دوران تفتیش:سعودی خواتین کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا
28 مارچ 2019
انسانی حقوق کی گیارہ سرگرم خواتین کے خلاف سعودی دارالحکومت شروع ہونے والے مقدمے پر مغربی ممالک کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے۔ چند خواتین نے دوران تفتیش تشدد اور جنسی استحصال کا شکار بنائے جانے کا الزام عائد کیا ہے۔
اشتہار
سعودی دارالحکومت ریاض کی عدالت کے ذرائع نے بتایا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم ان سعودی خواتین نے ججوں کو بتایا کہ نو ماہ کی تفتیش کے دوران انہیں تشدد اور متعدد مرتبہ جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان گیارہ خواتین کو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطوں سے متعلق کئی الزامات کا سامنا ہے۔
سماعت کے دوران کسی صحافی اور غیر ملکی سفارت کار کو مبصر کے طور پر عدالتی کمرے میں موجود رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ خبر رساں ادارے اے پی اور روئٹرز کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق ان خواتین نے بتایا کہ انہیں بجلی کے جھٹکے دیے گئے، کوڑے مارے گئے اور جنسی استحصال کا نشنانہ بنایا گیا۔ تاہم دوسری جانب سے ریاض حکومت نے زیادتی سے متعلق تمام الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
الزام کے بغیر گرفتاری
یہ تمام خواتین سعودی عرب میں حقوق نسوان اور ان کے لیے سخت قوانین کے خلاف آواز اٹھا رہی تھیں۔ ان میں مرد کی سرپرستی کے نظام اور اسی طرح کے دیگر قدامت پسندانہ قوانین شامل ہیں۔ اسی بنا پر انہیں بغیر فرد جرم عائد کیے گزشتہ برس مئی سے حراست میں رکھا گیا تھا۔
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ خواتین کو قانونی سرپرست کی اجازت کے بغیر ہی ڈرائیونگ لائسنس جاری کیے جائیں گے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ اس اسلامی جمہوریہ میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کس طرح مثبت انداز میں بدل رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن 1955: لڑکیوں کے لیے پہلا اسکول
سعودی عرب میں لڑکیاں اس طرح کبھی اسکول نہیں جا سکتی تھیں، جیسا کہ ریاض میں لی گئی اس تصویر میں نظر آ رہا ہے۔ سعودی عرب میں لڑکیوں کو اسکولوں میں داخلے کا موقع پہلی مرتبہ سن 1955 میں ملا تھا۔ اسی طرح سعودی عرب میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا پہلا ادارہ سن 1970 میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن2001 : شناختی کارڈز کا اجراء
اکیسویں صدی کے آغاز پر سعودی عرب میں خواتین کے لیے پہلی مرتبہ شناختی کارڈز کا اجراء شروع کیا گیا۔ کسی مشکل صورت میں مثال کے طور پر وارثت یا جائیداد کے کسی تنازعے میں ان خواتین کے لیے یہ کارڈ ہی ایک واحد ایسا ثبوت تھا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کر سکیں۔ آغاز میں یہ کارڈز صرف مرد سرپرست کی اجازت سے ہی جاری کیے جاتے تھے۔ تاہم سن دو ہزار چھ میں اس پابندی کا خاتمہ بھی کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
سن2005 : جبری شادیوں کا اختتام ( کاغذی سطح پر)
سعودی عرب میں سن دو ہزار پانچ میں قانونی طور پر خواتین کی جبری شادیوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ تاہم آج بھی اس اسلامی ریاست میں حقیقی طور پر کسی خاتون کا اپنی رضا مندی سے شادی کرنا ناممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔ اب بھی سعودی عرب میں شادیوں کے حتمی فیصلے لڑکیوں کے والد اور ان کے ہونے والے شوہر ہی کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/A.Hilabi
سن 2009 : پہلی وزیر خاتون
سن دو ہزار نو میں شاہ عبداللہ نے ملک کی پہلی خاتون حکومتی وزیر کو چنا۔ تب نورہ بنت عبد الله الفايز کو نائب وزیر برائے تعلیم نسواں مقرر کیا گیا تھا۔
تصویر: Foreign and Commonwealth Office
سن 2012 : اولمپک مقابلوں کے لیے پہلی خاتون ایتھلیٹ
سعودی عرب نے سن دو ہزار بارہ میں پہلی مرتبہ اجازت دے دی کہ اولمپک مقابلوں کے لیے ملکی خواتین ایتھلیٹس کا دستہ بھی بھیجا جائے گا۔ اس دستے میں سارہ عطار بھی شامل تھیں، جنہوں نے اس برس لندن منعقدہ اولمپک مقابلوں میں ہیڈ اسکارف کے ساتھ آٹھ سو میٹر ریس میں حصہ لیا۔ تب ایسے خدشات تھے کہ اگر ریاض حکومت نے ملکی خواتین کو ان مقابلوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی تو سعودی عرب پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J.-G.Mabanglo
سن 2013: موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت
سعودی عرب کی حکومت نے سن دو ہزار تیرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت دے دی۔ تاہم اس کے لیے سیر و سیاحت کے کچھ مقامات کو مختص کیا گیا۔ خواتین باقاعدہ مکمل لباس کے ساتھ اپنے مرد رشتہ داروں کے ساتھ ہی وہاں جا کر اپنا یہ شوق پورا کر سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سن 2013: مشاورتی شوریٰ میں خواتین کی نمائندگی
فروری سن دو ہزار تیرہ میں شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کی مشاورتی کونسل کے لیے تیس خواتین کا انتخاب کیا۔ تب اس قدامت پسند ملک میں خواتین کے لیے ان اہم عہدوں پر فائز ہونے کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: REUTERS/Saudi TV/Handout
سن 2015: ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا حق
سعودی عرب میں سن دو ہزار پندرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت ملی۔ اسی برس اس ملک میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں خواتین پہلی مرتبہ الیکشن میں حصے لینے کی بھی اہل قرار پائیں۔ نیوزی لینڈ وہ پہلا ملک تھا، جس نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا، یہ بات ہے سن 1893 کی۔ جرمنی میں خواتین کو ووٹ کا حق 1919ء میں ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Batrawy
سن 2017: سعودی اسٹاک ایکسچینج کی خاتون سربراہ
فروی سن دو ہزار سترہ میں سعودی اسٹاک ایکسچینج کی سربراہ کے طور پر سارہ السحیمی کا انتخاب کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سعودی عرب میں اس اہم عہدے پر کسی خاتون کا تقرر عمل میں آیا۔
تصویر: pictur- alliance/abaca/Balkis Press
سن 2018: ڈرائیونگ کی اجازت
چھبیس ستمبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ خواتین کو گاڑی چلانے کی قانونی اجازت دی جا رہی ہے۔ جون سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین کو ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے اپنے کسی مرد سرپرست سے اجازت لیں یا گاڑی چلاتے ہوئے مرد سرپرست کو بھی ساتھ بٹھائیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
سن 2018: اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت
انتیس اکتوبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی عرب کی ’جنرل اسپورٹس اتھارٹی‘ نے اعلان کیا کہ خواتین کو کھیلوں کے اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین ملک میں قائم تین بڑے اسپورٹس اسٹیڈیمز میں جا کر وہاں منعقد ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں سے لطف انداز ہو سکیں گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
11 تصاویر1 | 11
ان خواتین میں انسانی حقوق کی کارکن لجین الھذلول، یونیورسٹی پروفیسر ھتون الفاسی اور بلاگر ایمان النفجان نمایاں ہیں۔ الھذلول کے بھائی ولید نے فرمانروا محمد بن سلمان کے ایک مشیر سعود القحطانی پر الزام عائد کیا کہ ان کی موجودگی میں خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
القحطانی کو گزشتہ برس اکتوبر میں استنبول میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ان کے مبینہ کردار کی وجہ سے ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ ولید نے امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کو بتایا کہ محمد بن سلمان کے ایک اہم مشیر نے میری بہن کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی دھمکی دی اور کہا کہ وہ اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔
یورپی یونین کے اٹھائیس ممالک سمیت کوئی تین درجن ممالک نے سعودی حکام سے ان خواتین کو فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امکان ہے کہ بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے شاید ان خواتین کو رہا یا معاف کر دیا جائے۔