دوسری عالمی جنگ کے بعد مصالحت: ایلیزے ٹریٹی کے ساٹھ سال
22 جنوری 2023
دوسری عالمی جنگ کے بعد جرمنی اور فرانس کے مابین مصالحت کے نتیجے میں طے پانے والے معاہدے ’ایلیزے ٹریٹی‘ کو ساٹھ برس ہو گئے ہیں۔ اس موقع پر فرانسیسی صدر اور جرمن چانسلر نے مل کر یورپی مستقبل کی تشکیل کا عہد بھی دہرایا۔
اشتہار
دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی نے فرانس پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ جنگ کے خاتمے کے 18 سال بعد اس دور کے وفاقی جرمن چانسلر کونراڈ آڈےناؤر اور فرانسیسی صدر چارلس ڈیگال نے دونوں ممالک کے مابین ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر مصالحت اور قریبی تعاون کو یقینی بنانے والے جس معاہدے پر دستخط کیے تھے، وہ 'ایلیزے ٹریٹی‘ کہلاتا ہے۔
اس معاہدے پر دستخط 1963ء میں کیے گئے تھے اور آج اس کے 60 برس پورے ہو جانے کے موقع پر موجودہ جرمن چانسلر اولاف شولس پیرس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے مہمان تھے۔
ان دونوں رہنماؤں نے اس موقع پر اپنی تقریروں میں ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا کہ جرمنی اور فرانس، جو یورپی یونین کی بڑی معیشتیں ہیں اور مشترکہ طور پر یورپی اتحاد کے عمل کا انجن بھی کہلاتے ہیں، یورپی مستقبل کی تعمیر و تشکیل کے لیے مل کر کام کرتے رہیں گے۔
صدر ماکروں کا خطاب
اس موقع پر دونوں ہمسایہ ممالک کے قومی پارلیمانی اداروں کی ایک مشترکہ تقریب بھی ہوئی۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر ماکروں نے کہا، ''اپنی مشترکہ کوششوں کو آگے بڑھاتے ہوئے ہمارے دونوں ممالک کو مل کر ابھی اور بہت سا کام کرنا ہے تاکہ ہم زیادہ خود مختار، زیادہ متحدہ اور زیادہ جمہوری یورپ کی تشکیل کو یقینی بنا سکیں۔‘‘
پیرس ميں منعقدہ تقریب سے اپنے خطاب میں فرانسیسی صدر نے برلن اور پیرس کے مابین اب عشروں پر محیط انتہائی قریبی نوعیت کے تعاون اور افہام و تفہیم کا ذکر کرتے ہوئے کہا، ''آج کسی بھی فرانسیسی کے لیے جرمنی کا ذکر کرنا ایسا ہی ہے جیسے وہ اپنی ہی ذات کے ایک حصے کے بارے میں بات کر رہا ہو۔‘‘
صدر ماکروں کے الفاظ میں، ''آج کا فرانس اور جرمنی ایسے ہی ہیں، جیسے ایک ہی سینے میں دو دل، آج ہماری حیثیت بالکل ایسی ہی ہے۔‘‘
صدر ماکروں کی تقریر کے جواب میں جرمن چانسلر شولس نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرانسیسی صدر کا شکریہ ادا کیا اور کہا، ''بہت شکریہ، جناب صدر! میں اپنے دل کی گہرائیوں سے آپ کا شکر گزار ہوں۔‘‘ چانسلر شولس نے صدر ماکروں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ الفاظ دوستی اور قربت کے جذبات کے اظہار کے طور پر فرانسیسی زبان میں کہے۔
چانسلر شولس نے کہا، ''میں صرف آپ کا ہی نہیں، بلکہ اس دوستی کے لیے اپنے تمام فرانسیسی بھائیوں اور بہنوں کا بھی شکر گزار ہوں۔‘‘
اولاف شولس کے مطابق، ''یورپ کو زیادہ سے زیادہ خود مختار بنانے کی ضرورت ہے اور جرمنی اور فرانس دونوں ہی مل کر اس مقصد کے لیے مصروف عمل ہیں۔‘‘
م م / ع س (ڈی پی اے، اے ایف پی)
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔