دنیا کے ہر پانچویں لڑکے کی شادی بچپن میں ہی کر دی جاتی ہے
7 جون 2019
اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے یونیسیف کے مطابق دنیا میں ہر پانچویں لڑکے کی شادی کم عمری میں ہی کر دی جاتی ہے۔ اٹھارہ برس کی عمر سے قبل ہی دلہا بنا دیے جانے والے ایسے بچوں کی سالانہ تعداد ایک سو پندرہ ملین بنتی ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جن لڑکوں کو بالغ ہونے سے پہلے ان کے بچپن میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے، انہیں دراصل مختلف سماجی روایات کے نام پر اور متنوع وجوہات کے باعث ان کے بچپن سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کی طرف سے جمعہ سات جون کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ بچپن کی شادیاں ایک ایسا سماجی مسئلہ ہیں، جو صرف لڑکیوں کو ہی نہیں بلکہ لڑکوں کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ اس طرح ہر سال یہ 115 ملین یا تقریباﹰ ساڑھے گیارہ کروڑ لڑکے نہ صرف بہتر تعلیم کے حصول سے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ انہیں اپنے لیے روزگار کے بہتر مواقع کی تلاش میں بھی بہت مشکلات پیش آتی ہیں۔
اپنی نوعیت کی اولین رپورٹ
عالمی ادارہ برائے بہبود اطفال کی بین الاقوامی سطح پر سات جون کو جاری کردہ اس نئی رپورٹ کے مطابق تازہ ترین مطالعاتی جائزے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عالمی سطح پر ہر پانچویں لڑکے کی شادی اس کی 15 ویں سالگرہ سے بھی پہلے کر دی جاتی ہے۔ یہ مطالعاتی جائزہ دنیا کے 82 ممالک میں مکمل کیا گیا اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ اس میں اس امر کا جائزہ لیا گیا کہ بین الاقوامی سطح پر کم عمر لڑکوں کی شادیوں کی صورت حال کیا ہے۔
اس جائزے کے مطابق دنیا میں کم عمر لڑکوں کی سب سے زیادہ شادیاں وسطی افریقی جمہوریہ میں کی جاتی ہیں، جہاں یہ تناسب 28 فیصد بنتا ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر نکاراگوآ کا نام آتا ہے جہاں یہ شرح 19 فیصد بنتی ہے جبکہ مڈغاسکر میں یہی شرح 13 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
تعلیم اور روزگار بھی متاثر
یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہینریئٹا فور نے اس بارے میں اپنے بیان میں زور دے کر کہا کہ کم عمر بچیوں کی طرح کم عمر بچوں کی شادیاں بھی ان کی تعلیم اور عملی زندگی میں روزگار کے بہتر مواقع کے لحاظ سے منفی اثرات کا سبب بنتی ہیں اور ایسے بچوں کو یوں ان کے بچپن سے محروم کر دینے کی روک تھام انتہائی ضروری ہے۔
انہوں نے کہا، ''کم عمر بچوں کی شادیاں کر کے ان کے کندھوں پر بالغ انسانوں جیسی وہ ذمے داریاں ڈال دی جاتی ہیں، جن کے لیے وہ تب تک تیار نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ بچپن کی شادیاں ان بچوں کو جلد ہی والدین بھی بنا دیتی ہیں، جس کے نتیجے میں ان پر وقت سے بہت پہلے ہی اپنے بچوں کی کفالت کا بوجھ بھی پڑ جاتا ہے۔‘‘
جنوبی ایشیا میں کم عمری کی شادیاں ایک ’وبا‘
جنوبی ایشیا میں کم عمری میں بچیوں کی شادیاں کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے اور بنگلہ دیش اس فہرست میں اول نمبر پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
شادی کی کم از کم عمر میں کمی کی تجویز
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں نابالغ لڑکیوں کی شادیوں کو ایک ’وبا‘ قرار دیتے ہوئے بنگلہ دیشی حکومت پر اس مسئلے پر فوری قابو پانے کے لیے زور دیا ہے۔ اس دوران اس تنظیم نے ڈھاکہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُس تجویز کو بھی مسترد کر دے، جس میں لڑکیوں کی شادی کی عمر کو اٹھارہ سے کم کر کے سولہ کرنے کا کہا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
اپنی پندرہویں سالگرہ سے پہلے
بنگلہ دیش میں تقریباً تیس فیصد لڑکیوں کو ان کی پندرہویں سالگرہ سے پہلے ہی بیاہ دیا جاتا ہے۔’’ اس سے پہلے کے سیلاب گھر کو بہا لے جائے شادی کر دی جائے‘‘۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی یہ رپورٹ ان میں سے چند لڑکیوں سے بات چیت کر کے مرتب کی ہے، جن کی کم عمری میں شادی کر دی گئی تھی۔ بنگلہ دیش میں قانونی طور پر ایسی شادیاں غیر قانونی ہیں تاہم رشوت دے کر پیدائش کی دستاویز کو باآسانی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
غربت مجبوری کا نام
بنگلہ دیش میں تواتر سے آنے والی قدرتی آفات کی وجہ سے بہت سے شہری غربت کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ غربت بھی چائلڈ میرج کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ بہت سے خاندانوں میں لڑکیوں کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے یقین دلایا تھا کہ 2021ء تک پندرہ سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیوں پر قابو پا لیا جائے گا جبکہ 2041 ء تک اس ملک سے چائلڈ میرج ختم کر دی جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
جنسی اور جسمانی تشدد
کم عمر بچیوں کو شادی کے بعد اُن کے شوہروں کی جانب سے جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنانے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسے بھی واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں بچیوں کو دس اور گیارہ سال کی عمر میں ہی بیاہ دیا گیا ہے۔ طبی حوالے سے اِن بچیوں کا جسم ابھی اتنا طاقت ور نہیں ہوتا کہ وہ جنسی روابط قائم کر سکیں یا کسی بچے کو جنم دے سکیں۔ اس طرح زیادہ تر لڑکیاں صحت کے سنگین مسائل کا شکار بھی ہو جاتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/M. Asad
یہ جنوبی ایشیا کا مسئلہ ہے
یہ مسئلہ صرف بنگلہ دیش تک ہی محدود نہیں ہے۔ کم عمری میں زبردستی شادیاں کرانے کا رجحان پورے جنوبی ایشیا میں پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگلی دہائی کے دوران دنیا بھر میں تقریباً 140 ملین لڑکیوں کی اٹھارہ سال سے کم میں شادی کر دی جائے گی اور ان میں سے 40 فیصد شادیاں جنوبی ایشیا میں ہوں گی۔
تصویر: DW/P.M.Tewari
روایات بمقابلہ قانون
پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، سری لنکا اور نیپال میں کم عمری میں شادی کرنا خلاف قانون ہے۔ لیکن زمینی حقائق ایک مختلف کہانی بیان کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2000ء اور 2010ء کے دوران 20 سے 24 سال کی درمیانی عمر کی تقریباً پچیس ملیین لڑکیاں ایسی تھیں، جن کی شادی اس وقت کر دی گئی تھی، جب وہ ابھی اٹھارہ سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/P. Hatvalne
رویے میں تبدیلی
جنوبی ایشیا کے لیے یونیسف کے نائب ڈائریکٹر اسٹیفن ایڈکسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سلسلے میں لازمی طور پر مختلف سطح پر بات چیت کا آغاز کیا جانا چاہیے۔ معاشرے کی سوچ تبدیل کرنے کے لیے کم عمری میں شادی، زچگی کے دوران اموات اور صنفی تعصب کے نقصانات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جانا چاہیے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
7 تصاویر1 | 7
765 ملین شادی شدہ بچے
اس جائزے کے مطابق عالمی سطح پر ابھی تک یہ تناسب زیادہ ہے کہ کم عمری میں شادیوں کے حوالے سے لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کی صورت حال زیادہ تشویش ناک ہے۔ یونیسیف کے مطابق اس وقت 20 سے لے کر 24 برس تک کی عمر کی خواتین میں سے 20 فیصد یا ہر پانچویں خاتون ایسی ہوتی ہے، جس کی شادی 18 سال سے بھی کم عمر میں ہو چکی ہوتی ہے۔
اس کے برعکس اس وقت 20 سے 24 سال تک کی عمر کے مردوں میں 18 برس سے بھی کم عمر میں شادی شدہ ہونے کا تناسب ہر 30 مردوں میں سے ایک بنتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر اس وقت دنیا میں نابالغ لیکن شادی شدہ لڑکوں اور لڑکیوں کی مجموعی تعداد تقریباﹰ 765 ملین یا ساڑھے 76 کروڑ بنتی ہے۔
اقوام متحدہ کے اس ادارے نے اس بات کو اپنا ایک مرکزی ہدف بنا رکھا ہے کہ دنیا بھر میں سن 2030ء تک بچوں کی کم عمری کی شادیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی جانا چاہیے۔
م م / ع ا / روئٹرز، ڈی پی اے
بھارت کے امراء میں بھی کم عمری کی شادیوں کا رواج
بھارت میں ہر سال لاکھوں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔ غیر قانونی ہونے کے باوجود لڑکیوں کی نصف آبادی کو بچپنے میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
برا تصور نہیں کیا جاتا
سماجی مبصرین کی رائے میں بھارتی معاشرے میں کم عمری کی شادی کو برا تصور نہیں کیا جاتا اور قانونی طور پر جرم کے زمرے میں آنے والے اس فعل کو کم ہی رپورٹ کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
حکومتی پالیسی ناکام
غیر سرکاری تنظیم ’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادیوں سے متعلق حکومت کی پالیسی ملک میں چھوٹی عمر میں شادیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ قانونی اقدامات بھارتی معاشرے میں ایسی ثقاتی روایات کے اثرات کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جو کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تصویر: AP
لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے کم
تھامسن روئٹرز فاؤندیشن کی رپورٹ کے مطابق لڑکوں کی شادی بھی چھوٹی عمر میں کرنے کے واقعات عام ہیں لیکن ان کی تعداد لڑکیوں سے کافی کم ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر میں لڑکی کی شادی کر دینے کا مطلب ہے کہ اسے اسکول چھوڑنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایسی لڑکیوں کو گھریلو تشدد، جنسی استحصال اور بچے کو جنم دیتے ہوئے موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
بھارت کے امراء میں بھی کم عمر کی شادیاں عام
اگرچہ بھارت میں تعلیم کے فقدان اور غربت کو کم عمری کی شادیوں کی وجہ بتایا جاتا ہے لیکن امیر گھرانوں میں بھی چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی شادیوں کا رواج عام ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں ہر چار میں سے ایک لڑکی اور شہروں میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
کم عمر کی شادیوں کو روکنے کے لیے اقدامات
’’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو سوشل میڈیا، اسکولوں کے نصاب اور دیگر ذرائع کے ذریعے کم عمر کی شادی کے بھارتی قانون اور اس سے پیدا پونے والے سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی پھیلانی چاہیے۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو یہ قانونی حق دیا جائے کہ وہ کم عمر بچوں کی شادیوں کو روک سکیں۔
تصویر: AP
کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ
حال ہی میں کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔ حکومت ایسی لڑکی کے اکاؤنٹ میں کچھ پیسے منتقل کرتی ہے جو اٹھارہ سال کی عمر میں تعلیم حاصل کر رہی ہو اور اس کی شادی نہ ہوئی ہو۔ راجھستان میں شادیوں کے ٹینٹ فراہم کرنے والی کمپنی نے بھی کم عمری کی درجنوں شادیوں کو رکوایا ہے۔