دولت مشترکہ ممالک ماحولیاتی تبدیلی کے اجلاس سے پرامید
29 نومبر 2015دولت مشترکہ میں شامل 53 ممالک کے رہنماؤں نے مشترکہ طور پر کہا ہے کہ وہ پیرس میں تیس نومبر سے شروع ہونے والی COP21 نامی اقوام متحدہ کی ’کلائمیٹ چینج سمٹ‘ کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں گے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے ایک عالم گیر معاہدہ طے پا سکے۔ مالٹا منعقدہ کامن ویلتھ ممالک کے اس اجلاس میں واضح کیا گیا کہ تمام رکن ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے عالمی طاقتوں کا بھرپور ساتھ دیں گے۔
دولت مشترکہ ممالک میں جی سیون کے رکن ممالک برطانیہ اور کینیڈا کے علاوہ تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشت بھارت بھی شامل ہے جب کہ ساتھ ہی مالدیپ جیسے ممالک بھی اس تنظیم کے رکن ہیں، جنہیں موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ ناقدین کے بقول کامن ویلتھ ممالک پیرس کانفرنس کی کامیابی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس تین روز کانفرنس کے اختتام پر رکن ممالک نے اپنی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے ایک معاہدے کو بھی حتمی شکل دی، جو پیرس کانفرنس کی کامیابی کے لیے ایک اہم دستاویز ثابت ہو سکتا ہے۔ پیرس میں ’کلائمیٹ چینج سمٹ‘ کی تیاری مکمل ہو چکی ہے جب کہ عالمی رہنما فرانس پہنچنا شروع ہو چکے ہیں۔ اتوار کی شام کو ایک غیر رسمی ملاقات کے ساتھ ہی اس اجلاس کا آغاز ہو جائے گا۔ سرکاری طور پر یہ کانفرنس پیر کے دن شروع ہوگی۔ پیرس حملوں کے بعد اس اجلاس کے موقع پر سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے زیر اہتمام اپنی نوعیت کی اکیس ویں کانفرنس کا آغاز تیس نومبر سے ہو رہا ہے اور یہ تقریباً دو ہفتوں تک جاری رہنے کے بعد گیارہ دسمبر کو اپنے اختتام کو پہنچے گی۔ اس کانفرنس کے دوران 190 سے زیادہ ممالک کے درمیان موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف مناسب اقدامات کے موضوع پر ایک نئے عالم گیر معاہدے کے لیے مذاکرات عمل میں لائے جائیں گے۔
ہفتے کو اختتام پذیر ہونے والے دولت مشترکہ اجلاس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے، ’’ہم موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے اثرات پر بہت زیادہ تحفظات رکھتے ہیں۔ ہماری بہت سے چھوٹی رکن ریاستیں ان تبدیلیوں کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہیں۔‘‘ دولت مشترکہ اجلاس میں ملکہ الزبتھ ثانی کے علاوہ جہاں دیگر رکن ممالک کے سربراہان مملکت اور ریاست نے شرکت کی، وہیں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف بھی اس اجلاس میں شرکت کے لیے مالٹا گئے۔
دولت مشترکہ کے اجلاس میں رکن ممالک میں پائی جانے والی انتہا پسندی اور بدعنوانی کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی گفتگو کی گئی۔ اس موقع پر برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ انتہا پسندی کا بدترین چہرہ عام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتہا پسندی ایک ایسا عقیدہ بن چکی ہے، جو تشدد کا سبق دیتا ہے۔
دولت مشترکہ اجلاس کے میزبان ملک مالٹا کے وزیر اعظم جوزف موسکاٹ نے کہا کہ دشت گرد پڑھے لکھے لڑکے اور لڑکیوں سے سب سے زیادہ خوف زدہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترقی کرتی ہوئی معیشت بھی ان کے لیے ایک مسئلہ ہے۔ کامن ویلتھ ممالک نے اتفاق کیا ہے کہ 2018ء کے آغاز میں آئندہ کامن ویلتھ سمٹ برطانیہ میں منعقد کی جائے گی۔