1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا کے زیادہ تر ممالک میں جمہوریت زوال کا شکار، رپورٹ

جاوید اختر اے ایف پی، روئٹرز کے ساتھ
11 ستمبر 2025

ایک نئی رپورٹ نے دنیا بھر میں جمہوریت کی حالت پر سنگین خدشات ظاہر کیے ہیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ ممالک میں جمہوری کارکردگی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

سینیگال میں ایک خاتون ووٹ ڈال  رہی ہے
جمہوریت جتنے ممالک میں آگے بڑھ رہی ہے، اس سے زیادہ ممالک میں زوال کا شکار ہےتصویر: Leo Correa/AP/dpa

ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی رجحانات کے مطابق پچھلے سال دنیا بھر میں جمہوریت مزید کمزور ہوئی۔

اسٹاک ہولم میں قائم انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار ڈیموکریسی اینڈ الیکٹورل اسسٹنس (آئیڈیا) کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ "دی گلوبل اسٹیٹ آف ڈیموکریسی 2025" نے 2024 میں 173 ممالک کی جمہوری کارکردگی کا تجزیہ کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، 94 ممالک، یعنی نصف سے کچھ زیادہ، نے 2019 سے 2024 کے درمیان کم از کم ایک اہم جمہوری اشاریے میں کمی ظاہر کی۔ اس کے برعکس صرف ایک تہائی ممالک نے ترقی کی۔

آئیڈیا کے سیکرٹری جنرل کیون کاساسزامورا نے کہا، ''دنیا میں جمہوریت کی موجودہ حالت تشویشناک ہے۔‘‘

رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2019 کے مقابلے میں سب سے زیادہ کمی شفاف انتخابات کے انعقاد، انصاف تک رسائی اور فعال پارلیمان سے متعلق معاملات میں دیکھنے کو ملی۔

دنیا بھر میں اس میں سب سے زیادہ، یعنی 33 فیصد، گراوٹ افریقہ میں آئی، اس کے بعد یورپ 25 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔

مغربی ایشیا کو جمہوری کارکردگی کے لحاظ سے سب سے نچلے درجے پر رکھا گیا۔

یورپ جمہوری اشاریوں میں گراوٹ کی وجہ سے 25 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہاتصویر: VANO SHLAMOV/AFP

یورپ جمہوریت کی درجہ بندی میں سب سے بہتر

رپورٹ نے کچھ مثبت مثالوں پر بھی روشنی ڈالی ہے، جیسے بوتسوانا اور جنوبی افریقہ، جنہوں نے شفاف انتخابات میں مسلسل پیش رفت دکھائی۔ دونوں ممالک نے 2024 میں انتخابات کرائے جن کے نتیجے میں تاریخی تبدیلیاں آئیں۔

ڈنمارک واحد ملک تھا جو مطالعے میں زیرِ غور جمہوریت کی چاروں اقسام یعنی نمائندگی، قانون کی حکمرانی، شراکت داری اور حقوق، میں سرفہرست پانچ ممالک میں شامل رہا۔

یہ درجہ بندیاں زیادہ تر یورپی ممالک جیسے جرمنی، سوئٹزرلینڈ، ناروے اور لکسمبرگ پر مشتمل تھیں، جبکہ کوسٹا ریکا، چلی اور آسٹریلیا نے بھی اچھے نمبر حاصل کیے۔

فلسطینی صحافی عصام رماوی (بائیں) اور ڈی ڈبلیو نیوز کی نمائندہ فینی فاسکار پر اسرائیلی فوجیوں نے اسلحے کے زور پر دھمکیاں دیں اور رام اللہ میں فلم بندی کے دوران ان پر آنسو گیس فائر کیتصویر: DW

پچاس سال میں سب سے بڑی کمی: پریس کی آزادی

کیون کاساس-زامورا نے کہا کہ رپورٹ میں سب سے اہم انکشاف ’’میڈیا کی آزادی میں شدید بگاڑ‘‘ تھا۔

سن دو ہزار انیس سے 2024 کے درمیان دنیا نے’’گزشتہ 50 برس میں سب سے بڑی گراوٹ‘‘دیکھی۔

پریس کی آزادی میں کمی 43 ممالک میں ریکارڈ کی گئی، جن میں افریقہ کے 15 اور یورپ کے 15 ممالک شامل ہیں۔

انہوں نے کہا،’’ہم نے جمہوریت کی صحت کے ایک اہم اشاریے میں اتنی شدید گراوٹ کبھی نہیں دیکھی۔‘‘

افغانستان، برکینا فاسو اور میانمار، جو پہلے ہی میڈیا آزادی کے لحاظ سے سب سے کمزور کارکردگی دکھا رہے تھے، سب سے زیادہ متاثر ہوئے، ان کے بعد جنوبی کوریا کا نمبر آتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ جنوبی کوریا میں حکومت اور اس کے سیاسی اتحادیوں کی جانب سے صحافیوں کے خلاف ہتکِ عزت کے مقدمات میں اضافہ ہوا اور صحافیوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔

کاساس-زامورا نے کہا کہ دنیا بھر میں میڈیا آزادی کی گراوٹ کی وجوہات میں حکومتوں کی سخت کارروائیاں، وبا کے اثرات اور’’غلط معلومات کے منفی اثرات‘‘شامل ہیں۔

انہوں نے کہا،’’اس میں سے کچھ تو واقعی غلط معلومات ہیں اور کچھ کو حکومتیں محض ایک بہانے کے طور پر استعمال کرتی ہیں تاکہ پریس کی آزادی کو دبایا جا سکے۔‘‘

امریکہ میں جمہوریت کا زوال

رپورٹ میں صرف وہی اعداد وشمار شامل ہیں جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنوری میں اقتدار سنبھالنے سے پہلے کے ہیں۔

لیکن اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ آئیڈیا نے ایسی مثالیں ریکارڈ کی ہیں جن میں ٹرمپ انتظامیہ نے’’ان قواعد، اداروں اور روایات کو نقصان پہنچایا اور ختم کیا جنہوں نے امریکی جمہوریت کو تشکیل دیا تھا۔‘‘

امریکہ نمائندگی کے لحاظ سے 35 ویں اور حقوق کے لحاظ سے 32 ویں نمبر پر ہے، جو کہ دیگر او ای سی ڈی ممالک سے پیچھے ہے۔

صرف شراکت داری کے حوالے سے اس کا اسکور اعلیٰ ہے، اور اس زمرے میں چھٹے نمبر پر ہے۔

کاساس-زامورا نے کہا،’’گزشتہ سال کے آخر میں انتخابات کے دوران اور 2025 کے ابتدائی مہینوں میں جو کچھ ہم نے دیکھا وہ خاصا پریشان کن تھا۔‘‘

انہوں نے مزید کہا،’’چونکہ امریکہ میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر دنیا پر بھی پڑتا ہے، اس لیے یہ عالمی سطح پر جمہوریت کے لیے اچھا شگون نہیں ہے۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں