دنیا کی سب سے قیمتی و حسین چیز وقت ہے مگر اس کا احساس ہمیں تب ہوتا ہے جب وقت گزر جاتا ہے۔ یہ الگ بات کہ سرمایا دارانہ نظام نے وقت کا جو نظریہ ہمارے ذہنوں میں بیٹھا دیا ہے اس سے چھٹکارہ مستقبل قریب تک تو ممکن نہیں ہے۔
اشتہار
وقت کے قیمتی ہونے کا احساس تو ہمیں تھا مگر جب ہماری دوست تحریم عظیم نے ہمیں بتایا کہ چین میں آپ کسی مال میں شاپنگ کے لیے جائیں تو ہماری طرح سارا مال گھومنا نہیں پڑتا بلکہ مال کے باہر لسٹ لگی ہوتی ہے کہ کس فلور پہ کیا چیز دستیاب ہے، آپ اس کے مطابق سیدھا اسی فلور پہ جاتے ہیں اور اپنی مطلوبہ چیز خریدتے ہیں اور لوٹ آتے ہیں۔ بلکہ مارکیٹ جاکر شاپنگ کرنے کے بجائے سستی آن لائن شاپنگ پڑتی ہے۔
اب ایسی قوموں کو ترقی کا پورا حق ہے، جنہوں نے وقت کی اہمیت کو پہچان لیا ہے اور اس کے استعمال کو بھی سیکھ لیا ہے۔ اگر ہم اپنا موازنہ ترقی یافتہ ممالک سے کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے تو ہمیں وقت کی اہمیت کو سمجھنا ہو گا اوراسے استعمال کرنا سیکھنا ہو گا۔
چین میں کورونا سب سے پہلے آیا اور چین نے اسے اپنے طریقہ کار اور قوانین کے مطابق سب سے پہلے کنٹرول کیا۔ چین نے یہ نہیں دیکھا کہ امریکا کیا قانون بنا رہا ہے یا یورپ کیا کر رہا ہے۔ اس نے اپنے زمینی حقائق پہ نظر رکھتے ہوتے اپنے وسائل کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے اس بھیانک وبا کو محدود وقت کے اندر کنٹرول کر لیا اوراس کی فتح کا جشن جس عاجزی سے منایا وہ اتنا خوش آئند تھا کہ آنکھیں نم ہو گئیں۔
قدرت بھی وقت کا ساتھ دینے والوں کا ساتھ دے رہی ہوتی ہے۔ ہمارا رویہ یکسر مختلف ہے۔ وقت کو تو ہم اپنا غلام سمجھتے ہیں کہ جب چاہیں گے اس سے استفادہ کر لیں گے مگر وقت نہ کبھی کسی کا ہوا ہے نہ ہو گا۔
ہم بے شمار دولت اکٹھی کرتے رہیں کہ ہم کسی خاص عمر میں دنیا گھومیں گے لیکن اس خاص عمر میں صحت سفر کا ساتھ نہ دے تو ساری عمر کی ریاضت بے کار ہو جاتی ہے۔ گویا سیاحت کو بھی عمر کے ایک خاص حصے میں انجوائے کر لینا چاہیے۔ جو ہے، جتنا ہے میں زندگی تلاش کرنی چاہیے۔ نہیں معلوم کہ کسی قدرتی آفت سے یہ سب بھی رہے یا نہ رہے ۔
دنیا میں غیر معمولی نظام الاوقات
شمالی کوریا نے اپنا معیاری وقت ایک مرتبہ پھر تبدیل کرتے ہوئے گھڑیوں پر سابقہ ٹائم بحال کر دیا ہے۔ اب دونوں کوریائی ملکوں کا معیاری وقت ایک ہے۔ تاہم ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔
سن 1949 میں چین میں اقتدار سنبھالنے والی کمیونسٹ پارٹی نے سارے ملک میں پائے جانے والے مختلف ٹائم زونز کو ختم کرتے ہوئے ایک معیاری وقت نافذ کر دیا تھا۔ بیجنگ عالمی معیاری وقت سے آٹھ گھنٹے آگے ہے۔ اب سارے چین میں یہی نظام رائج ہے۔ ایک ٹائم کے نفاذ کی وجہ سے اس ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے چینی باشندوں کو اپنے جسم کے اندر بھی نئے معیاری وقت کے مطابق تبدیلیاں لانی پڑی تھیں۔
تصویر: Reuters/China Daily
رات کے اُلُو
اسپین کے ڈکٹیٹر فرانسیسکو فرانکو نے سن 1840 میں اپنی غیرجانبداری کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے معیاری وقت کو سینٹرل یورپی ٹائم کے برابر کر دیا تھا۔ یہ وقت نازی جرمنی کے مساوی تھا۔ اس باعث اسپین میں سورج جلدی طلوع ہو جاتا ہے اور غروب بھی دیر سے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
ماضی سے نجات
جزیرہ نما کوریا میں بھی معیاری وقت میں تبدیلی سامنے آئی ہے۔ سن 2015 میں انتہائی کشیدگی کے دور میں شمالی کوریا نے اپنے معیاری وقت کو جنوبی کوریا سے علیحدہ کر دیا تھا۔ شمالی کوریائی حکومت نے وقت کی تبدیلی کو جزیرہ نما کوریا میں جاپانی نوآبادیاتی دور کے وقت کو تبدیل کرتے ہوئے اُس عہد سے چھٹکارہ حاصل کرنا قرار دیا تھا۔ جاپان جزیرہ نما کوریا پر سن 1910 سے 1945 تک حاکم رہا تھا ۔
تصویر: picture-alliance/MAXPPP
مختلف ہونے کا احساس
نیپال بھی وقت کے حوالے سے قدرے غیرمعمولی ہے۔ یہ ملک اپنے ہمسائے بھارت سے پندرہ منٹ آگے ہے اور اس طرے عالمی معیاری وقت سے اس کا فرق پانچ گھنٹے پینتالیس منٹ ہے، جو حیرانی کا باعث ہے۔ نیپالی حکومت نے اپنے معیاری وقت کو بھارت سے پندرہ منٹ آگے کر کے جو فرق پیدا کیا ہے، اُس نے نیپالی عوام کو اپنا علیحدہ وقت رکھنے کا احساس دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/F. Neukirchen
بجلی بچاؤ، مستقبل کو بہتر کرو
وینزویلا کے صدر نکولاس مادُورو نے سن 2016 میں اپنے معیاری وقت کو تیس منٹ آگے کر دیا تھا۔ یہ ملک عالمی معیاری وقت سے چار گھنٹے پیچھے ہے۔ اس فیصلے سے مادورو نے اپنے پیشرو ہوگو چاویز کے سن 2007 کے فیصلے کو تبدیل کر دیا۔ مادورو نے يہ قدم بجلی بچانے کے مقصد سے اٹھايا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gutierrez
ایک طویل جست
وقت کے اعتبار سے سب سے بڑی جست بحر الکاہل کے ملک سموآ نے لگائی۔ سن 2011 میں سموآ نے معیاوی وقت میں ایک پورے دن کا فرق پیدا کر دیا۔ یہ پہلے سڈنی سے 21 گھنٹے پیچھے تھا اور پھر اس کے معیاری وقت کو سڈنی سے 3 گھنٹے آگے کر دیا گیا۔ انیسویں صدی میں سموآ کے بادشاہ نے امریکا سے وابستگی کے تحت معیاری وقت امریکا کے مساوی کر دیا تھا۔ اس تبديلی سے سموآ کے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
6 تصاویر1 | 6
جمود انسان سے رونق زیست چھین لیتا ہے۔ اس لیے جونہی وقت میسر ہو اس جمود کو حرکت میں بدل کر زندگی کو پھر سے جوان کر لیں۔
شہروں میں طویل سفر اور ٹریفک جیم بے شک ہو لیکن ہمیں کسی دور کے بڑے سے مال میں شاپنگ کرنا ہوتی ہے تاکہ ہم دوسروں کو متاثر کر سکیں۔ بہانہ یہ ہوتا ہے کہ وہاں سستی اشیاء دستیاب ہیں تو جو پیٹرول اور وقت آپ نے ضائع کیا ہے اس کی قمیت کیا ہو گی؟ اور جس فضائی آلودگی میں آپ نے اپنا حصہ ڈالا ہے وہ بھی آپ شمار نہیں کر رہے۔
پاکستان میں بھی اب آن لائن شاپنگ سستا ذریعہ ہے۔ بس آپ کو طریقہ کار سے شناسائی ہونا چاہیے۔ یوں آپ وقت بھی بچا سکتے ہیں اور پیسے بھی، ماحول بھی۔
جب ہم زندگی بہت پڑی ہے سوچ لیتے ہیں اور دن رات کی تھکا دینے والی مشقت میں کسی لاحاصل ، حاصلی کی تگ و دو میں ہوتے ہیں۔ جب ہم اپنے بچوں کو اپنے عزیروں دوستوں اور رشتوں کو وقت نہیں دے رہے ہوتے ہیں بلکہ ہم تو اپنی ذات کو وقت نہیں دے رہے ہوتے۔ جب ہم آج کا کام کل پہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔
جب ہم اپنے خواب تعبیر کرنے کی حیثیت میں ہوتے ہوئے اسے کسی اور وقت پہ ڈال دیتے ہیں
تب اچانک ایک دن خبر ہوتی ہے کتنے وقت تھے جو ہم اس لمحے جی سکتے تھے مگر نہیں جی سکے۔ اس لمحے کو اس وقت کے مطابق گزار دیتے تو آج کچھ نیا اور منفرد کرنے کے قابل ہوتے۔
یہ ہے وقت جسے ہم سمجھ نہیں پا رہے۔ گویا وقت آج اور ابھی کے ستون پہ اپنی مضبوط عمارت اٹھاتا ہے۔
قصہ مختصر دنیا کی سب سے قیمتی شے کی قدر کرنا سکیھیں کہ ایک لمحہ بھی گزر جائے تو لوٹ کے نہیں آتا۔ وقت کو، لمحوں کو، موجود کو جینا سب سے بڑی بادشاہی ہے۔ جو اسے سیکھ جاتا ہے وہ خوشیوں کے گل کھلاتا ہے اور بہار کی مہک سے لطف لے کر زندگی حسین بنا لیتا ہے اور کچھ بن بھی جاتا ہے۔
جب ہم وقت کو جینا اور اس کو انجوائے کرنا سیکھ لیں گے، اگلی نسلیں خود بخود وقت کی اہمیت کو سمجھ لیں گی۔
جرمنوں سے ملنے کے کچھ آداب
دنیا کا ہر معاشرہ کچھ رسم و رواج سے مل کر بنا ہے۔ معاشرتی آداب کا تعلق ثقافت سے ہی ہوتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ مجلسی آداب کی ماہر لنڈا کائزر جرمن معاشرت کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Reinhardt
مصافحہ کرنا
جرمنی میں لوگوں اتنی مرتبہ ہاتھ ملاتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ان کا کوئی قومی کھیل ہے۔ یہ غیر رسمی اور رسمی ملاقاتوں میں بھی عام ہے۔ کسی معاہدے کے طے ہونے پر یا کسی فرد کو پہلی مرتبہ مبارک باد دینی ہو تو بھی ہاتھ ملایا جاتا ہے۔ اسی طرح جرمنی میں سالگرہ کی مبارکباد بھی عموماً ہاتھ ملا کر دینے کا رواج ہے۔ ایسے ہی بچوں میں بھی ہاتھ ملانا عمومی طور پر پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
بوسہ دینا یا گلے لگانا
غیر رسمی ملاقاتوں میں ہاتھ ملا کر گالوں پر محبت سے بوسہ دینا بھی جرمن ثقافت کا حصہ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا تعلق ملنے والے شخس کے قریبی ہونے کا بھی ہے۔کبھی کبھار ہاتھ ملانے تک ہی میل جول محدود کیا جاتا ہے تو کبھی بغل گیر ہوکر بوسہ بھی دیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER/F. Vogel
مخاطب کیسے کیا جائے، آپ جناب یا تم؟
جب کسی سے رسمی گفتگو ہو رہی ہوتی ہے تو جرمن ’زی‘ یعنی آپ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں جبکہ غیر رسمی ملاقاتوں میں’دُو‘ یعنی تم کہہ کر پکارتے ہیں۔ تم کا استعمال ہم عمر لوگ یا عموماﹰ نوجوان کرتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/lassedesignen
فون پر گفتگو
کسی جرمن کو فون کر کے سب سے پہلے اپنا تعارف کروائیں ساتھ ہی کہیں کہ،’’میں دعا گو ہوں کہ آپ کا دن خوشگوار گزرے۔۔ میرانام۔۔‘‘ اور اپنے نام کا دوسرا حصہ بتائیں۔ خط وکتابت، میل جول ہو یا ٹیلی فون پر بات چیت کرتے وقت جرمن لوگ اپنا ’’فیملی نام‘‘ ہی بتاتے ہیں۔ مثال کے طور پر،اگر کسی خاتون کا نام شمیم اختر ہے۔ تو وہ خود کو یوں متعارف کروائیں گی۔’ میں دعا گو ہوں کہ آپ کا دن خوشگوار گزرے۔۔ میرانام اختر ہے۔‘
تصویر: picture-alliance/ dpa
دروازے پر دستک دینا
ملاقات سے قبل دروازے پر دستک دینا جرمن افراد کا ایک عام رواج ہے۔ اگر آپ کسی جرمن کے گھر کے باہر کھڑے ہیں تو اس وقت تک اندر نہ جائیں، جب تک وہ خود آکر آپ کے لیے دروازہ نہ کھول دے۔ لیکن اگر آپ معائنے کی غرض سے کسی جرمن ڈاکٹر کے پاس گئے ہیں تو کمرے میں داخل ہونے سے قبل ایک بار دستک دے کر اندر چلیں جائیں۔
تصویر: imago/Westend61
پھول پیش کرنا
مجلسی آداب کی ماہر خاتون کا کہنا ہے کہ جرمن لوگ اپنے حلیم ہونے کا اظہار پھول دے کر بھی کرتے ہیں۔ کائزر کے مطابق پابندی وقت اور کسی کو پھول دینا جرمن معاشرت کے دو اہم پہلو ہیں۔ پھولوں کے ساتھ ساتھ شراب اور چاکلیٹ کے تحفے کو مثبت سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/W. Rothermel
وقت کی پابندی
لنڈا کائزر نے واضح کیا کہ جرمن معاشرت میں وقت کی پابندی اتنی زیادہ ہے کہ انہیں تنقید کا سامنا ہوتا ہے۔ کائزر کا کہنا ہے کہ وقت کی پابندی جرمن افراد کی پیدائشی صفت کے طور پر بھی لی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جرمن محفل میں تعظیم و تکریم کے ساتھ ساتھ نفیس طبع ہونا بہت اہم خیال کیا جاتا ہے۔کائزر کے مطابق جرمن بظاہر انتہائی بردبار ہونا پسند کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U.Sapountsis
جوتے دہلیز پر چھوڑ جائیں
جرمن صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ غیر رسمی ملاقاتوں میں خیال یہی کیا جاتا ہے کہ جوتے باہر ہی اتار دیے جائیں۔ ایسا کرنے سے صفائی بھی رہتی ہے اور جرمن اسے اپنائیت کا اظہار بھی سمجھتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/denlitya
طعام و کلام
کائزر کے مطابق کھانے کی میز پر بیٹھ کر مختلف ہلکے پھلکے اور سنجیدہ موضوعات پر گفتگو کرنا بھی جرمنوں کو بہت پسند ہے۔ مجلسی آداب کی ماہر کے مطابق محفل میں زیر بحث موضوع پر توجہ دینے کو بھی بہت اہم سمجھا جاتا ہے ہے اور اُس پر اظہار خیال کرنے کو پسند کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Design Pics/L. D. Gordon
اپنے کھانے کا لطف اٹھاؤ
جرمن کھانا کھاتے لوگوں کو بہت ہی محبوب طریقے سے مخاطب کر کے کہتے ہیں،’’ گوٹن اپاٹیٹ‘‘ یعنی ’’اپنے کھانے کا لطف اٹھاؤ‘‘۔ ایسا وہ خاصے ترنم میں کہتے ہیں کہ کہ سننے والے کے چہرے پر مسکراہٹیں پھیل جائیں۔
رافعہ اعوان (Louisa Schaefer)