1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوحہ مذاکرات شروع کرنے سے قبل طالبان فائر بندی کریں، افغان صدارتی ترجمان

10 جنوری 2012

افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے کہا ہے کہ طالبان کو قطر میں باضابطہ امن مذاکرات کے آغاز سے قبل فائر بندی پر آمادگی ظاہر کرنا ہو گی۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت طالبان کے لیے کوئی علاقہ نہیں چھوڑے گی۔

تصویر: picture-alliance/dpa

پیر کو طلوع ٹیلی وژن نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا: ’’مذاکرات شروع کرنے سے قبل فائر بندی ضروری ہے اور انہیں (طالبان کو) افغان عوام کے خلاف تشدد کا سلسلہ روکنا ہو گا۔‘‘

انہوں نے افغان ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی ان خبروں کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا جن میں کہا گیا تھا کہ افغان حکومت لڑائی ختم کرنے کے عوض پشتون اکثریتی جنوبی صوبوں کو طالبان کے حوالے کر دے گی۔

انہوں نے کہا: ’’اسلامی جمہوریہ افغانستان کسی بھی فریق کی جانب سے اس طرح کی تجویز کبھی قبول نہیں کرے گا۔‘‘

افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان نے کہا ہے کہ قطر میں مذاکرات سے قبل طالبان کو فائر بندی کرنا ہو گیتصویر: dapd

انہوں نے کہا کہ مستقبل کے مذاکرات سے متعلق تبادلہء خیال کے لیے کسی وفد کو قطر بھجوانا ابھی قبل از وقت ہے۔

افغان اعلیٰ امن کونسل کے رکن محمد اسماعیل یار نے اس سے قبل پیر کو کہا تھا کہ کونسل نے افغان حکومت سے جس قدر جلد ممکن ہو ایک وفد دوحہ بھیجنے کی درخواست کی ہے۔

دوسری جانب افغانستان کے تین اہم اپوزیشن رہنماؤں نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات منعقد کرنے کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ’ناقابل اعتماد ہیں‘۔

سابق جنرل عبد الرشید دوستم اور افغان نیشنل فرنٹ کے دو اور ارکان نے کہا کہ اس بات کو خارج از امکان قرار دینا سادہ لوحی ہو گی کہ طالبان مذاکرات کو ایک چارے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں تاکہ امریکہ افغانستان سے نکل جائے اور وہ ایک بار پھر منظم ہو جائیں۔

امریکہ افغانستان سے بین الاقوامی فورسز کے انخلاء سے قبل افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہونے کا منتظر ہے۔ واشنگٹن کا کہنا ہے کہ کسی بھی قسم کے مذاکرات افغان حکومت کے تحت ہونے چاہئیں۔

سابق جنرل عبد الرشید دوستم نے طالبان پر اعتماد نہ کرنے کا مشورہ دیا ہےتصویر: AP

امن مذاکرات سے متعلق یہ تبادلہ ء خیال ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب ملک میں تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔

اتوار کو ملک کے جنوبی علاقے میں افغان فوج کی وردی میں ملبوس ایک شخص نے ایک فوجی اڈے پر فائرنگ کر کے ایک امریکی فوجی کو ہلاک کر دیا۔ اس حملے میں ایک امریکی فوجی زخمی بھی ہوا۔

افغان فوج کے ترجمان جنرل محمد ظاہر عظیمی نے کہا کہ فائرنگ کے تبادلے میں حملہ آور مارا گیا۔ انہوں نے کہا، ’’اس بات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ آیا وہ افغان فوج کا سپاہی تھا یا پھر کوئی اور شخص جس نے یہ وردی پہن رکھی تھی۔ اگر وہ افغان فوجی تھا تو یہ پتہ چلانے کی کوشش کی جائے گی کہ اس نے کیوں فائرنگ کی۔‘‘

بین الاقوامی فورسز 2014ء میں افغانستان سے انخلاء کا ارادہ رکھتی ہیںتصویر: AP

اس طرح کے دیگر حملوں نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ طالبان افغان پولیس اور فوج کی صفوں میں گھس چکے ہیں۔ تازہ فائرنگ سے رواں ماہ ہلاک ہونے والے نیٹو فوجیوں کی تعداد 11 ہو گئی ہے۔

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو افغان سکیورٹی فورسز کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے کہ وہ 2014ء میں بین الاقوامی فورسز کے انخلاء سے قبل ملک میں سکیورٹی کے فرائض سنبھال لیں۔ نیٹو کے تربیتی مشن کو امید ہے کہ اس وقت تک ساڑھے تین لاکھ افغان فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو تربیت دی جا چکی ہو گی۔

رپورٹ: حماد کیانی

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں