محققین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ اور انسانوں کے استعمال کی وجہ سے دنیا بھر کی جھیلوں میں پانی کم ہوتا جا رہا ہے۔ جمعرات کو شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق دنیا کی نصف سے زائد جھیلیں سکڑ گئی ہیں۔
اشتہار
ایک بین الاقوامی تحقیقاتی ٹیم نے اپنی تحقیق کے نتائج کو جریدہ 'سائنس' میں شائع کیا ہے۔ اس تحقیقات میں پایا گیا کہ گلوبل وارمنگ اور انسانوں کی بلا روک ٹوک سرگرمیاں دنیا بھر میں جھیلوں کے خشکی سے دوچار ہونے کی اہم وجہ ہے۔
زمین کا تقریباً 87 فیصد میٹھا پانی قدرتی جھیلوں اور آبی ذخائر میں پایا جاتا ہے جب کہ زیر زمین کا صرف تین فیصد پانی میٹھا ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف کولوراڈو میں ہائیڈرولوجسٹ فینگ فانگ یاو کی سربراہی میں کی گئی تحقیقات کے مطابق 1990کی دہائی کے اوائل سے دنیا کی بڑی جھیلیں اور آبی ذخائر سکڑچکے تھے۔
ماہرین پر مشتمل ٹیم کا کہنا ہے کہ دنیا کے میٹھے پانی کے کچھ اہم ذرائع میں تقریباً تین دہائیوں سے سالانہ لگ بھگ 22 گیگا ٹن کی مجموعی شرح سے پانی ختم ہوتا جارہا ہے۔
یاو کا کہنا تھا،" اس میں آدھے سے زیادہ کمی یا ختم ہونے کی بنیادی وجہ انسانوں کے ذریعہ اس کا استعمال یا آب وہوا میں گرمی میں اضافہ ہے۔" انہوں نے مزید کہا کہ گرمی میں اضافے نے جھیلوں میں پانی کے کم ہونے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
محققین نے یہ بھی پایا کہ بارش اور پانی کے بہاو میں تبدیلی،تلچھٹ اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے جھیلوں کی سطح آب میں عالمی سطح پر کمی واقع ہوئی ہے۔
جرمنی کی دس خوبصورت ترین جھیلیں
جرمنی میں مختلف اشکال اور حجم کی تقریباﹰ 30 ہزار جھیلیں ہیں۔ اگر گرمیوں کی چھٹیاں گزارنا چاہتے ہیں تو دیکھئے یہ دس جھیلیں جو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور ہیں۔
جھیل کونسٹانس جرمنی کے علاوہ سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا میں بھی موجود ہے۔ جرمنی میں Konstanz بندرگاہ میں داخل ہوتے ہی یہاں ایک خاتون کا مجسمہ نظر آتا ہے جس نےایک ہاتھ میں بادشاہ اور دوسرے میں پوپ کو تھام رکھا ہے۔ یہ مجسمہ چھ صدی قبل یہاں کی اخلاقی گراوٹ کی جانب ایک کنائیہ ہے اور ہر چار منٹ بعد اپنے محور میں گھومتا دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Kästle
اسٹافل ذے
جرمنی کی جنوبی ریاست باویریا میں کوہ ایلپس کے پس منظر میں کئی دلفریب جھیلیں ہیں ۔ یہاں کی سب سے بڑی جھیل، Chiemsee ہے جو 80 کلو میٹر پر محیط ہے۔ تاہم اسٹافل ذے اس کے مقابلے میں کافی چھوٹی ہے تاہم یہاں روشنی کچھ اس انداز تک پہنچتی ہے کہ یہ جھیل خوبصورتی میں بے مثل نظر آتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/A. Hartl
آئب ذے
باویریا میں ہی جرمنی کی سب سے اونچی پہاڑی کے سامنے موجود جھیل کانام کئی برس قبل اس کے اطراف میں موجود آئب ذے درختوں کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس جھیل کا کرسٹل کی طرح شفاف پانی اس جگہ کے حسن کو دوبالا کرتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S.Hoppe
ڈاؤنر مارے
یہاں گہری نیلی اور گول شکل کی جھیلوں کا وجود جوالہ مکھی کے باعث وجود میں آیا۔ اس خطے میں ایسے تقریباﹰ 70 جھیلیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. P. Tschauner
فروہلنگرو ذے
کولون شہر کے شمال میں واقع یہ جھیل انسانی کاریگری کا نتیجہ ہے۔ یہاں گرمیوں میں 80 ہزار سے زائد افراد آتے ہیں اور یہاں ہونے والے اسپورٹس ایونٹ میں حصہ لیتے ہیں۔
جرمنی کا سب سے بڑا ذخیرہ آب اس وقت وجود میں آیا جب دریائے Saale پر بند باندھا گیا۔ اس تالاب میں 215 ملین کیوبک پانی کو ذخیرہ کیا گیا ہے۔ ان پانیوں میں تین روزہ بحری سفر کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/F. Herrmann
ایڈر ذے
صوبہ ہیسے کے نیشنل پارک میں موجود اس جھیل کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے چاروں اطراف موجود درختوں کو یونیسکو کی جانب سے ورلڈ نیچرل ہیریٹیج قرار دیا جا چکا ہے۔ اس کے پانیوں میں صرف برقی کشتیوں کو چلنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
تصویر: picture alliance/U. Zucchi
لاؤسٹزر ذےلانڈ
جرمنی کے جنوب مشرقی ریاست سیکسنی میں یورپ کی سب سے بڑی مصنوعی جھیل کامپلیکس تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہاں موجود مختلف جھیلوں کی شاخیں 80 کلو میٹر طویل حصے تک پھیلی ہوئی ہوں گی۔ سیاحوں کی اس کامپلیکس میں ابھی سے آمد شروع ہو چکی ہے ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
اشٹیشلن ذے
اس خوبصورت جھیل کا ذکر معروف جرمن مصنف تھیوڈور نے اپنے ناول The Stechlin میں بھی کیا ہے۔ 70 میٹر گہری اور شفاف پانی والی یہ جھیل Brandenburg میں موجود دیگر 3 ہزار جھیلوں میں سب سے زیادہ دلفریب تصور کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ZB/S.Thomas
مؤرٹز
مؤرٹز جرمنی کی شمالی ریاست Mecklenburg-Vorpommern میں دو ہزار کے لگ بھگ جھیلیں ہیں۔ یہاں کی سب سے بڑی جھیل ہے جہاں ہر سال بہار اور خزاں کے موسم میں ہزاروں سارس نظر آتے ہیں۔ اس جھیل کے سفر کے لیے برلن یا ہیمبرگ سے آبی سفر کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/B. Wüstneck
10 تصاویر1 | 10
تقریباً 30 سال کے اعدادو شمار کی بنیاد پر رپورٹ
تحقیقاتی ٹیم نے دنیا کی تقریباً 2000 جھیلوں اور دیگر آبی ذخائر میں پانی کی سطح میں تبدیلی کی پیمائش کی اور اس کے لیے 1992 اور 2020کے درمیان یکجا کیے گئے سیٹلائٹ پر مبنی اعداد و شمار کا استعمال کیا۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ کی میاڈ نامی جھیل پچھلے 28برس کے دوران اپنے تقریباً دو تہائی پانی سے محروم ہوچکی ہے۔
اس تحقیقات میں یہ بھی پتہ چلا کہ غیر پائیدار انسانی استعمال کی وجہ سے وسطی ایشیا میں بحیرہ ارال اور مشرق وسطیٰ میں بحیرہ مردار سمیت جھیلیں خشک ہوتی جارہی ہیں۔
افغانستان، مصر اور منگولیا میں جھیلیں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی زد میں آگئی ہیں اور اس کے سبب بخارات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے نتائج سے بچنے کے لیے گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سیلسیئس تک محدود رکھنا ضروری ہے۔ خیال رہے کہ دنیا اس وقت تقریباً 1.1ڈگری سیلسیئس کی شرح سے گرم ہورہی ہے۔