دنیا کے ’سب سے بڑے ہوائی جہاز‘ کی کامیاب تجرباتی پرواز
14 اپریل 2019
اسٹراٹولانچ ہوائی جہاز مصنوعی سیاروں کو خلاء میں پہنچانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اس ہوائی جہاز کے چھ انجن اور 28 پہیے ہیں جبکہ اس کے پروں کا پھیلاؤ ایئربس کے A380 جہاز سے بھی دو گُنا ہے۔
تصویر: AFP/Stratolaunch Systems Corp
اشتہار
اسٹراٹولانچ سسٹمز نامی کمپنی کے مطابق ایک فٹبال کے میدان سے بھی زیادہ پروں کا پھیلاؤ رکھنے والے اس ہوائی جہاز نے کیلیفورنیا کے موہاوی صحرا میں واقع ایک ایئرفیلڈ سے اڑان بھری اور ڈھائی گھنٹے کی پرواز کے دوران تجرباتی مشقیں کیں۔ اسٹراٹولانچ سسٹمز نامی یہ کمپنی خلا میں سامان کی ترسیل کے نظام کے لیے کام کر رہی ہے اور یہ پراجیکٹ اسی کمپنی کا ہے۔
اپنی اولین پرواز کے دوران اس جہاز نے 304 کلومیٹر فی گھنٹہ تک کی رفتار حاصل کی جبکہ یہ 17 ہزار فٹ یا قریب 5200 میٹر کی بلندی تک گیا۔ 117 میٹر چوڑے اس ہوائی جہاز کا وزن 220 ٹن ہے۔ اس جہاز کے دو مرکزی ڈھانچے یعنی سامان یا مسافروں کو لے جانے والے حصے ہیں۔ اس کے 28 پہیے ہیں جبکہ اس میں بوئنگ 747 ہوائی جہاز میں استعمال ہونے والے چھ انجن نصب ہیں۔
117 میٹر چوڑے اس ہوائی جہاز کا وزن 220 ٹن ہے۔ اس جہاز کے دو مرکزی ڈھانچے یعنی سامان یا مسافروں کو لے جانے والے حصے ہیں۔تصویر: AFP/Stratolaunch Systems Corp
اسٹراٹولانچ ہوائی جہاز کو ایک ایسے موبائل پلیٹ فارم کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے جو خلاء میں مصنوعی سیارے پہنچانے میں معاون ہو گا۔ امید کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں یہ خلاء میں مسافر بردار شٹلز بھی پہنچا سکے گا۔
اسٹراٹولانچ سسٹمز کمپنی کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ژاں فلائڈ کے مطابق، ’’آج کی پرواز زمین پر موجود لانچنگ سسٹمز کا متبادل تیار کرنے کے ہمارے مشن کو آگے بڑھانے میں آگے کی جانب ایک قدم ہے۔‘‘
ناسا کی ساٹھویں سالگرہ، تاریخی کامیابیوں پر ایک نظر
امریکی خلائی ادارہ ناسا اپنے قیام کی ساٹھویں سالگرہ منا رہا ہے۔ ان چھ عشروں میں اس مشہور خلائی ادارے کے توسط سے دنیا نے کچھ ایسے بھی لمحات دیکھے جو یاد گار ٹھہرے۔ ڈی ڈبلیو نے ایسے ہی کچھ تاریخی لمحات پر ایک نظر ڈالی ہے۔
سوویت یونین نے اپنا سپوتنک سیٹلائٹ سن 1957 میں خلا میں روانہ کیا تھا۔ یوں سوویت یونین خلائی مشن بھیجنے میں امریکا سے بازی لے گیا اور امریکا کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ خلا میں سویت یونین کا غلبہ قائم ہو جائے گا۔ تب ہی امریکی فوج نے انتیس جولائی کو ایکسلپورر وَن نامی سیٹلائٹ خلا میں بھیجا اور پھر اسی سال اکتوبر میں ناسا کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
تصویر: NASA/JPL-Caltech
جب انسان چاند پر پہنچا
اپنے قیام کے صرف گیارہ سال بعد ہی ناسا پہلی بار چاند پر انسانوں کو اتارنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس تصویر میں خلا نورد نیل آرمسٹرانگ اور ایروِن ایلڈرن چاند کی سطح پر امریکی پرچم نصب کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔
چودہ اپریل سن انیس سو ستر کے روز خلائی جہاز ’اپالو تیرہ‘ کا آکسیجن ٹینک پھٹ گیا تھا۔ جہاز میں موجود خلا نورد جیمز لوول کو ٹیکساس میں قائم ناسا کے مرکزی دفتر میں اس پیغام کے ساتھ رپورٹ کرنا پڑا تھا، ’’ہیوسٹن ، ہمیں مسئلہ پیش آ گیا تھا۔‘‘ خلانورد خرابی ٹھیک کرنے کے بعد بحفاظت زمین پر لوٹ آئے تھے۔
اٹھائیس جنوری سن 1986 کو خلا میں بھیجے جانے والی ’دی چیلنجر‘ سپیس شٹل اپالو تیرہ کی طرح خوش قسمت ثابت نہیں ہوئی۔ یہ خلا کی جانب روانہ ہونے کے چند منٹ بعد ہی دھماکے سے تباہ ہو گئی تھی اور اس میں موجود تمام سات افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ دھماکے کا سبب ’سیل بند‘ کرنے کے لیے استعمال کی گئی ربر کی مہر تھی جو غیر معمولی سرد درجہ حرارت کو برداشت نہیں کر سکی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/B. Weaver
دیرینہ مسابقت ختم ہو گئی
امریکی اور روسی سائنسدانوں کے درمیان خلا میں بھی جاری سرد جنگ بالآخر چودہ دسمبر سن انیس سو اٹھانوے کو اس وقت ختم ہو گئی جب امریکا کا ’یونیٹی‘ روس کے ’زاریا‘ اسٹیشنز آپس میں ملا دیے گئے۔ انہی دونوں کو ملا کر ’بین الاقوامی خلائی اسٹیشن‘ کی بنیاد ڈالی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA
ناسا کا اگلا مشن: مریخ پر انسان
مریخ سیارہ ناسا کے تجسس کا اگلا پڑاؤ تھا۔ چھ اگست سن 2012 کو ناسا کی بھیجی گئی موبائل لیبارٹری نے مریخ پر لینڈ کیا اور یہ موبائل لیبارٹری آج بھی مریخ سے سائنسی دریافتیں، سیلفیاں، تصاویر حتی کہ ٹویٹ پیغامات بھیجنے میں مصروف ہے۔ ناسا کا اگلا منصوبہ سن 2030 تک مریخ پر انسانوں کی لینڈنگ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA/JPL-Caltech/MSSS
6 تصاویر1 | 6
یہ پراجیکٹ مائیکروسافٹ کمپنی کے شریک بانی پال ایلن نے شروع کیا تھا جن کا گزشتہ برس اکتوبر میں انتقال ہو گیا تھا۔
پال جی ایلن ٹرسٹ کی سربراہ اور پال ایلن کی ہمشیرہ جوڈی ایلن کا اس موقع پر کہنا تھا، ’’ہم سب جانتے ہیں کہ پال آج کی تاریخی کامیابی کو دیکھ کر کتنا زیادہ خوش ہوتے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’یہ ہوائی جہاز انجینیئرنگ کا ایک زبردست شاہکار اور کامیابی ہے اور ہم اس کے لیے کام کرنے والے ہر ایک فرد کو مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
ان سائیٹ کے مریخ پر اترنے کے لمحات
ناسا کے خلائی جہاز ان سائیٹ نے چار سو بیاسی ملین کلومیٹر (تین سو ملین میل) کا سفر طے کیا ہے۔ یہ روبوٹ کنٹرول خلائی جہاز مسلسل چھ ماہ تک سفر کرنے کے بعد مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان سائیٹ خلائی مشن تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر کا بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔ اس میں جرمن ساختہ مکینکل دھاتی چادر بھی استعمال کی گئی ہے، جو مریخ کی حدت برداشت کرنے کے قابل ہے۔ فرانس کے ایک سائنسی آلات بنانے والے ادارے کا خصوصی آلہ بھی نصب ہے، جو مریخ کی سطح پر آنے والے زلزلوں کی کیفیات کو ریکارڈ کرے گا۔ اس کے اترنے پر کنٹرول روم کے سائنسدانوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/NASA/B. Ingalls
پہلی تصویر
تین ٹانگوں والا ان سائٹ مریخ کے حصے’الیسیم پلانیشیا‘ کے مغربی سمت میں اترا ہے۔ اس نے لینڈنگ کے بعد ابتدائی پانچ منٹوں میں پہلی تصویر کنٹرول ٹاور کو روانہ کی تھی۔ تین سو ساٹھ کلوگرام وزن کا یہ خلائی ریسرچ جہاز اگلے دو برسوں تک معلوماتی تصاویر زمین کی جانب روانہ کرتا رہے گا۔
تصویر: picture alliance/Zuma/NASA/JPL
ان سائنٹ مریخ کے اوپر
ان سائیٹ خلائی ریسرچ دو چھوٹے سیٹلائٹس کی مدد سے مریخ کی سطح تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان سیٹلائٹس کے توسط سے ان سائیٹ کی پرواز کے بارے میں معلومات مسلسل زمین تک پہنچتی رہی ہیں۔ اس خلائی مشن نے مریخ پر اترنے کے تقریباً ساڑھے چار منٹ بعد ہی پہلی تصویر زمین کے لیے روانہ کر دی تھی۔ اڑان سے لینڈنگ تک اِسے چھ ماہ عرصہ لگا۔ ناسا کے مریخ کے لیے روانہ کردہ خلائی مشن کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد ہے۔
ان سائیٹ مریخ کی سطح پر بارہ ہزار تین سو کلومیٹر کی رفتار سے پرواز کرتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔ اترے وقت اس کو بریکوں کے علاوہ پیراشوٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ ان سائیٹ پراجیکٹ کے سربراہ سائنسدان بروس بینرٹ کا کہنا ہے کہ مریخ کی جانب سفر سے کہیں زیادہ مشکل امر لینڈنگ ہوتا ہے۔ سن 1976 کے بعد مریخ پر لینڈنگ کی یہ نویں کامیاب کوشش ہے۔
مریخ کی سطح پر ان سائیٹ نامی خلائی تحقیقی جہاز ایک ہی مقام پر ساکن رہتے ہوئے اگلے دو برس تک اپنا مشن جاری رکھے گا۔ اس مشن میں مریخ کی اندرونی سطح کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ سرخ سیارے کے زلزلوں کی کیفیت کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یہ ریسرچ مشن مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار بارے کوئی معلومات جمع نہیں کرے گا۔