برلن میں روسی سفارت خانے نے جرمن مؤرخین کو دوسری عالمی جنگ کے بارے میں صدر پوٹن کے تصنیف کردہ ایک مضمون کو تاریخی حوالے کے طور پر استعمال کرنے کی تجویز دے دی۔ تاریخ نویس اس عمل کوعلمی آزادی کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔
اشتہار
سوویت افواج کی نازی جرمنی کے خلاف تاریخی فتح کی ياد ميں منائے جانے والے جشن کے موقع پر مشرقی یورپ کی تاریخ دان پروفیسر یولیا اوبیرٹرائس کو برلن میں قائم روسی سفارتخانے کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی۔ اس ای میل کا موضوع تھا، ’ولادیمیر پوٹن کا مضمون۔‘ صدر پوٹن کی جانب سے دوسری عالمی جنگ کے بارے میں لکھا گیا یہ مضمون اس سے قبل روسی اور انگریزی زبان میں پہلے ہی شائع ہو چکا تھا۔
اپنے مضمون میں، صدر پوٹن ایسے واقعات کا جائزہ لے رہے ہیں جن کی وجہ سے جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ پوٹن نے اپنے مضمون ميں میونخ معاہدے اور مغربی ممالک کی پالیسیوں کی شدید مذمت کی ہے۔ ہٹلر اور اسٹالن کے درمیان عدم جارحیت کے معاہدے کا جو جواز انہوں نے پيش کيا، اس پر پولینڈ اور بالٹک ریاستوں میں تنقید بھی ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ ای میل کے آخر میں ایک نوٹ درج تھا کہ مستقبل میں مؤرخین ولادیمیر پوٹن کی اس تحریر کو تاریخی حوالے کے طور پر استعمال کریں۔ دیگر جرمن مؤرخین کو بھی یہ پیغام موصول ہوا اور ڈی ڈبلیو نے اس کی ایک کاپی حاصل کی ہے۔
مزید پڑھیے: سابقہ مشرقی جرمنی برطانوی نشریاتی ادارے کا دشمن کیسے بنا؟ تاریخ نویس روسی سفارتخانے پر برہم
جرمنی کی یونیورسٹی آف ایرلانگن - نورمببرگ میں مشرقی یورپ کی تاریخ کی پروفیسر اوبیرٹرائس نے ٹوئٹر پر اس ای میل کا ایک اسکرین شاٹ شائع کرتے ہوئے اپنے جواب میں شدید غصے کا اظہار کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’مشرقی یورپ کی ماہر تاریخ کی حیثیت سے مجھے سفارتی خطوط کے ذریعے علمی مشورے درکار نہیں اور روسی امبیسی کی جانب سے تحقیقی آزادی کے عمل میں مداخلت ناقابل قبول ہے۔
ادھر مشرقی یورپ کے امور کی ماہر پروفیسر آنکے ہِلبرینر کے لیے بھی یہ ای میل حیران کن تھی۔ ان کے خیال میں ایک صدر کے لیے ’’انتہائی غیر معمولی‘‘ عمل ہے کہ وہ خود کو تاریخ دان کے طور پر پیش کرے۔ پروفیسر ہلبرینر ’سیاست اور اکیڈمیا کے میل‘ کو ایک سنگین مسئلہ سمجھتی ہیں۔ روسی سفارتخانے کا اس اقدام کا دفاع
ڈی ڈبلیو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے روسی سفارتخانے نے دعویٰ کیا کہ صدر پوٹن کے مضمون کو ’جرمنی کے میڈیا، سیاستدان اور معاشرے میں بڑے پیمانے پر پذیرائی ملی تھی۔‘ سفارتخانے نے بتایا کہ اس وجہ سے صدر پوٹن کے آرٹیکل میں دلچسپی رکھنے والے افراد کے لیے مکمل مضمون فراہم کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے: روسی آئین میں ترامیم، صدر پوٹن کے اختیارات میں مزید اضافہ؟
واضح رہے دوسری عالمی جنگ کے بارے میں لکھے گئے صدر پوٹن کے اس مضمون میں درج متضاد دعووں کے حوالے سے تمام مؤرخین متفق نظر آتے ہیں اور حکومتوں کی جانب سے تاریخ کو اپنے مفاد میں پیش کرنے کے عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
رومان گونشارینکو / ع آ / ع س
دوسری عالمی جنگ کے 75 برس بعد، برلن میں موجود یادگاریں
کئی برس تک کے تشدد اور تباہی کے بعد، دوسری عالمی جنگ 75 برس قبل ختم ہوئی تھی۔ جرمن دارلحکومت برلن میں موجود بہت سی یادگاریں تاریخی واقعات کا نشان ہیں یا پھر جنگ کا شکار ہونے والوں کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/Y. Tang
رائش ٹاگ پارلیمان کی عمارت
30 اپریل 1945ء کو دو سوویت فوجیوں نے برلن میں رائش ٹاگ پارلیمان کی عمارت پر سُرخ پرچم لہرایا تھا۔ حالانکہ یہ بات اب معلوم ہے کہ یہ تصویر اصل واقعے کے دو روز بعد اسے دہرا کر بنائی گئی تھی، پھر بھی یہ 20ویں صدی کی معروف ترین تصاویر میں سے ایک ہے جو ہٹلر کے خلاف فتح، نازی جماعت کے تباہی اور دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی علامت ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن - روسی عجائب گھر
آٹھ مئی 1945ء کو برلن کے علاقے کارل ہورسٹ میں واقع آفیسرز میس میں جرمن فوج نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ جرمن روسی عجائب گھر میں یہ دستاویز موجود ہے، جسے انگریزی، روسی اور جرمن زبانوں میں تیار کیا گیا تھا۔ اس میوزیم میں نازی حکومت کی طرف سے سوویت یونین کے خلاف جنگ شروع کرنے سے متعلق تفصیلات موجود ہیں جو 25 ملین افراد کی زندگی لے گئی۔
تصویر: picture-alliance/ZB
اتحادی عجائب گھر
مغربی اتحادی یعنی امریکا، برطانیہ اور فرانس جولائی 1945 میں شہر کے مغربی حصوں پر قبضہ کرنے سے قبل برلن میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ امریکی فورسز کا مرکز زیلنڈورف ڈسٹرکٹ تھا۔ سابق تھیئٹر سنیما کی عمارت اب الائیڈ میوزیم کا حصہ ہے۔ اس میوزیم میں جنگ کے بعد کے برلن کے بارے میں معلومات موجود ہیں جن میں 1948ء کا ایئرلِفٹ اور 1994ء میں امریکی فورسز کے انخلا تک کے واقعات شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/akg-images/D. E. Hoppe
سوویت وار میموریل
ایک سوویت فوجی بچائے گئے ایک بچے کو اپنے بازو میں اٹھائے ہوئے ہے جبکہ اس کے دوسرے ہاتھ میں تلوار ہے جس کا رُخ نیچے کی جانب ہے۔ یہ بہت بڑا یادگاری مجسمہ ٹریپٹو میں موجود سوویت فوجی میموریل میں نصب ہے۔ یہ ملٹری قبرستان ہے جس میں وہ سات ہزار سوویت فوجی دفن ہیں جو 1945ء میں برلن میں ہونے والی لڑائی میں مارے گئے۔
تصویر: picture-alliance/360-Berlin/J. Knappe
دولت مشترکہ، جنگی قبرستان
برلن کے علاقے ہیئر اسٹراسے میں واقع قبرستان میں ایئرفورس کے قریب 3600 فوجی دفن ہیں۔ اسے 1995ء اور 1957ء کے دوران برطانیہ اور دولت مشترکہ کی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کے یادگاری قبرستان میں بدل دیا گیا۔ یہ آج بھی برطانوی تاج کی خصوصی نگرانی میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/Schoening Berlin
جرمن مزاحمت کی یادگار
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے سے قریب ایک برس قبل 20 جون 1944ء کو جرمن افسران کے ایک گروپ نے ہٹلر کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ مگر یہ کوشش ناکام ہو گئی اور اس میں ملوث افسران کو سزائے موت دے دی گئی۔ جرمن مزاحمت کی یادگار اس مرکز میں نازی حکومت کے خاتمے کی کوشش کرنے والے ان افسران کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔
برلن کی نیدرکرشن اسٹراسے پر موجود ’ٹوپوگرافی آف ٹیرر‘ پر ہر سال ایک ملین سے زائد افراد آتے ہیں۔ یہ برلن میں کسی بھی یادگاری مقام پر سالانہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ 1933ء سے 1945ء تک یہ خفیہ ریاستی پولیس اور ایس ایس کا ہیڈکوارٹر رہا تھا۔ دوسرے لفظوں میں وہ مقام ہے جہاں نازی حکومت کے منصوبے بنائے اور ان پر عمل کیا جاتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
یورپ میں قتل ہونے والے یہودیوں کی یادگار
لہروں کی شکل میں تعمیر کیے گئے یہ 2711 ستون، ان قریب 6.3 ملین یورپی یہودیوں کی یادگار ہیں جنہیں نازی دور حکومت میں قتل کیا گیا۔ ہولوکاسٹ میوزیم کے بالکل سامنے موجود یہ مقام نازی اذیتی کیمپوں میں یہودیوں پر ڈھائے جانے والے منظم ظلم وستم کی یاد تازہ کرتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner
کائزر وِلہیلم میموریل چرچ
برائٹس شیڈپلاٹز پر واقع کائزر وِلہیلم میموریل چرچ کو 1943ء میں ہونے والی بمباری میں شدید نقصان پہنچا تھا۔ جنگ کے بعد کے سالوں میں جب اس کی دوبارہ تعمیر اور تزئین کی جا رہی تھی تو برلن کے عوام نے اس پر احتجاج کیا تھا۔ جس کے بعد 71 میٹر اونچے مینار کی باقیات کو محفوظ کر لیا گیا تھا۔ یہ جنگ اور تباہی کے خلاف اور امن اور مفاہمت کے حق میں ایک انتہائی واضح یادگار ہے۔