دنیا کے گرد چکر لگانے والے ’سولر امپلس ٹو‘ کی تجرباتی پرواز
افسر اعوان3 جون 2014
شمسی توانائی سے پرواز کرنے والے انسان بردار ہوائی جہاز ’سولر امپلس ٹو‘ نے پیر دو جو کو اپنی پہلی تجرباتی پرواز سوئٹزرلینڈ میں مکمل کی ہے۔ یہ جہاز تیار کرنے والے ماہرین اگلے برس دنیا کے گرد چکر لگانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
اشتہار
اس پراجیکٹ کے سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور پائلٹ بیرٹرینڈ پیکارڈ اور آندرے بورشبرگ نے شمسی توانائی کے ذریعے پرواز کرنے والے ہوائی جہاز کے ذریعے پہلی مرتبہ دنیا کے گرد چکر لگانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
پیر دو جون کو ایک ٹیسٹ پائلٹ نے اس جہاز کی پہلی تجرباتی پرواز مکمل کی جو دو گھنٹے اور 17 منٹ کے دورانیے پر محیط تھی۔ اس جہاز نے سوئٹزرلینڈ کے مغربی حصے میں واقع پائرن Payerne کے ملٹری ایئر بیس سے پرواز کی اور یہیں پر ہی واپس اترا۔ پرواز کے دوران شمسی توانائی سے اڑنے والا یہ ہوائی جہاز ’سولر امپلس ٹو‘ 2400 میٹر کی بلندی تک گیا۔
سینٹینل اول سے حاصل ہونے والی تصاویر
تین اپریل 2014ء کو سینٹینل اول کو خلا میں بھیجا گیا تھا۔ یہ زمینی مشاہدے کے یورپی پروگرام کوپرنیکس کا پہلا سیٹلائٹ ہے۔ تاہم اب یورپی خلائی ایجنسی ای ایس اے نے پہلی مرتبہ اس سیٹلائٹ کی طرف سے بھیجی گئی تصاویر جاری کی ہیں۔
تصویر: ESA – S. Corvaja
نئے سیٹلائٹ کی پہلی تصویر
سینٹینل اول کو انتہائی منفرد منصوبوں پر تجربات کے لیے خلا میں بھیجا گیا ہے۔ اس سیٹلائٹ میں ایک خصوصی لیزر نصب ہے اور کی مدد سے بہت تیز رفتاری کے ساتھ اعداد و شمارکا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی ماحولیاتی آفت کی صورت میں اس لیزر کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
تصویر: ESA/ATG medialab
پہلا قدم
خلا میں بھیجے جانے کے نو روز بعد سینٹینل اول نے پہلی تصاویر اتاریں۔ دیگر یورپی منصوبوں کی طرح برسلز میں ان تصاویر کو بھی دکھایا گیا۔
تصویر: ESA
گلیشئرز کے پگھلنے کا ثبوت
یہ تصویر پائن آئی لینڈ گلیشئر کی ہے۔ یہ مغربی انٹارکٹیکا کا ایک عظیم الجثہ گلیشئر ہے اور یہاں سے ہر سال اربوں ٹن برف سمندر میں شامل ہوتی ہے۔ تاہم یہ زمینی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق گزشتہ دس برسوں کے دوران اس گلیشئر کا سامنے والا حصہ ہر سال ایک کلومیٹر تک سکڑتا رہا ہے۔
تصویر: ESA
کیپریوی، نمیبیا کا منفرد علاقہ
کیپریوی شمال مشرقی نمیبیا کا ایک علاقہ ہے۔ دسمبر سے مارچ تک جاری رہنے والی بارشوں کی وجہ سے دریائے سامبیزی سے ملحقہ علاقے سیلاب کا شکار ہو جاتا ہے۔ کیپریوی نمیبیا کا ایسا واحد خطہ ہے، جہاں سال بھر پانی دستیاب رہتا ہے اور اسی وجہ سے یہاں جانور بھی موجود ہوتے ہیں۔
تصویر: ESA
محققین کا جزیرہ
انٹارکٹیکا کا شمالی حصہ جزیرہ نما ہے۔ یہاں پہاڑوں کی اونچائی2800 میٹر تک ہے اور اسے جنوبی امریکا کے پہاڑی سلسلے اینڈن Anden کا تسلسل بھی کہا جاتا ہے۔ انٹارکٹیکا کا یہ جزیرہ نما اپنی خصوصیات کی وجہ سے پورے براعظم میں محققین اور سائنسدانوں کی توجہ کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
تصویر: ESA
برف حرکت میں ہے
آؤسٹفونا Austfonna ناروے کا ایک منجمد پہاڑ ہے اور یہ 8120 مربع میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس بناء پر اسے یورپ کا سب سے بڑا گلیشئر کہا جاتا ہے۔ سینٹینل اول اور DLR مشن کی جانب سے کی گئی پیمائش کے نتیجے کے مطابق یہ پہلے کے مقابلے میں دس گنا تیزی سے حرکت کر رہا ہے۔
تصویر: ESA/DLR/Gamma/University of Leeds/University of Edinburgh
شمالی سینٹینل جزائر
بحر ہند میں واقع مختلف جزائر پر مشتمل ایک گروپ کو انڈامان جزائر کہتے ہیں اور انہی میں سے ایک نارتھ سینٹینل آئی لینڈ بھی ہے۔ 1996ء سے سینٹینل آئی لینڈ پر سیاحوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ یہاں پر آباد افراد نے باقی ماندہ دنیا سے اپنا تعلق ختم کر دیا ہے۔
تصویر: ESA
دنیا میں نمک کا سب سے بڑا صحرا
سالار دی یُویونی دنیا میں نمک کا سب سے بڑا صحرا ہے۔ اس کی بیرونی سطح دس ہزار سال پہلے ایک جھیل کے سوکھنے کی وجہ سے قائم ہوئی تھی۔ نمک کا یہ صحرا سطح سمندر سے 3600 میٹر بلندی پر جنوبی امریکی ملک بولیویا کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔
تصویر: ESA
8 تصاویر1 | 8
سولر امپلس پراجیکٹ کی ٹیم کے مطابق اس پہلی تجرباتی پرواز کے نتائج، لگائے گئے اندازوں اور کمپیوٹر پر اس پرواز کے تجربات کے عین مطابق رہے۔
سولر امپلس ٹو کے پروں کا پھیلاؤ 72 میٹر ہے۔ یہ پھیلاؤ ایک جمبو جیٹ کے پروں سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ اس کا وزن محض 2.3 ٹن ہے جو قریباﹰ ایک کار کے برابر ہے۔ اس جہاز پر 17,200 سولر سیل نصب ہیں جو اس کے پروں والے چار انجنوں کو توانائی فراہم کرتے ہیں۔
گزشتہ برس بوش برگ اور پیکارڈ نے سولر امپلس ٹو کے پیشرو ماڈل کے ذریعے امریکی شہروں سان فرانسسکو سے نیو یارک کے درمیان پرواز کی تھی۔ یہ پرواز کئی دنوں میں مکمل کی گئی۔ اس کے بعد یہ سولر امپلس ٹو نامی یہ نیا ہوائی جہاز اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ نظریے کے مطابق یہ ایک ہی بار میں پوری دنیا کے گرد چکر لگا سکے۔
آندرے بوش برگ کے مطابق، ’’یہ شمسی توانائی سے اڑنے والا پہلا جہاز ہے جس میں قریباﹰ لا محدود صلاحیت ہے۔‘‘ تاہم دنیا کے گرد چکر لگانے کے حوالے سے پیکارڈ، بوش برگ اور دیگر پائلٹس باری باری اس جہاز کو اڑائیں گے اور اس کا دنیا کے گرد چکر 20 مراحل میں مکمل ہو گا۔ منصوبے کے مطابق یہ پرواز مارچ 2015ء میں کی جائے گی۔
سولر امپلس پراجیکٹ ٹیم کے مطابق اس سفر کا آغاز خلیج فارس سے مشرق کی جانب ہوگا۔ بھارت، چین اور بحرالکاہل کے اوپر سے سفر کرتا ہوا یہ جہاز امریکا اور شمالی افریقہ تک جائے گا۔
پیکارڈ کے مطابق اس پراجیکٹ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم عام مسافر بردار ہوائی جہازوں کو شمسی توانائی سے اڑنے والے جہازوں سے تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، بلکہ اس کا مقصد صرف یہ دکھانا ہے کہ انسان موجودہ ٹیکنالوجیز کو استعمال کرتے ہوئے اس سے کہیں کم توانائی استعمال کر سکتا ہے جو وہ اس وقت کر رہا ہے۔