روسی وزیرخارجہ سیرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ روسی ماہرین کو شامی شہر دوما میں کسی کیمیائی حملے کے شواہد نہیں ملے ہیں۔ اس سے قبل بین الاقوامی برادری کی جانب سے اس حملے کے الزامات روس اور شام پر عائد کیے گئے تھے۔
اشتہار
پیر کے روز سیرگئی لاوروف نے کہا کہ شامی دارالحکومت دمشق کے نواح میں واقع مشرقی غوطہ کے علاقے کے دوما نامی شہر میں دو روز قبل کیمیائی حملے سے متعلق سامنے آنے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا، ’’ہمارے عسکری ماہرین نے علاقے کا دورہ کیا اور انہیں وہاں کلورین یا کسی بھی دوسرے ایسے کیمیائی مواد کی موجودگی کے اشارے نہیں ملے، جو عام شہریوں کے خلاف استعمال کیا گیا ہے۔‘‘
شام پر حملہ، نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟
شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد مغربی اقوام فوجی کارروائی کرتے ہوئے اس تنازعے میں شامل ہو گئی ہیں۔ شام میں صدر بشارالاسد کے خلاف مظاہرے تقریباً ڈھائی سال قبل پُر امن انداز میں شروع ہوئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جنگ اور افراتفری
ایک اندازے کے مطابق شام میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران اب تک ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ شام میں حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد امریکا اور دیگر اتحادی ممالک نے دمشق حکومت کے خلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ تاہم اس عسکری کارروائی کے نتائج کیا نکلیں گے، اس کا کسی کو بھی اندازہ نہیں۔
تصویر: Reuters/Goran Tomasevic
پُرامن احتجاج
شام میں فروری 2011ء میں خانہ جنگی کا آغاز اس وقت ہوا، جب عرب انقلاب سے متاثر ہو کر شامی اپوزیشن نے ملکی سربراہ صدر بشارالاسد کے خلاف مظاہرے شروع کر دیے۔ تاہم جیسے ہی حکومت نے مخالف رہنماؤں کو گرفتار کرنا شروع کیا، اس احتجاج نے شدت پکڑ لی۔ یہ لوگ جمہوریت کے نفاذ اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال
مظاہروں کی شدت کو دیکھتے ہوئے دمشق حکومت نے فوج اور ٹینک متعلقہ علاقوں میں بھیج دیے تاکہ بد امنی پر قابو پایا جا سکے۔ اس دوران ہونے والی جھڑپوں میں روزانہ عام شہری ہلاک ہوتے رہے اور اسی وجہ سے مظاہروں کا دائرہ مزید وسیع ہوتا چلا گیا۔ اس موقع پر امریکا اور یورپی یونین نے شامی حکام کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مظاہروں میں سب یکجا
اسد حکومت کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں معاشروں کے تمام طبقوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ شام سے اپوزیشن رہنماؤں کی ایک بڑی تعداد نے فرار ہوکر پڑوسی ملک ترکی میں پناہ لی۔ وہاں جمع ہو کر ان تمام گروپوں نے بشارالاسد کے خلاف متحد ہوکر لڑنے کا فیصلہ کیا۔
تصویر: Reuters
خانہ جنگی
شام میں ملکی افواج اور حکومت مخالفین کے مابین جھڑپوں کا سلسلسہ وقفے وقفے سے جاری رہا۔ دسمبر 2011ء میں عرب لیگ نے صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اپنے مبصرین شام روانہ کیے۔ اس دوران بمباری جاری رہی اور عرب لیگ نے مبصرین کو واپس بلا لیا۔ حکومتی دستوں کی پیش قدمی جاری رہنے کی بناء پر آہستہ آہستہ شام کے متعدد شہر خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گئے۔
تصویر: Salah Al-Ashkar/AFP/Getty Images
بین الاقوامی رد عمل
مئی 2012ء میں باغیوں کے گڑھ حمص میں حکومتی افواج کے حملوں میں سینکڑوں شہری مارے گئے۔ پہلی مرتبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے متفقہ طور پر اس کارروائی کی مذمت کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسد سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔ امریکی صدر اوباما نے اعلان کیا کہ اگر اسد نے اپوزیشن کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تو امریکا حملہ کرے گا۔
تصویر: Getty Images
باغیوں کے لیے بین الاقوامی امداد
اسد حکومت کی طرف سے باغیوں کے مختلف گروپوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی جاتی رہی۔ امریکا اور برطانیہ امدادی ساز و سامان کے ذریعے باغیوں کی مدد کرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی ختم کی جانی چاہیے۔ بالآخر اس پابندی میں مزید توسیع نہیں کی گئی، جس کے بعد باغیوں کو اسلحے کی فراہمی مزید غیر قانونی نہیں رہی۔ ترکی اور اسرائیل کی سرحد پر وقتاً فوقتاً جھڑپیں عمل میں آتی رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
لاکھوں شامی شہری در بدر
مختلف اپوزیشن گروپوں نے نومبر 2012ء میں ایک قومی اتحاد تشکیل دیا، جسے کچھ ہی عرصے بعد امریکا اور دیگر ملکوں نے شامی قوم کا جائز نمائندہ تسلیم کر لیا۔ انتہا پسند النصرۃ فرنٹ اس اتحاد میں شامل نہیں ہے۔ دریں اثناء کئی ملین شامی شہری پناہ کی تلاش میں گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ لاکھوں شہری شام کے ہمسایہ ممالک میں مہاجر کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture alliance / dpa
حکومت کی جارحانہ پیشقدمی اور زہریلی گیس
جون 2013ء میں شامی فوج نے لبنانی حزب اللہ کے فوجیوں کی مدد سے دفاعی اعتبار سے اہم شہر قصیر کو باغیوں سے واپس چھین لیا۔ اگست میں غوطہ میں زہریلی گیس کے ایک مبینہ حملے میں سینکڑوں انسان ہلاک ہو گئے۔ امریکا اور دیگر ملکوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ اس حملے کے پیچھے اسد حکومت کا ہاتھ ہے۔ اوباما کے مطابق ایک سال پہلے اُنہوں نے جو سرخ لائن کھینچی تھی، اس حملے سے وہ لائن پار کر لی گئی ہے۔
تصویر: Reuters
تباہی و بربادی
ماہرین کے مطابق اس تنازعے کا کوئی بھی فریق فوجی اعتبار سے کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسد غالباً اس بات کا مکمل تہیہ کیے ہوئے ہیں کہ مغربی دنیا کی طرف سے تمام تر دھمکیوں کے باوجود وہ اقتدار نہیں چھوڑیں گے۔ باغیوں کو بھی یقین ہے کہ یہ تنازعہ پُر امن طریقے سے حل نہیں ہونے والا۔ اثر و رسوخ کے لیے ہونے والی کشمکش میں نہ تو عالمی طاقتیں اور نہ ہی علاقائی طاقتیں اپنے اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں۔
لاوروف نے اپنے بیان میں شامی فضائی اڈے پر حملے کو بھی ’انتہائی خطرناک پیش رفت‘ قرار دیا۔ شام کے فضائی اڈے پر حملے کا الزام دمشق اور ماسکو حکومتوں نے اسرائیل پر عائد کیا ہے۔
لاوروف نے کہا، ’’مجھے امید ہے کہ امریکی فوج اور وہ تمام ممالک جو امریکی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد کا حصہ ہیں، اس بات کو سمجھیں گے۔‘‘
اس سے قبل روسی فوج نے اسرائیل پر الزام عائد کیا تھا کہ اس نے لبنان سے شامی فضائیہ کے ایک اڈے کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے بتایا تھا کہ پیر کی علی الصبح شام کے ٹی فور فضائی اڈے پر کیے جانے والے اس حملے میں 14 جنگجو ہلاک ہوئے تھے، جن میں ایرانی شہری بھی شامل تھے۔
شام میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال
شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے میں اعصاب کو ناکارہ کر دینے والی گیس نیوروٹاکسن کا استعمال کیا گیا۔ شامی باغیوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے خلاف اسد حکومت نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ۔
تصویر: Reuters
عالمی طبی تنظیم ’ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ (MSF) نے پہلی مرتبہ تصدیق کی ہے کہ ان کے پاس مجموعی طور پر کیمیائی گیس سے متاثر 3600 مریض لائے گئے، جن میں سے 355 کو بچایا نہ جا سکا۔
تصویر: Reuters
شامی باغیوں نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے خلاف اسد حکومت نے کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے، جس کے نتیجے میں عورتوں اور بچوں سمیت ہزاروں افراد مارے گئے۔ صدر بشار الاسد حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
تصویر: Reuters
کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال دمشق کے مضافاتی علاقے غوطہ میں کیا گیا ہے اور وہاں جانور بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔
تصویر: Reuters
ایم ایس ایف کا کہنا تھا کہ وہ نہ تو سائنسی طور پر ان ہتھیاروں کے کیمیائی ہونے کی تصدیق کر سکتے ہیں اور اور نہ اس کے ذمہ داروں کا تعین، ’’ تاہم جو مریض ہمارے پاس لائے گئے ان میں واضح طور پر نیوروٹاکسن کی علامات دیکھی جا سکتی تھیں۔‘‘
تصویر: Reuters
ابھی تک ایسا کوئی امکان نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کو جائے وقوعہ تک رسائی دی جائے گی۔ دوسری جانب باغیوں کی طرف سے شواہد اکھٹے کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters
ان حملوں میں بچ جانے والوں کو مقامی سطح پر ہی ابتدائی طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مُون نے کیمیائی ہتھیاروں کے اس مبینہ استعمال کو عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters
اُدھر ایرانی صدر حسن روحانی نے بھی شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے ممکنہ استعمال کی خبریں سامنے آنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایرانی صدر نے کہا کہ شام کی موجودہ صورت حال اور وہاں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں بڑے پیمانے پر معصوم لوگوں کی ہلاکت کی اطلاعات بہت ہی زیادہ پریشان کن ہیں۔
تصویر: Reuters
ہفتےکی شام دمشق حکومت نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال باغیوں نے کیا تھا۔ شام کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق حکومتی فورسز نے بڑی تعداد میں ایسے زہریلے مادے قبضے میں لیے ہیں جو باغیوں کے زیر استعمال علاقوں میں چھپائے گئے تھے۔ آزاد ذرائع سے ابھی تک ان حکومتی دعووں کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
تصویر: Reuters
ان حملوں میں بچوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد متاثر ہوئی ہے۔ دوسری جانب مبینہ طور پر شامی حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی خبروں کے بعد امریکی بحریہ کے یونٹوں نے شام کی طرف پیش قدمی شروع کر دی تھی۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
آبزرویٹری کے مطابق فضائیہ کے اس اڈے پر شامی فورسز کے علاوہ روس اور ایران سے تعلق رکھنے والے اہلکار بھی تعینات تھے، جب کہ اس اڈے کو لبنانی شیعہ عسکری تنظیم حزب اللہ بھی استعمال کرتی رہی ہے۔ واشنگٹن اور پیرس حکومتوں نے اس حملے میں ملوث ہونے کے الزامات کو رد کیا تھا۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے فرانسیسی ہم منصب امانویل ماکروں سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ باغیوں کے زیرقبضہ دوما کے علاقے میں کیمیائی حملے کے انتہائی مضبوط جواب دیا جائے گا۔ ادھر برطانوی وزیرخارجہ بورس جانسن نے بھی بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس مبینہ کیمیائی حملے کا مضبوط جواب دے۔ انہوں نے اس موضوع پر اپنے فرانسیسی ہم منصب ژاں ایو لے دریاں سے بھی بات کی۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک اجلاس بھی آج منعقد ہو رہا ہے، جس میں اس واقعے پر بحث کی جائے گی۔