استعمال کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Brakemeier
شیشے کا گنبد
رائش ٹاگ کا منفرد گنبد مشہور آرکیٹیکٹ سر نورمان فوسٹر کی تخلیق ہے۔ برلن آنے والے سیاحوں کے لیے یہ مقام انتہائی مقبول ہے۔ اس گنبد کی اونچائی چالیس میٹر (130فٹ) ہے، جہاں سے برلن کا شاندار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس گنبد سے پارلیمان کا پلینری ہال بھی دیکھا جا سکتا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ لوگوں کا اجازت ہے کہ وہ قانون سازوں کو مانیٹر بھی کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
پارلیمان کی شاندار عمارت
رائش ٹاگ کی تاریخی عمارت سن 1894 سے دریائے سپری کے کنارے کھڑی ہے۔ آرکیٹیکٹ پال والوٹ نے جرمن پارلیمان کے لیے پہلی عمارت تخلیق کی تھی، یہ الگ بات ہے کہ تب جرمنی میں بادشاہت کا دور تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
جمہوریت ۔۔۔ بالکونی سے
نو نومبر سن انیس سو اٹھارہ کو جب جرمنی میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان فیلپ شائڈے من نے جرمنی کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کیا۔ اس عمارت کے بائیں طرف واقع یہ بالکونی اسی یاد گار وقت کی ایک علامت قرار دی جاتی ہے، یعنی جمہوریت کے آغاز کی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/M. Weber
رائش ٹاگ میں آتشزدگی
ستائیس فروری سن انیس سو تینیتس میں یہ عمارت آتشزدگی سے شدید متاثر ہوئی۔ اس وقت کے چانسلر اڈولف ہٹلر نے اس واقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جرمنی میں آمریت نافذ کر دی۔ کیمونسٹ سیاستدان میرینوس فان ڈیر لوبے Marinus van der Lubbe کو اس سلسلے میں مجرم قرار دے دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
مقتول سیاستدانوں کی یادگار
رائش ٹاگ کی عمارت کے باہر ہی لوہے کی سلیں ایک منفرد انداز میں نصب ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس آرٹ کے نمونے کی ہر سل پر ان اراکین پارلیمان کے نام درج ہیں، جو سن 1933 تا سن 1945 نازی دور حکومت میں ہلاک کر دیے گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/H. Hattendorf
روسی فوجیوں کی گرافٹی
رائش ٹاگ نہ صرف جرمنی میں نازی دور حکومت کے آغاز کی کہانی اپنے ساتھ لیے ہوئے بلکہ اس کے خاتمے کی نشانیاں بھی اس عمارت میں نمایاں ہیں۔ روسی افواج نے دو مئی سن 1945 میں کو برلن پر قبضہ کرتے ہوئے اس عمارت پر سرخ رنگ کا پرچم لہرایا تھا۔ روسی فوج کی یہ کامیابی دوسری عالمی جنگ کے اختتام کا باعث بھی بنی۔ تب روسی فوجیوں نے اس عمارت کی دیوراوں پر دستخط کیے اور پیغامات بھی لکھے، جو آج تک دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Kalker
برلن کی تقسیم
دوسری عالمی جنگ کے دوران رائش ٹاگ کی عمارت بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ سن 1948 میں برلن کے میئر ایرنسٹ روئٹر نے لوگوں کے ایک ہجوم کے سامنے اسی متاثرہ عمارت کے سامنے ایک یادگار تقریر کی تھی۔ روئٹر نے اتحادی فورسز (امریکا، برطانیہ اور فرانس) سے پرجوش مطالبہ کیا تھا کہ مغربی برلن کو سوویت یونین کے حوالے نہ کیا جائے۔ اپنے اس موقف میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
دیوار برلن کے سائے میں
جب سن 1961 میں دیوار برلن کی تعمیر ہوئی تو رائش ٹاگ کی عمارت مغربی اور مشرقی برلن کی سرحد پر تھی۔ تب اس عمارت کے شمال میں دریائے سپری اس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کرتا تھا۔ تب مشرقی برلن کے لوگ مبینہ طور پر اس دریا کو عبور کر کے مغربی برلن جانے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ اس کوشش میں ہلاک ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر سن 1970 میں رائش ٹاگ کے قریب ہی ایک خصوصی یادگار بھی بنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kunigkeit
دیوار برلن کا انہدام اور جرمنی کا اتحاد
نو نومبر سن 1989 میں دیوار برلن کا انہدام ہوا تو پارلیمان کی یہ عمارت ایک مرتبہ پھر شہر کے وسط میں شمار ہونے لگی۔ چار ماہ بعد اس دیوار کو مکمل طور پر گرا دیا گیا۔ دو اور تین اکتوبر سن 1990 کو لاکھوں جرمنوں نے رائش ٹاگ کی عمارت کے سامنے ہی جرمنی کے اتحاد کی خوشیاں منائیں۔
تصویر: picture-alliance/360-Berlin
جرمن پارلیمان کی منتقلی
رائش ٹاگ کی عمارت کو سن 1995 میں مکمل طور پر ترپالوں سے چھپا دیا گیا تھا۔ یہ آرٹ ورک کرسٹو اور جین کلاوڈ کا سب سے شاندار نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔ رائش ٹاگ کی چھپی ہوئی عمارت کو دیکھنے کی خاطر لاکھوں افراد نے برلن کے اس تاریخی مقام کا رخ کیا۔ تب متحد برلن میں سب کچھ ممکن ہو چکا تھا یہاں تک اسے وفاقی جموریہ جرمنی کی پارلیمان کا درجہ ہی کیوں نہ دے دیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
مستقبل کی جھلک
آرکیٹیکٹ نورمان فوسٹر اس ٹیم کے سربراہ تھے، جس نے رائش ٹاگ کی عمارت کی تعمیر نو کی۔ چار سالہ محنت کے بعد اس عمارت کا بنیادی ڈھانچہ بدلے بغیر اسے نیا کر دیا گیا۔ اب یہ ایک جدید عمارت معلوم ہوتی ہے، جس کا شیشے سے بنا گنبد آرکیٹکچر کا ایک منفرد نمونہ ہے۔ ستمبر 1999 میں اس عمارت کو جرمن پارلیمان بنا دیا گیا۔ سیاستدان اب اسی عمارت میں بیٹھ کر پارلیمانی طریقے سے جرمنی کے سیاسی مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔