خشک سالی کا شکار شمالی چلی کے کسان پانی کے ایک نئے اور اچھوتے ذریعے کو دریافت کر کے قحط سالی سے نمٹنے کی کوششوں میں ہیں۔ نیا طریقہ يہ ہے دھند سے پانی پیدا کيا جائے اور اس مقصد کے لیے بڑی بڑی جالیاں استعمال کی جا رہی ہیں۔
اشتہار
گزشتہ برس دسمبر سے چلی کے شمالی علاقہ کوقویمبو کو سخت قحط کا سامنا تھا اور وہاں ہنگامی حالت نافذ تھی۔ اس علاقے کو ہمیشہ سے ہی خشک سالی کا سامنا رہا ہے اور اس کی وجہ وہاں بارش کا تقريباً نہ ہونا بھی ہے۔ اسی صورتحال سے نمٹنے کی خاطر وہاں کے کسانوں نے کاشت کاری کے لیے پانی کا ایک نیا ذریعہ دریافت کیا۔ اس نئے ذریعے میں یہ کسان بڑے بڑے جال یا جالیاں استعمال کرتے ہوئے دھند سے پانی حاصل کرتے ہیں۔
اس علاقے میں بہتے پانی کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے، نہ کوئی دریا اور نہ ہی کوئی نہر۔ یہاں کے لوگ بجلی کے ليے جنریٹر استعمال کرتے ہیں جبکہ مقامی حکومت ٹینکرز کے ذریعے وہاں کے باسیوں کو پانی کی فراہم کرتی ہے۔ تاہم مقامی لوگوں کے مطابق یہ پانی ان کی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔
اس نازک صورتحال کی وجہ سے کئی کنبے اس علاقے سے مہاجرت پر بھی مجبور ہو چکے ہیں۔ لیکن مقامی لوگوں کی کوشش ہے کہ قدرتی حالات سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے نئے ذرائع سے پرانی مشکلات حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
چلی کے لوس ٹومز کے علاقے میں پانی پیدا کرنے والی ایک نئی ٹیکنالوجی کے سبب امید پیدا ہوئی ہے۔ کيتھولک یونیورسٹی آف نارتھ نے اس علاقے میں متعدد آبادیوں کے ساتھ مل کر بڑی بڑی جالیوں کی مدد سے دھند پکڑ کر اس سے پانی پیدا کرنے کا منصوبہ شروع کیا ہے، جو ابھی تک کامیابی سے رواں دواں ہے۔
کاشت کاری کے لیے دھند
ڈانیالا ہینریکز کيتھولک یونیورسٹی آف نارتھ کے پبلک پالیسی شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ دھند سے پانی پیدا کرنے والے منصوبے کی ٹیم کی ایک اہم رکن ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس منصوبے کے تحت ایسی آبادیوں کا انتخاب کیا گیا، جو سمندر سے کم ازکم پچیس پچیس کلومیٹر دور تک واقع ہیں کیونکہ سمندر سے اتنی دور تک بہترین دھند حاصل کی جا سکتی ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ڈانیالا کا مزید کہنا تھا کہ دھند سے پانی پیدا کرنے کا عمل قدرے آسان ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمندر کے نزدیک پہاڑی علاقوں میں بڑے بڑے جال نصب کیے جاتے ہیں اور یہ جال دار نیٹس ہوا سے پیدا ہونے والی نمی کو پکڑ لیتے ہیں اور پھر یہ نمی یا دھند جالیوں کے نیچے موجود پلاسٹک کے بنے تھیلوں میں جمع کر لی جاتی ہے۔ یہ پانی ہی ہوتا ہے، جو بعد ازاں پائپوں کی مدد سے مطلوبہ مقامات تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
دھند کی گاڑھے پن پر منحصر ہوتا ہے کہ اس سے کتنا پانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ عمومی طور ایک اسکوائر میٹر جتنی بڑی جالی یومیہ دو تا سات لیٹر پانی پیدا کر لیتی ہے۔ ایک جالی کے بنانے اور اسے نصب کرنے پر تقریبا آٹھ ہزار ڈالر کا خرچہ آتا ہے۔ کيتھولک یونیورسٹی آف نارتھ مقامی حکومتوں کے ساتھ مل کر ان جالیوں کی تنصیب کا کام کر رہی ہے۔
ابھی یہ منصوبہ تجرباتی بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے اور اس کی کامیابی کی صورت میں چلی کے اس علاقے کی روایتی زندگی کو برقرار رکھتے ہوئے موسموں کے ساتھ مطابقت پیدا کی جائے گی اور مقامی لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جائے گا۔ ڈانیالا کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی کامیابی کی خاطر مقامی لوگوں کو اس کا حصہ بنایا جائے۔ تاہم مقامی آبادی میں اقتصادی طور پر اتنی سکت نہیں کہ وہ دھند سے پانی پیدا کرنے کی خاطر ان جالیوں کو بنانے اور انہیں نصب کرنے کا خرچہ اٹھا سکیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں مہاجرت
قحط، سمندروں کی سطح میں اضافے اور کاشتکاری میں ناکامی کے نتیجے میں آئندہ تین دہائیوں کے دوران مہاجرت کرنے والے افراد کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہو سکتا ہے۔
تصویر: Imago/R. Unkel
حکومتوں کے لیے انتباہ
ورلڈ بینک کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اگر حکومتوں نے فوری نوٹس نہ لیا تو ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قحط اور شدید موسموں کی وجہ سے کئی خطوں میں تباہی پھیل سکتی ہے، جس کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد روزگار اور بہتر زندگی کی خاطر مہاجرت پر مجبور ہو جائے گی۔
تصویر: qudsonline
مہاجرت میں ڈرامائی اضافہ
ورلڈ بینک کے مطابق عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آئندہ تین دہائیاں انتہائی اہم ہیں۔ اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت اور متاثرہ خطوں کے لوگوں کے لیے خصوصی اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔ ایسے خطوں میں خوراک اور پانی کی قلت بھی شدید ہوتی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/M. Reino
زندگی کو خطرات
ورلڈ بینک کی اس رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار پچاس تک ماحولیاتی تبدیلوں کے نتیجے میں ہونے والی مہاجرت سے 143 ملین افراد کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ایسے چالیس ملین افراد کا تعلق زیریں صحارا، چالیس ملین کا جنوبی ایشیا جبکہ سترہ ملین کا تعلق لاطینی امریکی ممالک سے بتایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/L. Xiaopeng
اچھے ماحول کی تلاش
دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی نصف آبادی یعنی 2.8 فیصد زیریں صحارا، جنوبی ایشیا اور لاطینی امریکی ممالک میں ہی سکونت پذیر ہے۔ یہ خطے ماحولیاتی تبدیلیوں سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ کوئی ایسی رپورٹ مرتب کی گئی ہے، جس میں ماحولیاتی تبدیلوں کی وجہ سے ہونے والی مہاجرت کے معاملے کو جامع اور مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
تصویر: Mehr
ماحولیاتی تبدیلیاں مہاجرت کی ’اہم وجہ‘
عالمی بینک کی سی ای او کرسٹالینا جیوگیوا کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں لوگوں کو بے گھر کرنے کی ایک بڑٰی وجہ بن چکی ہیں۔ روزگار کے مواقع ختم ہونے کے علاوہ خوراک، پانی اور دیگر اشیائے ضروریات کی قلت کہ وجہ سے کنبے کے کنبے ایسے خطوں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں، جہاں ان کی زندگی کو سکون میسر آ سکتا ہے۔
تصویر: nedayehirmand
بہتری کی توقع ہے
ہر گزرتے دن کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں زیادہ اقتصادی مسائل کا باعث بن رہی ہیں۔ تاہم عالمی عالمی بینک کے مطابق اگر ضرر رساں گیسوں کے اخراج میں کمی اور پائیدار دور اندیش ترقیاتی مںصوبہ بندی کی خاطر عالمی سطح پر ایکشن لیا جائے تو لاکھوں افراد کو ایسے خطرات سے بچایا جا سکتا ہے۔
تصویر: MEHR
ایتھوپیا سب سے زیادہ متاثر
ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں افریقی ملک ایتھوپیا بہت زیادہ متاثر ہو رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سن دو پزار پچاس تک اس ملک کی آبادی تقریبا دوگنا ہو جائے گی۔ قحط کے باعث کاشت کاری کے خاتمے کی وجہ سے زیریں صحارا کے اس ملک سے بڑے پیمانے پر مہاجرت کے خطرات لاحق ہیں۔
تصویر: AP
بنگلہ دیش کے مسائل
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں لوگوں کے داخلی سطح پر بے گھر کی سب سے بڑی واحد وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہی ہیں۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کے باعث جہاں گلیشئرز پگھل رہے ہیں، وہیں سمندروں کی سطح میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بنگلہ دیش کو اس طرح کے شدید مسائل کا سامنا ہے۔
تصویر: bdnews24.com/A. Pramanik
انسانی المیے کا خطرہ
عالمی بینک کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والی مہاجرت ’ایک انسانی المیے‘ میں بدل سکتی ہے۔ تاہم ماہرین کا یقین ہے کہ اگر عالمی سطح پر سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کی جائے تو صورتحال میں بہتری ممکن ہے۔ یہ گیسیں ماحولیاتی آلودگی کا ایک بڑا سبب بھی قرار دی جاتی ہیں۔
تصویر: Reuters/G.Tomasevic
دیہاتوں سے شہر نقل مکانی
ماہرین کے مطابق دیہاتوں میں کاشتکاری اور لائیو اسٹاک کے متاثر ہونے کے سبب لوگ شہروں کی طرف مہاجرت اختیار کر رہے ہیں اور یوں انہیں بیشتر مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر منصوبہ بندی کی جائے تو مقامی لوگوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے مطابقت پیدا کرنے اور ان کی رہنمائی سے ان کی مشکلات دور کی جا سکتی ہیں۔