ایک انتہائی دور کی کہکشاں پر آکسیجن کی موجودگی کے اشارے ملے ہیں۔ یہ کہکشاں بِگ بینگ (عظیم دھماکے) کے فقط ڈھائی سو ملین سال بعد وجود میں آنا شروع ہوئی تھی اور اس سے کائنات کی ابتدا سے متعلق اہم معلومات مل سکتی ہیں۔
اشتہار
ماہرین فلکیات کے مطابق کائناتی اعتبار سے ڈیڑھ سو ملین برس کا عرصہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اس لیے اس کہکشاں پر آکسیجن کی موجودگی کے اشارے یہ جاننے میں مدد دے سکتے ہیں کہ کائنات کی ابتدا کے باعث بننے والے عظیم دھماکے کے بعد اس کائنات کی ماہیت کیا تھی۔
’افق پہ کیسا یہ چاند نکلا‘
بدھ اورجمعرات کی درمیانی شب مغربی شمالی امریکا، ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، روس اور آسٹریلیا میں غیرعمومی ’سپر بلڈ بلو مون‘ یا ’بڑا سرخ نیلا چاند‘ دکھائی دیا۔ گزشتہ 36 برسوں میں کائناتی مظاہر کا یہ واحد واقعہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/Imaginechina/C. Baolin
تین مظاہر یکجا
یہ مظہر اس لیے وقوع پذیر ہوا، کیوں کہ چاند کی مداروی گردش کے تین مظاہر ایک ساتھ رونما ہوئے، یعنی ایک ہی دن، زمین سے انتہائی قربت کی وجہ سے غیرعمومی طور پر بہت بڑا چاند دکھائی دیا، وہ نیلا بھی اور چاند گرہن کے ساتھ۔
تصویر: picture-alliance/Imaginechina/S. Yipeng
چشمے کی ضرورت نہیں
سورج گرہن کے مقابلے میں چاند گرہن کو بغیر کسی خصوصی چشمے یا انتظام کے براہ راست دیکھا جا سکتا ہے اور سائنس دانوں کے مطابق اس مظہر کے براہ راست مشاہدے سے انسانی آنکھ پر اس کے کوئی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/D. Acostap
’سپر مون‘
زمین کے گرد گردش کرنے والا سیارہ چاند جب اپنی مداروی گردش کے اعتبار سے زمین سے کم ترین فاصلے پر ہو، تو اس وقت زمین سے مشاہدہ کرنے والوں کو وہ غیرعمومی طور پر بڑا دکھائی دیتا ہے اور اسے ’سپر مون‘ کہا جاتا ہے۔ اس وقت چاند عام دنوں کے مقابلے میں 14 فیصد بڑا اور 30 فیصد زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/K. O'Connor
روشنی چاند کو چھوتی ہوئی
سرخ روشنی جو آپ اس وقت دیکھتے ہیں، دراصل وہ دھوپ ہے، جو زمینی کرہ ہوائی سے ترچھی ہو کر خلا میں سفر کرتی ہوئی چاند تک پہنچتی ہے۔ یعنی اس وقت فقط دنیا کے مختلف مقامات پر سورج کے طلوع اور غروب ہونے کی روشنی چاند کو چھو رہی ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/F. Reza
سرخ رنگ
چاند گرہن کے وقت چوں کہ زمین کا سایہ چاند پر پڑتا ہے، یعنی زمین سورج اور چاند کے عین درمیان آ کر چاند تک پہنچنے والی سورج کی روشنی میں حائل ہو جاتی ہے، اس لیے چاند کی بیرونی دائروی سطح اس موقع پر نارنجی یا سرخ رنگ کا دکھائی دیتے لگتا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Keogh
مذہبی حوالے
اس طرح کے واقعات کے مختلف مذاہب میں مختلف نظریات رائج ہیں۔ ایک ہندو اکتیس جنوری کی رات چاند کا نظارہ اور دعا کرتے ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/P. Verma
خوبصورت مناظر
ان تینوں مظاہر کے حامل چاند کا بہترین نظارہ ہوائی، الاسکا، کینڈا، آسٹریلیا اور ایشیا میں کیا گیا۔
تصویر: Reuters/P. Rebrov
مکمل چاند
بلو مون یا نیلا چاند زمین سے مشاہدے پر ایک ماہ میں دوسری مرتبہ مکمل چاند نظر آنے کو کو کہا جاتا ہے، یہ مظہر ہر دو سال اور آٹھ ماہ کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Djurica
انڈونیشیا میں عبادت
اکتیس جنوری کی شب انڈونیشیا کے جزیرے جاوا میں ایک مسجد میں خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں چاند گرہن اور سپر بلڈ مون کے نمودار ہونے پر خصوصی دعا کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/Gholib
دوبارہ ایسا کب ہو گا؟
اس طرح کا قدرتی مظہر اب اکتیس جنوری سن 2037 میں رونما ہو گا جبکہ اس سے قبل سپر بلو بلڈ مون تیس دسمبر سن انیس سو بیاسی میں رونما ہوا تھا۔ تب یورپ، افریقہ اور مغربی ایشیا میں لوگوں نے اس کا مظاہرہ کیا تھا۔
بدھ سولہ مئی کے روز شائع ہونے والی اس تحقیقی رپورٹ میں اب تک مشاہدہ کی جانے والی اس سب سے بعید کہکشاں کی تخلیق اور ترتیب سے متعلق مفصل تفصیلات بتائی گئی ہیں۔ اس کہکشاں کو ایم اے سی ایس 1149 جے ڈی وی کا نام دیا گیا ہے اور یہ 13.8 ارب سال پہلے ہونے والے بِگ بینگ کے ساڑھے پانچ سو ملین سال بعد مکمل طور پر موجود تھی۔
محققین کے مطابق اس کہکشاں سے چلنے والی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں 13.28 ارب نوری سال لگے، جب کہ سائنس دان اس روشنی کے ذریعے اس کہکشاں کو دیکھنے کو ’ماضیِ انتہائی بعید‘ میں جھانکنے سے تعبیر بھی کرتے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ نوری سال کا مطلب روشنی کی رفتار سے (جسے آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کے مطابق کائنات کی مطلق اور حد رفتار قرار دیا جاتا ہے) ایک برس میں طے کیا جانے والا فاصلہ ہوتا ہے، جو 9.5 ٹریلین کلومیٹر بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس رفتار سے چلنے والی روشنی تیرہ ارب سال سے زائد عرصے بعد زمین تک پہنچی۔
سائنس دانوں کے مطابق اس کہکشاں پر آکسیجن کی موجودگی کے اشارے ملنے سے اس نظریے کو تقویت ملتی ہے کہ کائنات کی ابتدا کے بعد یہاں آکسیجن، کاربن اور نائٹروجن ہی سب سے پہلے بننے والے عناصر تھے اور ابتدائی ستاروں پر یہی عناصر موجود ہوتے تھے، تاہم بعد میں ان ابتدائی اور بڑے ستاروں کے پھٹنے (سپرنووا) کے بعد نئے اور بھاری عناصر تخلیق ہوئے۔
محققین کے مطابق آکسیجن کی موجودگی سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اس کہکشاں میں ابتدائی طرز کے ستارے بِگ بینگ کے فقط ڈھائی سو ملین سال بعد بننے اور فنا ہونے کے عمل سے گزرے، جب کہ اس وقت یہ کائنات، آج کی کائنات کی عمر کے فقط دو فیصد کے برابر تھی۔
خلا سے خطرہ
10 ہزار کے قریب سیارچے ہماری زمین کے اطراف میں موجود ہیں۔ رواں برس بہت سے فلکیاتی واقعات پیش آچکے ہیں۔ یورپ ایک ایسا نظام تیار کر رہا ہے جو کسی سیارچے سے زمین کو خطرے کے بارے میں قبل از وقت آگاہ کرے گا۔
تصویر: NASA/ESA/Hubble SM4 ERO Team
یورپ کا خطرے سے قبل از وقت آگاہ کرنے والا نظام
10 ہزار کے قریب سیارچے زمین کے قریب خلاء میں گردش کر رہے ہیں۔ یہ زمین کے لیے خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔ یورپی اسپیس ایجنسی (ESA) ان سیارچوں کے زمین سے ٹکرانے کے خطرات سے قبل از وقت آگاہ کرنے والا نظام تیار کر رہی ہے۔ یہ نظام اٹلی میں فراسکاتی کے قریب نصب کیا جائے گا۔ ٹینریفے میں نصب اس طرح کی دور بینوں کا ڈیٹا اس نظام میں جمع کیا جائے گا۔
تصویر: IQOQI Vienna
زمین کے قریب سے گزرتے سیارچے
اگر آپ قبل از وقت آگاہی کے نظام کی اہمیت جانناچاہیے ہیں، تو پھر رواں برس 15 فروری کو روسی علاقے چلیابِنسک میں گرنے والے شہابی پتھر کا تصور کیجیے۔ اس سے پیدا ہونے والا دھماکہ 100 سے 1000 کلوٹن ٹی این ٹی کے دھماکے جتنا طاقتور تھا۔ اس سے قریب 1500 افراد زخمی ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpah
برفانی جھیل میں سوراخ
زمینی فضا میں داخلے کے وقت اس پتھر کے قطر کا اندازہ 20 میٹر لگایا گیا ہے۔ مگر ہوا کی رگڑ کے باعث جل کے تباہ ہونے کے بعد اس پتھر کا وزن محض ایک کلوگرام کے قریب رہ گیا تھا۔ اس کے باوجود جب یہ زمین پر گرا تو برف میں چھ میٹر قطر کا سوراخ پیدا ہوا۔
تصویر: Reuters
زیادہ بڑا اور زیادہ خطرناک
لیکن "2012 DA14" نامی سیارچہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک تھا۔ اس کا وزن 130,000 ٹن تھا۔ اسی دن جب شہابی پتھر چلیابِنسک میں ٹکرایا، 2012 DA14زمین سے محض 27 ہزار کلومیٹر کی دوری سے گزرا۔ یہ بعض مصنوعی سیاروں کے زمین سے فاصلے سے بھی کم ہے۔
تصویر: NASA/Science dpa
مزید سیارچوں کا زمین کے قریب گزرنے کا امکان
رواں برس کئی دیگر سیارچوں کے بھی زمین کے قریب گزرنے کا امکان ہے۔ سائنسدان ایسے سیارچوں اور شہابیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، کیونکہ ان میں سے کوئی چھوٹی چٹان بھی کافی خطرناک ہو سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دُمدار ستارے اور ٹوٹتے ستارے
دُمدار ستارے گیس کے بادلوں اور گیس، پتھروں اور دیگر ذرات پر مشتمل لمبی دم پر مشتمل ہوتے ہیں۔ جب ان میں سے کوئی چھوٹا سا پتھر بھی زمین کی فضا میں داخل ہوتا ہے تو اس کا درجہ حرارت 3000 سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ جلنے کے باعث چمکنے اور ٹوٹے ستارے کی شکل میں نظر آتے ہیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
اگر شہابی پتھر جل کر تباہ نہ ہوں
شہابی پتھر اکثر ہماری فضا میں داخل ہونے کے بعد ہوا کی رگڑ کے باعث جل کر تباہ ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے جو زمین کی سطح تک پہنچنے سے قبل مکمل طور پر تباہ نہیں بھی ہوتے ان کا سائز ایک چھوٹے پتھر سے زیادہ نہیں ہوتا۔ تاہم بڑے شہابیے کافی نقصان کر سکتے ہیں۔ اب تک شہابی پتھر کے باعث زمین پر پڑنے والا سب سے بڑا گڑھا ایریزونا میں ہے۔ اس کا قطر 1000 میٹر ہے اور یہ 50 ہزار سال پرانا ہے۔
تصویر: cc-by/LarryBloom
ایک دور کا خاتمہ
اب سے اندازاﹰ 65 ملین برس قبل ایک بڑا سیارچہ جزیرہ نما یُکاتان Yucatan میں گِرا تھا۔ اس کی منظر کشی اس خیالی تصویر میں کی گئی ہے۔ اس کے باعث Chicxulub نامی گڑھا پیدا ہوا جس کا قطر 180 کلومیٹر سے زائد تھا۔ ماہرین کے مطابق یہ واقعہ زمین سے ڈائنوسارس کی نسل کے خاتمے کا سبب بنا۔
تصویر: picture alliance/dpa
جلی ہوئی چٹانیں
سیارچے دراصل جلی ہوئی چٹانوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ دیگر سیاروں پر بھی ایسے سیارچے ٹکراتے رہتے ہیں۔ ناسا کی طرف سے مریخ پر بھیجی گئی روبوٹ گاڑی اپورچونٹی نے مریخ پر 2005ء میں مریخ کی سطح پرکسی بیرونی خلائی جسم کے ٹکرانے کے سبب پیدا ہونے والا گڑھا دریافت کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/ dpa/dpaweb
مگر اس سب کے باوجود
زمین کے باسیوں کو زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ فلکیاتی ماہرین کے مطابق بڑے سیارچوں یا شہابیوں کے اگلے 100 برس کے دوران زمین سے ٹکرانے کے امکانات انتہائی محدود ہیں۔
تصویر: AP
10 تصاویر1 | 10
یونیورسٹی آف جاپان سے وابستہ خلانورد تاکویا ہاشیموتو کے مطابق، ’’اس مطالعے سے قبل ہمارے پاس ابتدائی طرز کے ستاروں کی تخلیق سے متعلق فقط نظریاتی پیش گوئیاں ہی تھیں۔ مگر اب ہم اس کائنات میں ابتدائی دور کے ستاروں کی تخلیق کا براہ راست مشاہدہ کر رہے ہیں۔‘‘
اس مطالعے کو بِگ بینگ کے بعد ستاروں اور کہکشاؤں کی تخلیق اور آغاز سے متعلق شواہد کی راہ میں بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ سائنس دان عظیم دھماکے کے بعد کے اس ابتدائی دور کو ’کاسمک ڈان‘ یا ’کائناتی صبح‘ قرار دیتے ہیں۔