جرمن وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ اب ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ جرمنی میں مہاجرین دوبارہ بڑی تعداد میں آئیں گے۔ دو سال قبل ایک ملین مہاجرین مختصر وقت میں جرمنی میں داخل ہوئے تھے، جس کے باعث برلن کو انتظامی مسائل کا سامنا بھی رہا۔
اشتہار
جرمن وفاقی وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کہا ہے کہ اب ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ مہاجرین کا ایک بڑا سیلاب ایک مرتبہ پھر جرمنی کا رخ کرے گا۔ انہوں نے کہا، ’’مجھے ایسا نہیں لگتا کہ جرمنی میں مہاجرین کی آمد کے حوالے سے وہی پیشرفت ہو گی، جو سن دو ہزار پندرہ کے موسم خزاں بھی دیکھی گئی تھی۔‘‘
چھبیس اگست بروز ہفتہ شائع ہونے والے اس انٹرویو میں جرمن وزیر نے خبر رساں ادارے ڈی پی اے کو بتایا، ’’ہم نے یہ امر یقینی بنانے کی کوشش کی ہے کہ دوبارہ ویسا نہ ہو۔‘‘ مہاجرین کے حالیہ بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے اصرار کیا کہ سن دو ہزار پندرہ میں جو کچھ ہوا، وہ دوبارہ نہیں ہونا چاہیے۔
یہ امر اہم کہ دو برس قبل جب جرمن حکومت نے مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی تو ایک ملین مہاجرین جرمنی پہنچ گئے تھے۔
مزید انتظار نہیں!
01:26
ابتدا میں جرمن عوام نے ان مہاجرین کا شاندار استقبال کیا تھا لیکن بعد ازاں یورپ میں رونما ہونے والے متعدد حملوں کے بعد اس گرمجوشی میں کمی پیدا ہو گئی۔
ان میں سے کئی حملوں میں مبینہ طور پر مہاجرین کے ملوث ہونے کا بتایا گیا تھا، جس کی وجہ سے عوامی رائے میں تبدیلی پیدا ہوئی۔
ساتھ ہی مہاجرین کے بحران اور سکیورٹی معاملات پر جرمنی میں کئی عوامیت پسند سیاسی گروپوں کی حمایت میں بھی اضافہ ہو گیا۔
تاہم بین الاقوامی، عوامی اور سیاسی مخالفت کے باوجود بھی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنی مہاجر پالیسی میں تبدیلی نہ کی۔ انہوں نے کہہ رکھا ہے کہ جرمنی میں سالانہ بنیادوں پر مہاجرین کی بالائی حد کا تعین نہیں کیا جائے گا۔
تاہم حکومت نے سیاسی پناہ کے متلاشی ایسے افراد کی ملک بدری کے عمل میں تیزی کی کوشش شروع کر دی ہے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر نے کہا ہے کہ ترکی اور یورپی یونین کے مابین مہاجرین کے حوالے سے طے پانے والی ڈیل کے باعث یورپ میں مہاجرین کی آمد میں کمی واقع ہوئی ہے۔
جرمنی میں چوبیس ستمبر کے پارلیمانی انتخابات سے قبل میرکل کے مرکزی حریف مارٹن شلس نے ابھی کچھ دن قبل ہی خبردار کیا تھا کہ اٹلی میں مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد کے باعث جرمنی میں بھی مہاجرین کا بوجھ بڑھ سکتا ہے۔
تاہم ڈے میزیئر نے شلس کے اس بیان کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اٹلی پہنچنے والے مہاجرین جرمنی کا رخ نہیں کریں گے۔
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔