1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا کے سب سے زیادہ اسقاط حمل والے ممالک میں پاکستان بھی

7 دسمبر 2018

اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں ہر سال قریب پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ عورتیں اور لڑکیاں اسقاط حمل کرانے پر مجبور ہو جاتی تھیں اور ان میں سے پانچ کروڑ کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہوتا تھا، جن میں سے پاکستان بھی ایک اہم نام ہے۔

Symbolbild: Leihmutterschaft
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fiedler

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں، جہاں آبادی میں اضافہ انتہائی تیز رفتار ہے، ہر سال قریب بائیس لاکھ حاملہ خواتین اور لڑکیاں اسقاط حمل کراتی ہیں۔ حمل ضائع کرا دینے کے ان واقعات کی بڑی وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ ایسی پاکستانی عورتیں اور لڑکیاں بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہی حاملہ ہو جاتی ہیں۔ طبی اور سماجی ماہرین ایسے کیسز کے لیے خواتین کے ''غیر ارادی طور پر حاملہ ہو جانے‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔

مانع حمل ذرائع تک رسائی کا فقدان

پاکستان میں عام خواتین اور لڑکیوں، خاص طور پر غریب طبقے اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والی عورتوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی حاملہ ہو جانے کے سالانہ کئی ملین واقعات کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ ایسی خواتین کو مانع حمل ذرائع کا یا تو علم ہی نہیں ہوتا یا پھر ان کی مانع حمل امکانات تک رسائی نہیں ہوتی۔ کئی واقعات میں ایسی خواتین کے لیے اسقاط حمل کا عمل جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔

اسلام آباد کے شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے شعبہ گائناکالوجی سے منسلک ڈاکٹر انیسہ سلیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے پاس روزانہ ایسے ایک دو کیس ضرور آتے ہیں، جن میں اسقاط حمل کی درخواست کی جاتی ہے۔ تصویر: DW/I. Jabeen

طبی ماہرین کے علاوہ خواتین اور زچہ و بچہ کی صحت کے لیے کام کرنے والی کئی پاکستانی غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق بھی بڑے شہروں میں اسقاط حمل کرانے والی با وسائل خاندانوں کی حاملہ عورتوں اور لڑکیوں کو تو یہ سہولت باقاعدہ ہسپتالوں میں دستیاب ہو جاتی ہے لیکن پسماندہ اور دیہی علاقوں کی غریب عورتیں اپنے حمل ضائع کرانے کے لیے کئی واقعات میں غیر قانونی طور پر کام کرنے والے کلینکس یا اپنے گھروں میں بڑی رقوم کے بدلے یہ سہولت مہیا کرنے والی غیر تعلیم یافتہ دائیوں یا پیشہ ور نرسوں کی خدمات حاصل کرتی ہیں۔ اسی لیے ایسی حاملہ عورتوں کو بعد ازاں طرح طرح کی طبی پیچیدگیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور کئی کیسز میں تو حاملہ عورتوں یا لڑکیوں کی بہت زیادہ خون بہہ جانے سے موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔

اسقاط حمل کے روزانہ قریب چھ ہزار واقعات

پاکستان میں 'غیر ارادی حمل‘ کے واقعات کتنے زیادہ ہیں اور ان کے اسباب و نتائج کیا ہوتے ہیں، اس بارے میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں وزارت بہبود آبادی کے مرکز کی سربراہ نگہت سعید نے ایک انٹرویو میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اسقاط حمل کسی حاملہ عورت یا لڑکی کے حمل کو ختم کر دینے کا طبی عمل ہے۔ لیکن یہ ایک بہت سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے کیونکہ پاکستان میں اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح بہت خطرناک ہے۔ روزانہ چھ  ہزار سے زائد واقعات میں اسقاط حمل کرایا جاتا ہے۔ یعنی ہر سال قریب بائیس لاکھ۔ ان میں سے غیر ارادی طور پر حاملہ ہونے والی خواتین اور لڑکیوں کی تعداد تقریباﹰ پچاس فیصد ہوتی ہے۔‘‘

انہوں نے کہا، ’’ایسی خواتین بچے پیدا کرنا نہیں چاہتیں۔ لیکن وہ یا تو مانع حمل ادویات اور طریقوں سے ناآشنا ہوتی ہیں یا پھر ان کے پاس وسائل نہیں ہوتے۔ ان میں سے تو کئی ایسے ذرائع کے استعمال کو گناہ بھی سمجھتی ہیں۔ کچھ خواتین ایسی بھی ہوتی ہیں جو ذاتی طور پر تو مانع حمل ذرائع استعمال کر کے برتھ  کنٹرول کا طریقہ اپنانا چاہتی ہیں تاکہ بار بار کے اسقاط حمل سے جان چھوٹے لیکن ان کے شوہر یا سسرال والے انہیں دباؤ ڈال کر ایسا کرنے نہیں دیتے۔ میڈیا اس سلسلے میں اچھا رول ادا کر سکتا ہے مگر وہاں فیملی پلاننگ کے اشتہارات تک پر پابندی ہے۔ تو بات یہ ہے کہ جب تک عوام کو اس معاملے کی سنگینی کا پورا احساس نہیں ہو گا، تب تک اس کا سدباب بہت مشکل ہے۔‘‘

طبی مجبوری کے بغیر بھی اسقاط حمل

اسلام آباد کے شفا انٹرنیشنل ہسپتال کے شعبہ گائناکالوجی سے منسلک ڈاکٹر انیسہ سلیم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے پاس روزانہ ایسے ایک دو کیس ضرور آتے ہیں، جن میں اسقاط حمل کی درخواست کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا، ''زیادہ تر الیکٹیو ابارشن کے کیسز آتے ہیں، یعنی غیر ارادی حمل کے واقعات۔ چونکہ عام حالات میں اسقاط حمل کرنا غیر قانونی ہے، اس لیے ہم منع کر دیتے ہیں۔ لیکن ایسی خواتین بعد میں عام دائیوں یا نجی کلینکس سے اسقاط حمل کرا لیتی ہیں۔ ان میں سے کئی کیس خراب ہونے پر دوبارہ ہمارے پاس ہی آتے ہیں، جنہیں ہم ایمرجنسی کیسز کے طور پر قبول کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر انیسہ سلیم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہماری ایک فاؤنڈیشن بھی ہے، جو شادی شدہ جوڑوں کی کونسلنگ کرتی ہے۔ خاص طور پر مردوں کی، جنہیں سمجھانے کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ فیملی پلاننگ کے طریقوں کے استعمال میں زیادہ رکاوٹ مردوں ہی کی طرف سے دیکھنے میں آتی ہے۔ بہت سی خواتین ہمیں بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر مانع حمل ذرائع کے کسی بھی صورت میں استعمال کو اچھا نہیں سمجھتے اور کہتے ہیں ’ہم ٹھیک کر لیں گے‘۔ لیکن پھر ہر بارحمل ٹھہر جاتا ہے۔ یہ مردوں کا معاشرہ ہے، جہاں وہ بیوی کو یہ حق بھی نہیں دیتے کہ وہ اپنی پسند سے مانع حمل ذرائع استعمال کرے۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاس زیادہ تر ایسے طبقے کی خواتین اور لڑکیاں آتی ہیں، جو خوشحال اور پڑھا لکھا ہے۔‘‘

سالانہ دس ہزار پاکستانی خواتین کی موت

اسلام آباد کے جڑواں شہر راولپنڈی کے ہولی فیملی ہسپتال کی سینیئر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر فرحت ارشد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دنیا کے چھبیس ممالک میں اسقاط حمل پر پابندی ہے جبکہ انتالیس ملک ایسے ہیں، جہاں حاملہ عورت کی جان بچانے کے لیے اسقاط حمل کی اجازت ہے۔ پاکستان میں ہر سال تقریباﹰ دس ہزار خواتین دوران حمل، اسقاط حمل یا پھر بچے کی پیدائش کے بعد پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیوں کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

’’ پاکستان میں اسقاط حمل کی خطرناک حد تک زیادہ شرح کی بنیادی وجوہات میں عمومی حالات اور غربت بھی شامل ہیں لیکن اہم ترین وجہ مانع حمل ذرائع کے استعمال  سے انکار ہے۔‘‘تصویر: DW/I. Jabeen

ڈاکٹر فرحت ارشد نے کہا، ’’ہلاکتوں کی یہ شرح دراصل دس ہزار سالانہ سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ زیادہ تر کیسز روایتی دائیوں وغیرہ سے کرائے جاتے ہیں، جو رپورٹ ہی نہیں ہوتے ہیں۔ ہمارے پاس روزانہ ایسے کئی کیسز آتے ہیں، جن میں مریضہ کی حالت تشویشناک ہوتی ہے۔ کہیں حمل گرانے کا طریقہ کار غلط تھا، کہیں دوا جعلی تھی تو کہیں اسقاط حمل کے بعد صفائی کا خیال نہ رکھے جانے سے شدید قسم کی انفیکشن پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جتنے بھی غریب گھروں سے کیسز آتے ہیں، ان کے پہلے ہی کافی بچے ہوتے ہیں اور وسائل اور شعور کا فقدان بھی ہوتا ہے۔ جو کیسز دیہات سے شہروں میں لائے جاتے ہیں، ان کی تو حالت بہت ہی بری ہوتی ہے۔ گھر ہی میں دیسی ٹوٹکوں سے حمل گرانے کی کوششوں کے دوران شدید قسم کی پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ ایسے بہت سے واقعات میں خواتین کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔‘‘

ایک اوسط پاکستانی عورت کی کہانی

راولپنڈی کے علاقے راجہ بازار  کی رہائشی غزالہ پروین نامی ایک خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی بیٹی کی شادی آٹھ سال پہلے ہوئی تھی، جس کی اب تین بیٹیاں ہیں۔ بیٹی کا سسرال ایک قدامت پسند مسلم گھرانہ تھا، جہاں مانع حمل ذرائع کے استعمال کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا یا کم از کم انہیں ترجیح نہیں دی جاتی تھی۔ ایسے میں اس خاتون کی بیٹی بار بار حاملہ ہو جاتی مگر ہر بار اس خوف سے چھپ کر اسقاط حمل کرا لیتی کہ کہیں چوتھی بیٹی پیدا نہ ہو جائے۔ اسے دھمکی دی گئی تھی کہ اگر ایک اور بیٹی پیدا کی، تو اسے طلاق دے دی جائے گی۔ اس نے کئی بار اپنے حمل ضائع کرائے۔ پھر ایک بار ایسے ہی ایک عمل کے دوران بہت زیادہ خون بہہ جانے سے اس کی جان ہی چلی گئی۔

پاکستان میں ہر سال قریب بائیس لاکھ حاملہ خواتین اور لڑکیاں اسقاط حمل کراتی ہیں۔ تصویر: Getty Images/AFP/U. Ruiz

''سسرال والے یہ کہہ کر جنازے تک میں نہ آئے کہ ایسے گناہ کے کام کا تو یہی انجام ہونا تھا۔ آج اپنی بیٹی کی تین بچیاں بھی میں ہی پال رہی ہوں۔ میں سوچتی ہوں کہ کاش اس کی شادی جاہلوں کے ایسے کسی خاندان میں نہ کی ہوتی تو شاید آج میری بیٹی زندہ ہوتی۔‘‘

ذمے دار کون؟

اقوام متحدہ سے منسلک پاکستانی ماہر عمرانیات ذوالفقار راؤ کا ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان میں اسقاط حمل کی خطرناک حد تک زیادہ شرح کی بنیادی وجوہات میں عمومی حالات اور غربت بھی شامل ہیں لیکن اہم ترین وجہ مانع حمل ذرائع کے استعمال  سے انکار ہے۔ پاکستان میں قدامت پسند مسلم گھرانوں میں مانع حمل ذرائع کے استعمال کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ نتیجہ اسقاط حمل کے وہ واقعات ہیں، جن کی تعداد سوا دو ملین سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔

ذوالفقار راؤ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سارے نہیں لیکن ہمارے ہاں ایک مخصوص مذہبی طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ مانع حمل ذرائع کا استعمال اس لیے نہیں ہونا چاہیے کہ امت مسلمہ میں اضافہ ہوتا رہے۔ ایسے مذہبی ٹھیکیدار اسلام کے نام پر اپنی دکانیں چمکائے رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ سماجی طور پر مذہب پر ان کی اجارہ داری ہے۔ وہ یہ مضحکہ خیز دلیل دیتے ہیں کہ آبادی بڑھا کر امت مسلمہ میں اضافہ کرتے ہوئے اسلام کی نام نہاد خدمت کی جائے۔ ایسی سوچ کے خلاف شعور و آگہی کی ضرورت ہے۔ اس لیے بھی کہ ایسے حلقوں کی کہی ہر بات کو مان لینے والے زیادہ تر پسماندہ، غریب اور قدرے ناخواندہ افراد ہوتے ہیں۔ پھر کئی بہت غریب شہری ایسے بھی ہیں جن کے مطابق کنڈومز، مانع حمل گولیوں یا دیگر ذرائع پر رقوم خرچ کرنا فضول خرچی سمجھا جاتا ہے۔‘‘

راؤ کے مطابق اس تکلیف دہ صورت حال کے دوسری جانب ایک طبقہ ایسا بھی ہے، جو تعلیم یافتہ ہے، باشعور ہے، خوشحال بھی ہے اور صحت مند سوچ کا حامل بھی۔ یہ طبقہ معاشرے پر بوجھ بننے کے بجائے اس کا بوجھ اٹھانے میں ہاتھ بٹا رہا ہے اور فیملی پلاننگ کے مذہب پسند مخالفین کی منطق کو غلط ثابت کر رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے سرکاری سطح پر ایسے خصوصی اقدامات اور پروگراموں کا اہتمام کیا جائے، جو اس سلسلے میں عوام کو زیادہ باشعور بنانے میں مدد دے سکیں۔‘‘

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں