دنیا کی سب سے بڑی غیر حکومتی ترقیاتی تنظیم کے بانی کا انتقال
21 دسمبر 2019
ترقیاتی شعبے میں کام کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی غیر حکومتی تنظیم کے بانی تراسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اس وقت گیارہ ممالک میں فعال اس تنظیم نے کئی عشروں کے دوران ایشیا اور افریقہ میں کروڑوں انسانوں کی خدمت کی۔
سر فضل حسن عابد، تراسی برس کی عمر میں ڈھاکا میں انتقالتصویر: BRAC
اشتہار
یہ تنظیم 1972ء میں جنوبی ایشیا کی ایک نوآزاد ریاست میں اس وقت قائم کی گئی تھی، جب سابقہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے ہوئے ابھی ایک سال بھی پورا نہیں ہوا تھا۔ اس تنظیم کا نام بنگلہ دیش رُورل ایڈوانسمنٹ کمیٹی (BRAC) یا بنگلہ دیش کی دیہی ترقیاتی کمیٹی ہے۔ اس کی بنیاد فضلِ حسن عابد نے رکھی تھی، جن کا اب 83 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا ہے۔
فضل حسن عابد دو ہزار آٹھ میں نیو یارک میں راک فیلر لیڈرشپ ایوارڈ وصول کرنے کے بعد تقریر کرتے ہوئےتصویر: Christine A Butler / Synergos
'براک‘ نامی اس ادارے کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر آصف صالح نے بتایا کہ فضلِ حسن عابد کا انتقال ڈھاکا کے اپالو ہسپتال میں جمعہ بیس دسمبر کی شام ہوا۔ وہ وہاں اپنے دماغ میں موجود ایک رسولی کی وجہ سے زیر علاج تھے۔ ان کے انتقال کے بعد 'براک‘ کے انٹرنیشنل بورڈ کی خاتون سربراہ امیرہ حق نے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی ایمانداری، سادگی اور انسان دوستی کا خاص طور پر ذکر کیا۔
امیرہ حق نے کہا، ''وہ اتنے محتنی اور اخلاقی معاملات میں اس قدر غیر متزلزل موقف کے حامل تھے کہ احتراماﹰ انہیں ایک تنظیم کے طور پر 'براک‘ کے گھرانے کا ہر فرد 'عابد بھائی‘ کہہ کر پکارتا تھا۔‘‘
تنظیم کا قیام 1972ء میں
فضلِ حسن عابد نے بنگلہ دیش رُورل ایڈوانسمنٹ کمیٹی کی بنیاد اس وقت رکھی تھی، جب ان کی عمر 32 برس تھی۔ شروع میں یہ تنظیم ریلیف اور بحالی کے کاموں میں مصروف ایک ایسا چھوٹا سا ادارہ تھی، جو شمال مشرقی بنگلہ دیش میں پاکستان سے آزادی کے بعد پاکستان سے بنگلہ دیش آنے والے مہاجرین کی مدد کا کام کرتا تھا۔
کئی عشروں کی مسلسل محنت کے بعد 'براک‘ اب ترقیاتی شعبے میں کام کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی غیر حکومتی تنظیم ہے، جس کے 11 ممالک میں مصروف عمل کارکنوں کی مجموعی تعداد ایک لاکھ سے زائد بنتی ہے۔ یہ تنظیم اس وقت ایشیا اور افریقہ کے کئی ممالک میں سرگرم ہے اور آج تک 130 ملین سے زائد انسانوں کی بڑی کامیابی سے مدد کر چکی ہے۔
’براک‘ کی طرف سے بنگلہ دیش کے دیہی علاقوں میں متعارف کرائی گئی شمسی توانائی سے چلنے والی ایمبولینس، جیسے سائیکل کے طور پر بھی چلایا جا سکتا ہےتصویر: Reuters/BRAC University
شیل پاکستان کے سابق اعلیٰ عہدیدار
'براک‘ دنیا بھر میں اپنے ان منصوبوں کے لیے خاص شہرت رکھتی ہے، جن کا تعلق تعلیم سے لے کر شدید غربت کے خاتمے اور وسیع پیمانے پر بہت چھوٹے چھوٹے قرضے دینے جیسے شعبوں تک سے ہوتا ہے۔ فضلِ حسن عابد نے لندن سے اکاؤنٹنگ کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی اور بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے وہ ایک معروف آئل کمپنی شیل پاکستان میں ایک بہت اعلیٰ عہدے پر فائز رہے تھے۔
پھر 1970 میں سابقہ مشرقی پاکستان میں آنے والے ایک تباہ کن سمندری طوفان اور اس کے بعد بنگلہ دیش کی پاکستان سے علیحدگی ان کے زندگی کے دو ایسے بڑے واقعات ثابت ہوئے تھے، جنہوں نے ان کی سوچ ہی بدل دی تھی۔ وہ 1972 میں بنگلہ دیش منتقل ہو گئے تھے۔
فضلِ حسن عابد کو ان کی خدمات کے اعتراف میں بہت سے ملکی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا تھا۔ 2010ء میں برطانوی ملکہ الزبتھ نے انہیں ان کی بنگلہ دیش میں اور بین الاقوامی سطح پر غربت کے خاتمے کے لیے گراں قدر کوششوں کے اعتراف میں سر کا خطاب بھی دیا تھا۔
م م / ع ح (اے پی، اے ایف پی)
بنگلہ دیش کا ڈوبتا جزیرہ
سطح سمندرمیں اضافے کی وجہ سے بنگلہ دیشی جزیرے اشار چَور کے باسی علاقہ چھوڑ کر دیگر علاقوں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے اس جزیرے کے حجم میں کمی اور یہاں مقیم افراد کی زندگیاں شدید طور پر متاثر کی ہیں۔
تصویر: DW/K.Hasan
پیچھے کیا چھوڑا؟
سن 2007 میں آنے والا سمندری طوفان ایک بڑی تباہی ثابت ہوا تھا۔ ریڈ کراس کے مطابق اس طوفان کی وجہ سے نو لاکھ گھرانے یعنی تقریباﹰ سات ملین افراد متاثر ہوئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ طوفان سے ہلاک ہونے والوں میں سے چالیس فیصد بچے تھے۔
تصویر: DW/K.Hasan
خطرے کا علاقہ
اشار چَور خلیج بنگال میں واقعہ ایک جزیرہ ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے، جو مسلسل سمندری طوفانوں جیسی قدرتی آفات کی زد پر رہتا ہے۔
تصویر: DW/K.Hasan
پانی سے خشکی کی طرف منتقل ہوتا کام
خشک مچھلی کا کاروبار کرنے والے مچھیرے یہاں کام کا آغاز علی الصبح کر دیتے ہیں۔ اشار چَور سے ہر کشتی 15 تا 20 دن کے لیے مچھلیاں پکڑنے کے لیے روانہ ہوتی ہے۔ جب یہ لوگ واپس لوٹتے ہیں، تو اس سے بھی زیادہ کام ان کا منتظر ہوتا ہے۔ انہیں مچھلیاں خشک کر کے فروخت کے لیے تیار کرنا ہوتی ہیں۔
تصویر: DW/K.Hasan
ضرورت کے قیدی
چھ سالہ دانش ہر روز مچھلیاں پکڑتا ہے۔ کام انتہائی مشکل ہے اور وہ انتہائی کم عمر مگر قسمت اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ کام کرے۔ بچوں کی مشقت پر پابندی ہے، تاہم یہاں بچے کام کرتے نظر آتے ہیں۔ بچے عموماﹰ 56 سینٹ روزانہ کے اعتبار سے کما پاتے ہیں۔
تصویر: DW/K.Hasan
ایک سا کام لیکن اجرت مختلف
اشار چَور میں خواتین مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ تاہم دنیا کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں انہیں انتہائی کم اجرت ادا کی جاتی ہے۔
تصویر: DW/K.Hasan
غیر محفوظ زندگی
52 سالہ کریم علی کئی برسوں سے یہاں کام میں مصروف ہیں، تاہم قدرتی آفات اور اغوا جیسے واقعات کی وجہ سے لوگ بیگار پر مجبور ہیں۔ ’ایک بار میرا ایک ساتھی اغوا ہوا، پھر اس کا کبھی سراغ نہیں ملا۔ ہماری زندگی کی کوئی ضمانت نہیں۔‘
تصویر: DW/K.Hasan
جگہ کی ضرورت
یہاں آمدنی کا دار و مدار صرف اور صرف خشک مچھلی پر ہے۔ اشار چَور کی زمین کا زیادہ تر حصہ مچھلیاں خشک کرنے کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔ پکڑی گئی مچھلیوں کو تازہ رکھنے کے لیے یہاں بنائے گئے تالابوں میں پھینک دیا جاتا ہے اور پھر اُنہیں خشک کرنے کے لیے چھ روز تک کے لیے باہر کھلے آسمان کے نیچے رکھا جاتا ہے۔
تصویر: DW/K.Hasan
بہترین دوست ہی بدترین دشمن
اس جزیرے کے لوگوں کی بقا کا تمام تر دار و مدار سمندر پر ہے، کیوں کہ زیادہ تر افراد مچھلی کے کاروبار سے اپنی زندگی کی گاڑی چلا رہے ہیں۔ مگر سمندر ہی نے طوفانوں اور سیلابوں کے ذریعے ان افراد کی زندگیاں تباہ بھی کی ہیں۔
تصویر: DW/K.Hasan
غائب ہوتی زمین
اس جزیرے کا کچھ نہ کچھ حصہ ہر روز سیلاب کی وجہ سے زیرِ آب رہتا ہے۔ پانی سمندر سے ابھر کر راستے کی رکاوٹوں کو توڑتا ہوا، خشک زمین پر واقع مچھلیوں کے فارمز اور زرعی زمین کو برباد کر دیتا ہے۔
تصویر: DW/K.Hasan
غیرموجود بیرونی امداد
خشک مچھلی کا سخت کاروبار کرنے والی محنت کش کمیونٹی ایک مشکل زندگی گزار رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے انہیں طوفانوں سے تحفظ دینے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جا رہے جب کہ یہاں نکاسیء آب کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔ یہاں کے رہائشی جھگی نما گھروں میں رہتے ہیں۔