1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوعراقی شہروں پر عسکریت پسندوں کا جزوی قبضہ

امتیاز احمد2 جنوری 2014

عراق میں سرگرم عسکریت پسندوں اور مسلح قبائلیوں نے صوبہ انبار کے دو شہروں فلوجہ اور رمادی پر جزوی قبضہ کر لیا ہے۔ دریں اثناء بغداد حکومت نے صورتحال کنٹرول کرنے کے لیے فوجی دستے روانہ کر دیے ہیں۔

تصویر: Reuters

عراقی وزارت خارجہ نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ فلوجہ شہر کے تقریبا آدھے حصے پر القاعدہ سے منسلک عسکریت پسند قبضہ کر چکے ہیں جبکہ دیگر آدھے حصے پر مسلح قبائلیوں کا کنٹرول ہے۔ ایک عینی شاہد کے مطابق عسکریت پسندوں نے فلوجہ کے وسط اور جنوب میں چیک پوسٹیں قائم کر دی ہیں اور ہر چیک پوسٹ پر چھ سے سات مسلح افراد موجود ہیں۔

فلوجہ کے وسط اور جنوب میں چیک پوسٹیں قائم کر دی ہیں اور ہر چیک پوسٹ پر چھ سے سات مسلح افراد موجود ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

صوبہ انبار کے ہی دوسرے شہر رمادی کی صورتحال بھی اسی طرح کی ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ایک صحافی نے بتایا ہے کہ رمادی کے مشرقی حصے میں درجنوں ایسی گاڑیوں پر گشت کیا جا رہا، جن پر مسلح افراد سوار ہیں۔ اس صحافی کے مطابق ان عسکریت پسندوں کا تعلق القاعدہ سے منسلک عسکری تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ ان عراق‘ سے ہے۔ ان عسکریت پسندوں نے سیاہ رنگ کے جھنڈے بھی اٹھا رکھے ہیں، جن پر اسلامی نعرے درج ہیں۔

حکومت کے لیے چیلنج

دریں اثناء عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے صوبہ انبار کے شہروں سے فوج کی واپسی کا فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے اس صوبے میں تعینات فوجیوں کو واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جلد ہی سکیورٹی کی ذمہ داریاں مقامی پولیس کے حوالے کر دی جائیں گی۔ آج عراقی وزیر اعظم نے دوبارہ اس صوبے میں فوجی دستے تعینات رکھنے کا حکم جاری کیا ہے تاکہ سنی مسلمانوں کی اکثریت والے اس صوبے میں عسکریت پسند گروپوں کو کنٹرول کیا جا سکے۔ عراق کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق وہاں سے فوج کو واپس بلانے کی بجائے مزید فوجی تعینات کیے جائیں گے۔

صوبہ انبار کے شہر رمادی میں حکومتی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین تازہ جھڑپوں کا آغاز ایک ہفتہ پہلے اس وقت ہوا تھا، جب فوج نے رمادی میں سُنی مسلمانوں کے ایک احتجاجی کیمپ کو اُکھاڑ پھینکا تھا۔ صوبے کے سُنی مسلمانوں نے گزشتہ ایک سال سے یہ احتجاجی کیمپ لگا رکھا تھا۔ اس کیمپ کے خاتمے کو بغداد حکومت کی فتح سے تعبیر کیا گیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق رمادی کے مغرب میں اب بھی وقفے وقفے سے سکیورٹی فورسز اور عسکریت پسندوں کے مابین جھڑپیں جاری ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق نوری المالکی کو احتجاجی کیمپ کے خاتمے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ اس حکومتی اقدام سے نہ صرف سکیورٹی کے حالات بلکہ سیاسی سطح پر بھی صورتحال خراب ہوئی ہے۔ احتجاجی کیمپ کے خلاف فوجی آپریشن کے بعد 44 اراکین پارلیمان نے مستعفی ہونے کی دھمکی دی تھی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ صوبہ انبار سے فوج کا انخلاء کیا جائے اور اسی دباؤ کے تحت ملکی وزیراعظم نے فوج واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں