جنوبی امریکی ملک میکسیکو کے جزیرہ نما یُکاتان میں زیر زمین سیلابی یا پانی سے بھرے غاروں کا ایک 347 کلو میٹر طویل سلسلہ دریافت کیا گیا ہے۔
اشتہار
میکسیکو کے زیر زمین آبی غار
میکسیکو میں سیلابی یا پانی سے بھرے غاروں کا ایک طویل سلسلہ دریافت کیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters
میکسیکو میں پانی سے بھرے غاروں کا ایک طویل سلسلہ دریافت کیا گیا
تصویر: Reuters/Herbert Mayrl/Courtesy Gran Acuifero Maya Project
زیر زمین سیلابی غاروں کا یہ سلسلہ 347 کلو میٹر طویل ہے
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH
جرمن غوطہ خور رابرٹ شمٹنر کی قیادت میں ایک ٹیم نے گزشتہ دس ماہ کے دوران ان زیر زمیں غاروں میں سفر کیا
تصویر: Reuters
میکسیکو کا یہ علاقہ قدیم مایا تہذیب کا ایک اہم مرکز بھی تھا
تصویر: picture-alliance/M. Mara
زیر زمین سرمائے میں چھپے رازوں کو پرکھ کر مایا تہذہب کے بارے میں بھی نئی معلومات منظر عام پر آئیں گی
تصویر: Reuters/Jan Arild Aaserud/Courtesy Gran Acuifero Maya Project
جرمن غوطہ خور رابرٹ شمٹنر، جنہوں نے اپنی زندگی کے چودہ برس اس منصوبے کے لیے صرف کیے
تصویر: Reuters/D. Becerril
رابرٹ شمٹنر کے مطابق ان غاروں کو محفوظ بنانا سبھی کی ذمہ داری ہے
تصویر: Reuters/Herbert Mayrl/Courtesy Gran Acuifero Maya Project
غاروں کا زیر زمین سلسلہ میکسیکو کے جزیرہ نما یُکاتان سے طولوم تک پھیلا ہوا ہے
8 تصاویر1 | 8
محققین نے کوئی نئے غار دریافت نہیں کیے، بلکہ اس بات کی تصدیق کی ہے کہ میکسیکو کے جزیرہ نما یُکاتان میں واقعہ زیر زمین سیلابی غاروں کا 263 کلو میٹر طویل سلسلہ اور اس سے سینکڑوں کلومیٹر دور 83 کلو میٹر طویل غار دراصل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور در اصل ایک ہی سلسلہ ہیں۔
اس انکشاف کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہے کہ میکسیکو کے یہ زیر آب غار اب تک دریافت ہونے والے زیر زمین سیلابی غاروں میں سب سے طویل سلسلہ ہیں۔ ان غاروں کے باہمی ربط کو ثابت کرنے کے لیے جرمن غوطہ خور رابرٹ شمٹنر کی قیادت میں ایک ٹیم نے گزشتہ دس ماہ کے دوران ان زیر زمیں غاروں میں سفر کیا۔
The world's biggest flooded cave
00:24
اس دریافت کے بعد رابرٹ شمٹنر کا کہنا تھا، ’’پانی سے بھرے زیر زمین غاروں میں سفر کرنے کا سلسلہ گزشتہ بیس برسوں سے جاری ہے اور میں نے اس حقیقت کو دریافت کرنے کے لیے اپنی زندگی کے چودہ برس صرف کیے ہیں۔ اب جب کہ یہ معلوم ہو چکا ہے کہ یہ غاریں ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں تو انہیں محفوظ بنانا سبھی کی ذمہ داری ہے۔‘‘
جزیرہ نما یکاتان اپنے خوبصورت ساحلوں کے باعث سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے۔ تاہم اس کے علاوہ بھی یہ علاقہ قدیم مایا تہذیب کا بھی ایک اہم مرکز تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تاریخی اہمیت کے حامل خطے میں زیر زمین آبی غاروں کی دریافت نہ صرف آرکیالوجی کے حوالے سے اہمیت رکھتی ہے بلکہ زیر زمین سرمائے میں چھپے رازوں کو پرکھ کر مایا تہذہب کے بارے میں بھی نئی معلومات منظر عام پر آئیں گی۔
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں میں قریب ڈھائی ہزار سال پرانی ایسی کئی غاریں ہیں، جنہیں اب کروڑوں روپے خرچ کر کے باقاعدہ طور پر بحال کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
شاہ اللہ دتہ غاریں
اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں شاہ اللہ دتہ نامی گاؤں میں یہ غاریں اللہ دتہ کی غاریں بھی کہلاتی ہیں، جو قریب دو ہزار چار سو سال پرانی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صدیوں پہلے ان غاروں کا شاید کوئی اور نام تھا لیکن مغلیہ دور کے بعد اس جگہ کا نام ایک درویش شاہ اللہ دتہ سے موسوم ہو گیا تھا۔ شاہ اللہ دتہ مارگلہ کی پہاڑیوں واقع گاؤں ایک بہت ہی خوبصورت گاؤں ہے، جس کے رہائشی بہت مہمان نواز ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
پتھریلی مٹی کی پہاڑیاں
شاہ اللہ دتہ گاؤں میں یہ غاریں دور سے دیکھنے پر صاف نظر نہیں آتیں کیونکہ زیادہ تر پتھریلی مٹی والی پہاڑیوں میں بنی ان غاروں کو صدیوں پرانے بہت سے درختوں نے قدرتی طور پر اپنے پیچھے چھپا رکھا ہے۔ مارگلہ کی پہاڑیوں کے سلسلے میں یہ غاریں خان پور کو جانے والی سڑک سے کچھ ہی دور واقع ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
خستہ دہانے اور دیواریں
ان غاروں کے دہانوں اور ان کی بیرونی دیواروں کی حالت کافی خستہ ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہزاروں سال تک مختلف طرح کے شدید موسمی حالات نے ان پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان غاروں کو قریب سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان تاریخی باقیات کو محفوظ کرنے کی کتنی اشد ضرورت ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
دعوت اور پراسراریت
یہ غاریں دور سے دیکھنے والوں کو قریب آنے کی دعوت دیتی محسوس ہوتی ہیں اور قریب جائیں تو دیکھنے والوں پر تاریخ کی پراسراریت غالب آ جاتی ہے۔ سن اٹھارہ سو پچاس سے یہ غاریں ایک خاندان کے زیر انتظام ہیں۔ ان غاروں کی دیکھ بھال اس خاندان کے موجودہ سربراہ محمد اسماعیل کرتے ہیں، جو یہ کام اپنی نوجوانی کے سالوں سے کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سیاحوں کے لیے پرکشش
ان قدیم غاروں کو دیکھنے کے لیے چھٹیوں کے دوران بڑی تعداد میں مقامی سیاح قریب سات سو سال پرانے گاؤں شاہ اللہ دتہ کا رخ کرتے ہیں۔ ان سیاحوں کے لیے محمد اسماعیل نے وہاں ایک چھوٹا سا چائے خانہ بھی کھول رکھا ہے۔ ان غاروں کو دیکھنے کے لیے آنے والے غیر ملکی مہمانوں میں اکثریت بدھ مت کے پیروکاروں کی ہوتی ہے، جس کی وجہ کچھ ہی فاصلے پر موجود ایک قدیم بدھ اسٹوپا کی باقیات بھی ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گرمی کم کرنے کی کوشش
اس تصویر میں غاروں کے منتظم محمد اسماعیل ایک گرم دن کی سہ پہر پانی چھڑک کر زمین ٹھنڈی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ قریب ہی ایک غار کے دہانے پر ایک رنگدار چادر بچھی ہے، جہاں یا تو محمد اسماعیل خود آرام کر لیتے ہیں یا وہاں آنے والے مہمان کچھ دیر کے لیے بیٹھ جاتے ہیں۔ اب اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے نے ایک منصوبہ تیار کیا گیا ہے، جس کے تحت ان غاروں کو محفوظ کرتے ہوئے انہیں بحال کیا جائے گا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
مستقبل کے بارے میں پرامید
محمد اسماعیل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے ماضی میں بھی ان غاروں کی بحالی کے منصوبے بنائے تھے لیکن عملی نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ اس مرتبہ لیکن وہ پرامید ہیں کہ مارگلہ کی پہاڑیوں میں ان تاریخی غاروں کو بحال کرتے ہوئے انہیں سیاحوں کے لیے پرکشش بنا جائے گا، جس سے مقامی سطح پر ترقی میں بھی مدد ملے گی۔
تصویر: DW/I. Jabeen
غار کا اندرونی منظر
اس تصویر میں شاہ اللہ دتہ کی غاروں میں سے ایک کا اندرونی منظر دیکھا جا سکتا ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ دو ہزار سال سے زائد کے عرصے میں یہ جگہ شکست و ریخت کے کس عمل سے گزری ہے۔ کئی جگہوں پر بوسیدہ اور غیر محفوظ قدرتی ڈھانچوں کی وجہ سے ان غاروں میں داخل ہونا خطرے سے خالی نہیں ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
بحالی اور صفائی کی ضرورت
ان غاروں میں سے چند ایک کی بیرونی دیواروں میں سوراخ بھی ہیں۔ یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں ان غاروں کو ممکنہ انہدام سے بچانا اور وہاں صفائی اور دیکھ بھال کے معیاری انتظامات بھی لازمی ہوں گے۔ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے ان غاروں کی بحالی کے لیے چار کروڑ روپے مالیت کا ایک منصوبہ تیار کیا ہے، جس پر اسی مالی سال کے دوران عمل شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
چشمے پر تالاب
محمد اسماعیل کے مطابق ماضی میں اس علاقے کا ایک نام گڑیالہ بھی تھا، جہاں کبھی تیرہ کنال پر پھیلا ہوا پھل دار درختوں والا ایک باغ تھا، جو ’بدھو کا باغ‘ کہلاتا تھا۔ یہ باغ سی ڈی اے نے 1983 میں اپنی ملکیت میں لیا، جو اب ختم ہو چکا ہے۔ تصویر میں نظر آنے والا تالاب غاروں کے قریب سے گزرنے والے ایک قدیم چشمے کی گزرگاہ پر بنایا گیا ہے۔ یہی چشمہ اور تالاب پورے گاؤں کو سیراب کرتا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
منہ چڑاتا ہوا سنگ بنیاد
پوٹھوہار کے علاقے میں شاہ اللہ دتہ گاؤں ایک ایسے راستے پر واقع ہے، جسے صدیوں تک شاہی قافلے اور فوجی لشکر ہندوستان اور افغانستان کے درمیان آمد و رفت کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ دو ہزار گیارہ میں سی ڈی اے نے ’سادھو باغ‘ کی بحالی کا ایک منصوبہ بنایا تھا۔ اس منصوبے کا سنگ بنیاد اس ادارے کے ایک چیئرمین نے رکھا تھا، لیکن بعد میں اس پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/I. Jabeen
جون کے مہینے میں کام کا آغاز
ان غاروں کی بحالی کے منصوبے کے منتظم عامر علی احمد کےبقول اس پراجیکٹ پر کام موجودہ مالی سال ختم ہونے سے قبل شروع کر دیا جائے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’یہ غاریں ہمارا تاریخی ورثہ ہیں۔ انہیں بہت پہلے محفوظ کیا جانا چاہیے تھا۔ ماضی میں کئی منصوبے بنے لیکن ان پر عمل نہ ہو سکا۔ اب ہم نے بڑی منظم منصوبہ بندی کی ہے۔ ہم ان غاروں کی بحالی کے ذریعے سیاحت کو بھی فروغ دینا چاہتے ہیں۔‘‘