1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دورہ امریکا: مالی امداد کی بحالی کے اشارے

شکور رحیم، اسلام آباد21 اکتوبر 2013

باراک اوباما کی جانب سے پاکستان کی فوجی امداد بحال کرنے کے عندیے کو پاکستانی وزیر اعظم کے دورہ امریکہ کے لیے اچھا آغاز قرار دیا جارہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ کو ڈرون حملے نہ کرنے پر قائل کرنا مشکل ہوگا۔

تصویر: Reuters

پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی امریکی وزیرخارجہ جان کیری سے ملاقات کے دوران توانائی، تعلیم اور تجارت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیر اعظم نواز شریف اور امریکی وزیر کے درمیان یہ ملاقات دو گھنٹے جاری رہی۔ اس ملاقات میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار، مشیر برائے خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز، سیکریٹری خارجہ جلیل عباس اور وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی موجود تھے۔

اسی دوران امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے پاکستان کو سکیورٹی کی مد میں دی جانے والی تیس کروڑ ڈالرز کی امداد بحال کرنے کے لیے امریکی کانگریس کو درخواست کرنےکا اعلان بھی کیا گیا۔ اس امداد کا ایک بڑا حصہ مئی 2011ء میں اس وقت معطل کر دیا گیا تھا، جب خصوصی امریکی فوجی دستوں کے پاکستانی شہر ایبٹ آباد پر حملےمیں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد پاک امریکہ تعلقات کشیدگی کا شکار ہوگئے تھے۔

تصویر: Reuters

امریکہ کی جانب سے اس امداد کی بحالی کا عندیہ ایک ایسے وقت پر دیا گیا ہے جب بدھ کے روز صدر باراک اوباما وزیر اعظم نوازشریف سے ملاقات کرنے والے ہیں۔

تاہم پاکستانی فوج کے سابق ترجمان اور دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل (ر) اطہر عباس کا کہنا ہے کہ امریکہ کی جانب سے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں دی جانے والی رقم کسی پر احسان نہیں بلکہ یہ ان مالی اخراجات کا بل ہے، جو پاکستانی فوج دہشت گردی کےخلاف جنگ میں وسائل استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نےکہا کہ البتہ اس دورے کا ایک مثبت پہلو امریکہ کی جانب سے پاکستان کے کردار کو وسیع علاقائی تناظر میں دیکھنا ہے۔

اطہر عباس نے کہا، ’’ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اسٹریٹجک ڈائیلاگ دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کسی حد تک ایک دوسرے کی پوزیشن کو سمجھ گئے ہیں اور امریکہ سمھجتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ دیر پا تعلقات ہونے چاہیں اور یہ صرف افغانستان کی بنیاد یا انسداد دہشت گردی کے حوالے سے نہیں ہونے چاہیے بلکہ اس خطے میں پاکستان امریکہ کا ایک حلیف بنے اور اس کے ساتھ رہے۔ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے تو اگر اس زاویے سے دیکھا جائے تو یہ ایک مثبت بات ہے‘‘۔

دورہ امریکہ سے قبل وزیر اعظم نواز شریف نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا تھاکہ امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں ان کی حکومت کی پالسی بہت واضح ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ معاشی استحکام کسی بھی ملک کی خود مختاری کے لیے انتہائی اہم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس دورے میں افغانستان سمیت دیگر علاقائی امور پر بھی بات چیت کریں گے۔

تاہم اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ڈائریکٹر نجم رفیق کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی امکان موجود نہیں کہ نواز شریف امریکی انتظامیہ کو پاکستان میں ڈرون حملوں کی بندش پر قائل کر سکیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ڈرون حملوں کا استعمال امریکی فوجی حکمت عملی کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ یہ ایک ہتھیار بن گیا ہے جو صدر اوباما نہایت آسانی سے زمینی فوج کو تعینات کیے بغیر استعمال کر سکتے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ نواز شریف صاحب صدر اوباما کو کسی بھی طرح قائل کر سکیں گے کہ پاکستان میں ڈرون حملے روک دیے جائیں۔‘‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم کی کوشش ہو گی کہ وہ پاکستان کو درپیش اقتصادی مسائل اور توانائی کے بحران کے حل کے لئے امریکہ کا زیادہ سے زیادہ تعاون حاصل کر سکیں تاکہ ان کی حکومت کو دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے علاوہ اندرون ملک درپیش دیگر مسائل میں بھی کمی ہو سکے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں