کیا آپ جانتے ہیں کہ دودھ اور مشروم (کھمبی) میں کیا شے مشترک ہے؟ یہ دونوں خون میں گلوکوز کا توازن برقرار رکھنے اور تحولی امراض سے بچاؤ میں مدد گار ہیں۔
اشتہار
امریکا کی پینسلوینیا سٹیٹ یونیورسٹی میں کی گئی ایک تازہ تحقیق میں اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ مشروم یا کھمبی کھانے سے خون میں گلوکوز کی مقدار پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مشروم در اصل ’پرو بائیوٹیک‘ یا ’جراثیم افزا‘ خوراک ہے جو ایسے بیکٹیریا پیدا کرتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے مفید ہوتے ہیں۔
چوہوں کی مدد سے کی گئی اس تحقیق کے نتائج سے یہ معلوم ہوا ہے کہ سفید دھبوں والے مشروم کھانے سے ایسے بیکٹیریا کی افرائش ہوتی ہے جو جسم میں گلوکوز کی پیداوار پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
محققین کا خیال ہے کہ گلوکوز متوازن کرنے کی خصوصیات کے باعث یہ مشروم خاص طور پر ذیابیطس یا شوگر کے مریضوں کے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔
اسی تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مشروم کی طرح گلوکوز پیدا کرنے کی خصوصیت دودھ میں بھی پائی جاتی ہے اور ناشتے میں دودھ کے استعمال سے دن بھر خون میں گلوکوز کی سطح کم رہتی ہے۔
تحقیقی جائزے کے سربراہ ڈاکٹر ایچ ڈگلس گوف کا کہنا تھا، ’’اس تحقیقی سے ناشتے میں دودھ کے استعمال کی اہمیت اور افادیت کی تصدیق ہوئی ہے۔ دودھ کے باعث خوراک ہضم کرنے کی رفتار سست اور خون میں شوگر می سطح کم ہو جاتی ہے۔‘‘
ش ح / ا ا (لاریسا وارنیک)
ایسے جیو گے تو کیسے جیو گے؟
بہت سے جرمن شہری خود کو صحت مند تو سمجھتے ہیں، مگر ملک کی نصف سے زائد آبادی تجویز کردہ ورزش سے بھی کم کثرت کرتے ہیں۔ دفتر کی کرسی سے گھر کے صوفے پر بیٹھے رہے، تو جئیں گے کیسے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Krämer
ہم زیادہ چل پھر نہیں رہے
جرمن شہریوں کی صحت اس وقت تاریخ میں بدترین سطح پر ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق نو فیصد سے بھی کم آبادی ہے، جو مکمل طور پر صحت افزا طرز زندگی سے وابستہ ہے۔ اوسطاﹰ جرمن شہری کوئی ساڑے سات گھنٹے یومیہ بیٹھ کر گزارتے ہیں۔ مگر صرف جرمن ہی اس انداز کی غیرصحت بخش زندگی نہیں گزار رہے، یہ رجحان پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Krämer
کیا بیٹھے رہنا نئی طرز کی تمباکونوشی ہے؟
حالیہ کچھ برسوں میں بیٹھے رہنے کو سنجیدہ طبی نقصانات کی وجہ سے’نئی طرح کی سگریٹ نوشی‘ قرار دیا جاتا ہے۔ گو کہ تمام سائنس دان اس بات پر متفق نہیں کہ اسے تمباکونوشی جیسا مضر قرار دیا جائے۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ بیٹھے رہنے کی وجہ سے کم بلڈپریشر، نظام دوران خون میں خرابی، سرطان، دل کے امراض اور ذیابطیس جسے امراض سے تعلق واضح ہے۔
یوں تو بیٹھنے کے مختلف انداز کے اثرات مختلف ہیں۔ مگر سائنس دانوں کے مطابق دفتر میں کرسی پر بیٹھنے کے صحت پر مضر اثرات گھر میں صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے جیسے نہیں ہیں۔ مستقبل بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے اور قبل از وقت موت، ٹائپ ٹو ذیابیطیس اور دل کے امراض کے درمیان گہرا تعلق دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Photographee.eu - Fotolia
کم زوری میں اضافہ
سائنسی رپورٹ کے مطابق ایسی خواتین جو زیادہ وقت بیٹھی رہیں، وہ جسمانی کم زوری کا شکار ہو جاتی ہیں۔ یعنی ایسی خواتین کو کسی بیماری سے باہر نکلے یا کسی گھاؤ کے بھرنے میں زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ تاہم محققین کا کہنا ہے کہ اس جسمانی نقصان کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے حرکت شرط ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Eisenhuth
بیٹھیے کم، چلیے زیادہ
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مجموعی نشستی وقت قبل ازوقت موت کے خطرات میں اضافہ کرتا ہے۔ محققین کے مطابق اگر کوئی شخص ایک نشست پر تیس منٹ سے کم وقت تک بیٹھے، تو اس سے کئی معاملات میں بہتری آ سکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق تیس منٹ بیٹھنے کے بعد پانچ منٹ کی واک یا حرکت ضروری ہے۔
تصویر: picture-alliance/PhotoAlto/E. Audras
کھڑے ہو کر کام کرنے والے ٹیبل
دفتروں میں کام کرنے والے افراد ایک طویل وقت ٹیبل کے سامنے بیٹھ کر کام کرتے ہیں۔ تاہم اب ایسے دفتری ٹیبل متعارف کرائے جا رہے ہیں، جنہیں کھڑے ہو کر کام کرنے کے لیے بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ محققین کا تاہم کہنا ہے کہ ایک ہی مقام پر کھڑے رہنے سے کوئی شخص زیادہ توانائی خرچ نہیں کرتا، اس لیے یہ نسخہ زیادہ کارآمد نہیں۔
تصویر: picture-alliance
چلو اب اٹھ کھڑے ہو
آپ جتنا کم وقت بیٹھیں گے، آپ کی صحت اتنی ہی بہتر ہو گی۔ ماہرینِ صحت کے مطابق بہتر صحت کے لیے دل کی رفتار کو بڑھانا ضروری ہے، جو حرکت سے ممکن ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہفتہ وار بنیادوں پر ڈیڑھ سو منٹ عمومی ورزش یا 75 منٹ سخت جسمانی وزرش صحت مند زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔