دور درشن کا کمال: مودی کی صدارت میں اجلاس اور ’بھوکے بندر‘
25 دسمبر 2014![](https://static.dw.com/image/17961203_800.webp)
نئی دہلی سے موصولہ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق کل بدھ کے روز بھارت کے سرکاری ٹیلی وژن ادارے دور درشن نے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے سرکاری اکاؤنٹ کے ذریعے ایک ایسی تصویر شائع کر دی جس میں ملکی وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے عہدیداروں کے ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔
یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن دور درشن کی ٹویٹ میں اس تصویر کے ساتھ جو کیپشن دکھایا گیا، وہ تھا: ’’ہر طرف گھنٹیاں بج رہی ہیں، فادر کرسمس یا سانتا کلاز کے لباس میں ملبوس ایک شخص کرسمس سے پہلے بندروں کو کھانا کھلاتے ہوئے!‘‘
پھر جب تک دور درشن کے کارکنوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، تب تک ٹویٹر پر یہی پوسٹ سینکڑوں مرتبہ ری ٹویٹ یا عام صارفین کی طرف سے دوبارہ پوسٹ کی جا چکی تھی۔ دور درشن کے سوشل میڈیا سٹاف کی طرف سے کچھ ہی دیر بعد اس تصویر کا کیپشن تبدیل تو کر دیا گیا تھا لیکن اس واقعے کی وجہ سے اس نشریاتی ادارے کو جس شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، اس کا تسلسل ٹویٹر، فیس بک اور دیگر سوشل ویب سائٹس پر آج جمعرات کے روز بھی دیکھنے میں آیا۔
یہ بھی اسی شرمندگی کا تسلسل تھا کہ اس واقعے پر ٹویٹر پر ایک بھارتی خاتون صارف نے اپنے ایک پیغام میں لکھا: ’’دور درشن نیوز، 2014 آپ کا سال ہے ہی نہیں۔‘‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بھارت میں دور درشن کے عملے سے شرمندگی کا باعث بننے والی ایسی کوئی غلطی ہوئی ہے۔ اسی سال ستمبر میں دور درشن کی خبروں میں ایک اینکر کی طرف سے چینی صدر شی جن پنگ کے بارے میں ایک نیوز آئٹم کے دوران چینی سربراہ مملکت کا نام شی جی پنگ کی بجائے ‘الیون جی پنگ‘ لیا گیا تھا۔
ایسا اس لیے ہوا تھا کہ Xi Jinping کا نام پڑھتے ہوئے اس اینکر نے Xi کو XI سمجھا تھا، جس کا مطلب رومن اعداد میں گیارہ بنتا ہے۔ اس طرح اس اینکر کے لیے چینی صدر کا نام ’شی جن پنگ‘ سے ’الیون جی پنگ‘ بن گیا تھا۔ بعد میں دور درشن نے اپنے اس اینکر کو برطرف کر دیا تھا۔
اب نریندر مودی کی سربراہی میں بی جے پی کے عہدیداروں کے ایک اجلاس کو ’سانتا کلاز اور بھوکے بندروں‘ کے ساتھ ملا دینے والے DDTV کے کارکنوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ انہیں ان کی موجودہ ذمے داریوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔
بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے دور درشن کے ایک سینئر اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس ٹیلی وژن ادارے کا جو کارکن ٹویٹر پر اس غلطی کا مرتکب ہوا، اسے اور اس کی خاتون سپروائزر دونوں کو ان کی سوشل میڈیا ڈیوٹی سے برطرف کر دیا گیا ہے۔