دوسری عالمی جنگ کے بعد کی دنیا: یالٹا کانفرنس کے 75 برس
4 فروری 2020
چار فروری سن 1945 کو دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کی شکست نوشتہ دیوار بن چکی تھی۔ اسی روز جزیرہ نما کریمیا پر ہونے والی امریکی، برطانوی اور روسی رہنماؤں کی ملاقات تین جنگی حلیفوں کے اتحاد کی علامت قرار پائی تھی۔
اشتہار
ٹھیک تین چوتھائی صدی قبل چار فروری 1945ء کو ہونے والی اس ملاقات میں امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ، برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اور (اب کالعدم) سوویت یونین کے جوزف اسٹالن شریک ہوئے تھے۔ ان تینوں رہنماؤں کی ایک تصویر یادگار خیال کی جاتی ہے اور اُس میں یہ تینوں رہنما ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے نظر آتے ہیں۔
اس تصویر کو نازی جرمنی کے خلاف تین طاقتور ممالک کے اتحاد کی علامت خیال کیا گیا تھا۔ اسی ملاقات میں یورپ میں جنگ کے بعد کی صورت حال پر بھی غور کیا گیا کیونکہ تب جرمنی میں نازی سوشلسٹ حکومت کے سربراہ اڈولف ہٹلر کا ایک 'ہزار سالہ حکومت‘ کا خواب تقریباﹰ چکنا چور ہو چکا تھا۔
انہی دنوں میں دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکی اور برطانوی فوجی جرمنی میں دریائے رائن کے مغرب میں اپنی اگلی حکمت عملی کے لیے جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ دوسری جانب روسی فوج دریائے اوڈر کو عبور کرنے کی کوشش میں تھی۔ ہٹلر اپنی فوج کو آخری وقت تک لڑنے کی ترغیب دے رہا تھا لیکن شکست عیاں ہونے پر اُس نے تیس اپریل سن 1945 کو اپنے بنکر میں خودکشی کر لی تھی اور جرمن فوج کی طرف سے مزاحمت ختم ہونا شروع ہو گئی تھی۔
دوسری عالمی جنگ کے ان 'تین بڑوں‘ کی ملاقات سوویت رہنما جوزف اسٹالن کے ایما پر ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے لیے جو مقام منتخب کیا گیا تھا، وہاں روسی زار اور اشرافیہ اپنی تعطیلات گزارنا پسند کرتے تھے۔ تب یہ امکان بھی ظاہر کیا گیا تھا کہ ان تینوں بڑی طاقتوں نے اس کانفرنس میں عالمی امن کے لیے اپنی ترجیحات طے کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
یہ تینوں لیڈر ایک ہی حریف کے خلاف یکجا اور اتحادی ضرور تھے لیکن یہ تینوں آپس میں مختلف سوچ کے حامل بھی تھے۔ اسی یالٹا کانفرنس کو اقوام متحدہ کی بنیاد بھی قرار دیا جاتا ہے۔ یہ تینوں رہنما جنگ کے بعد اپنا یہ اتفاق و اتحاد برقرار رکھنے میں ناکام رہے تھے۔ برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اور امریکی صدر روزویلٹ کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ قائم رہا لیکن ان تینوں کے درمیان تہران میں سن 1943 میں ہونے والی پہلی ملاقات کے بعد یالٹا میں ان کی میٹنگ آخری ثابت ہوئی تھی۔
یالٹا میں ان تینوں لیڈروں کی ملاقات ایک ہفتے تک جاری رہی تھی اور جنگ جیتنے کے بعد یہ رہنما اپنے لیے رعایتیں بھی تجویز کرتے رہے تھے۔ اس ملاقات میں برطانوی وزیر اعظم جنگ کے بعد فرانس کے بڑے کردار کے لیے حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔ اسی طرح امریکی صدر نے بھی سوویت رہنما سے اُس دور کی مجوزہ یونائیٹڈ نیشنز (اقوام متحدہ) کے لیے حمایت حاصل کر لی تھی۔ جوزف اسٹالن اپنے اس ارادے میں کامیاب رہے تھے کہ تب سوویت یونین کی ریڈ آرمی اپنے زیر اثر وسیع تر علاقوں پر آئندہ بھی قابض رہے گی۔
رالف بوزن (ع ح ⁄ م م)
دوسری عالمی جنگ کے 75 برس بعد، برلن میں موجود یادگاریں
کئی برس تک کے تشدد اور تباہی کے بعد، دوسری عالمی جنگ 75 برس قبل ختم ہوئی تھی۔ جرمن دارلحکومت برلن میں موجود بہت سی یادگاریں تاریخی واقعات کا نشان ہیں یا پھر جنگ کا شکار ہونے والوں کی یاد تازہ کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/Y. Tang
رائش ٹاگ پارلیمان کی عمارت
30 اپریل 1945ء کو دو سوویت فوجیوں نے برلن میں رائش ٹاگ پارلیمان کی عمارت پر سُرخ پرچم لہرایا تھا۔ حالانکہ یہ بات اب معلوم ہے کہ یہ تصویر اصل واقعے کے دو روز بعد اسے دہرا کر بنائی گئی تھی، پھر بھی یہ 20ویں صدی کی معروف ترین تصاویر میں سے ایک ہے جو ہٹلر کے خلاف فتح، نازی جماعت کے تباہی اور دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کی علامت ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن - روسی عجائب گھر
آٹھ مئی 1945ء کو برلن کے علاقے کارل ہورسٹ میں واقع آفیسرز میس میں جرمن فوج نے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کیے تھے۔ جرمن روسی عجائب گھر میں یہ دستاویز موجود ہے، جسے انگریزی، روسی اور جرمن زبانوں میں تیار کیا گیا تھا۔ اس میوزیم میں نازی حکومت کی طرف سے سوویت یونین کے خلاف جنگ شروع کرنے سے متعلق تفصیلات موجود ہیں جو 25 ملین افراد کی زندگی لے گئی۔
تصویر: picture-alliance/ZB
اتحادی عجائب گھر
مغربی اتحادی یعنی امریکا، برطانیہ اور فرانس جولائی 1945 میں شہر کے مغربی حصوں پر قبضہ کرنے سے قبل برلن میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ امریکی فورسز کا مرکز زیلنڈورف ڈسٹرکٹ تھا۔ سابق تھیئٹر سنیما کی عمارت اب الائیڈ میوزیم کا حصہ ہے۔ اس میوزیم میں جنگ کے بعد کے برلن کے بارے میں معلومات موجود ہیں جن میں 1948ء کا ایئرلِفٹ اور 1994ء میں امریکی فورسز کے انخلا تک کے واقعات شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/akg-images/D. E. Hoppe
سوویت وار میموریل
ایک سوویت فوجی بچائے گئے ایک بچے کو اپنے بازو میں اٹھائے ہوئے ہے جبکہ اس کے دوسرے ہاتھ میں تلوار ہے جس کا رُخ نیچے کی جانب ہے۔ یہ بہت بڑا یادگاری مجسمہ ٹریپٹو میں موجود سوویت فوجی میموریل میں نصب ہے۔ یہ ملٹری قبرستان ہے جس میں وہ سات ہزار سوویت فوجی دفن ہیں جو 1945ء میں برلن میں ہونے والی لڑائی میں مارے گئے۔
تصویر: picture-alliance/360-Berlin/J. Knappe
دولت مشترکہ، جنگی قبرستان
برلن کے علاقے ہیئر اسٹراسے میں واقع قبرستان میں ایئرفورس کے قریب 3600 فوجی دفن ہیں۔ اسے 1995ء اور 1957ء کے دوران برطانیہ اور دولت مشترکہ کی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے فوجیوں کے یادگاری قبرستان میں بدل دیا گیا۔ یہ آج بھی برطانوی تاج کی خصوصی نگرانی میں ہے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/Schoening Berlin
جرمن مزاحمت کی یادگار
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے سے قریب ایک برس قبل 20 جون 1944ء کو جرمن افسران کے ایک گروپ نے ہٹلر کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی تھی۔ مگر یہ کوشش ناکام ہو گئی اور اس میں ملوث افسران کو سزائے موت دے دی گئی۔ جرمن مزاحمت کی یادگار اس مرکز میں نازی حکومت کے خاتمے کی کوشش کرنے والے ان افسران کے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔
برلن کی نیدرکرشن اسٹراسے پر موجود ’ٹوپوگرافی آف ٹیرر‘ پر ہر سال ایک ملین سے زائد افراد آتے ہیں۔ یہ برلن میں کسی بھی یادگاری مقام پر سالانہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ 1933ء سے 1945ء تک یہ خفیہ ریاستی پولیس اور ایس ایس کا ہیڈکوارٹر رہا تھا۔ دوسرے لفظوں میں وہ مقام ہے جہاں نازی حکومت کے منصوبے بنائے اور ان پر عمل کیا جاتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken
یورپ میں قتل ہونے والے یہودیوں کی یادگار
لہروں کی شکل میں تعمیر کیے گئے یہ 2711 ستون، ان قریب 6.3 ملین یورپی یہودیوں کی یادگار ہیں جنہیں نازی دور حکومت میں قتل کیا گیا۔ ہولوکاسٹ میوزیم کے بالکل سامنے موجود یہ مقام نازی اذیتی کیمپوں میں یہودیوں پر ڈھائے جانے والے منظم ظلم وستم کی یاد تازہ کرتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Büttner
کائزر وِلہیلم میموریل چرچ
برائٹس شیڈپلاٹز پر واقع کائزر وِلہیلم میموریل چرچ کو 1943ء میں ہونے والی بمباری میں شدید نقصان پہنچا تھا۔ جنگ کے بعد کے سالوں میں جب اس کی دوبارہ تعمیر اور تزئین کی جا رہی تھی تو برلن کے عوام نے اس پر احتجاج کیا تھا۔ جس کے بعد 71 میٹر اونچے مینار کی باقیات کو محفوظ کر لیا گیا تھا۔ یہ جنگ اور تباہی کے خلاف اور امن اور مفاہمت کے حق میں ایک انتہائی واضح یادگار ہے۔