1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا کی سب سے بڑی فوج اور زیادہ بجٹ کی خواہش مند، لیکن کیوں؟

بینش جاوید
28 فروری 2018

چین کی پیپلز لبریشن آرمی کو دنیا کی سب سے بڑی فوج کہا جاتا ہے لیکن اسی فوج کو گزشتہ دو برسوں کے دوران بیجنگ حکومت سے ملنے والے مالی وسائل میں کمی کی شکایت بھی ہے، جو کئی طرح کے خدشات کا باعث بن رہی ہے۔

Chinesische Polizeieinheit - People's Armed Police
تصویر: picture-alliance/Photoshot/P. Xinglei

نیوز ایجنسی روئٹرز نے اس موضوع پر اپنی ایک جامع رپورٹ میں لکھا ہے کہ اگلے ہفتے چینی پارلیمان ملک کے نئے سالانہ بجٹ کا اعلان کرنے والی ہے۔ اس بجٹ اعلان سے قبل چین کے سرکاری میڈیا میں ملکی فوج کی عسکری مشقوں، جدید ساز و سامان اور 2015ء میں چین کی جانب سے یمنی خانہ جنگی کے دوران عام شہریوں کو بچانے جیسی کارروائیوں کا بہت زیادہ تذکرہ ہو رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز لبریشن آرمی چینی عوام کو اس امر کا قائل کرنا چاہتی ہے کہ اسے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سے چینلجز کا سامنا ہے اور زیادہ مالی وسائل کی ضرورت پہلے کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ۔

روئٹرز نے لکھا ہے کہ لبریشن آرمی کا پیغام یہ ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شمالی کوریا کو ڈرانے دھمکانے، بھارت کے ساتھ سرحدوں پر تناؤ اور تائیوان کی جانب سے اس کی خود مختاری کے برملا اظہار جیسے بہت سے عوامل کے باعث دنیا کی اس سب سے بڑی فوج کو جس طرح کی علاقائی صورت حال کا سامنا ہے، اس کا مقابلہ دفاعی بجٹ میں اضافے کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔

بیجنگ میں مقیم ایک مغربی تجزیہ کار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا، ’’جب آپ عوام کو بار بار یہ بتائیں گے کہ ان کی محافظ فوج کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے، تو ظاہر ہے کہ پھر آپ دفاعی شعبے کے لیے سالانہ بجٹ میں اضافے کے ضروری اور بجا ہونے کو بھی تسلیم کروا سکتے ہیں۔‘‘

اگلے ہفتے چینی پارلیمان ملک کے نئے سالانہ بجٹ کا اعلان کرنے والی ہےتصویر: picture alliance/AP Photo/A. Wong

چینی صدر شی جن پنگ نے گزشتہ برس اکتوبر میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ رواں صدی کے وسط تک چین کی فوج کو دنیا کی سب سے بہترین فوج بنا دیں گے۔ ماہرین کے مطابق چینی فوج کی جانب سے اپنے ہی حق میں یہ میڈیا مہم بھی اسی تناظر میں چلائی جا رہی ہے کہ صدر شی جن پنگ کہیں اپنا وعدہ بھول نہ جائیں۔

بیجنگ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق اس ایشیائی ملک  کا دفاعی بجٹ امریکی دفاعی بجٹ کا محض ایک چوتھائی حصہ بنتا ہے۔ چین کئی مرتبہ یہ باور کرا چکا ہے کہ اس کی فوج کا مشن صرف چینی ریاست اور عوام کا دفاع ہے اور مسلح افواج پر خرچ کی جانے والی رقوم میں مکمل شفافیت پائی جاتی ہے۔

لیکن بیجنگ حکومت کے اس موقف سے چین کے کئی پڑوسی ممالک کو شدید اختلاف ہے۔ ویت نام نے، جو چین کی جانب سے بحیرہ جنوبی چین پر بیجنگ کے ملکیتی دعووں کےخلاف ہے، گزشتہ کچھ عرصے سے امریکا کے ساتھ اپنے دفاعی روابط بہت مضبوط کر لیے ہیں۔ اس کے علاوہ تائیوان نے بھی اپنا دفاعی بجٹ بہت بڑھا دیا ہے اور وہ امریکا سے بہت سا جدید جنگی ساز و سامان بھی خرید رہا ہے۔

گزشتہ برس چینی پارلیمنٹ کی جانب سے جس دفاعی بجٹ کا اعلان کیا گیا تھا، وہ اس سے ایک سال پہلے کے مقابلے میں سات فیصد زیادہ تھا۔ 2016ء میں چین کے قومی بجٹ میں دفاعی شعبے کا حصہ 7.6 فیصد تو تھا لیکن تب 2010ء کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ بیجنگ حکومت نے فوجی بجٹ کے لیے مجموعی بجٹ کا دس فیصد سے بھی کم حصہ مختص کیا تھا۔ اس سے قبل یہ شرح اکثر دس فیصد سے زیادہ ہی رہتی تھی۔

چند ماہرین کی رائے میں چین کا سالانہ فوجی بجٹ حکومت کے اعلان کردہ دفاعی بجٹ سے عملی طور پر کہیں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ فوج ہی سے متعلق بہت سے منصوبے ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کے لیے مالی وسائل غیر دفاعی بجٹ سے مہیا کیے جاتے ہیں۔

اس بارے میں دفاعی اخراجات پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر نے روئٹرز کو بتایا، ’’چینی فوج بہت سے سویلین اداروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔ اسی لیے اس بات کا تعین بہت مشکل ہے کہ دفاعی بجٹ کا استعمال کہاں ختم ہوا اور سویلین بجٹ کا استعمال کہاں سے شروع ہوا۔‘‘

دفاعی شعبے کے چند ماہرین کی رائے تو یہ بھی ہے کہ چینی فوج پہلے ہی ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکا کو بہت پیچھے چھوڑ چکی ہے اور بہت جلد آرٹیفیشل انٹیلیجنس یا مصنوعی ذہانت کے شعبے میں بھی چین امریکا سے آگے نکل جائے گا۔ چینی وزارت دفاع نئے فوجی بجٹ کے اعلان سے قبل اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے کترا کر رہی ہے کہ سال رواں کے لیے ملکی پارلیمان پیپلز لبریشن آرمی کے لیے کتنے مالی وسائل مختص کرے گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں