دو امریکی محققین نوبل انعام برائے معاشیات کے حقدار
8 اکتوبر 2018
امسالہ نوبل انعام برائے معاشیات دو امریکی ماہرین ولیم نورڈ ہاؤس اور پاؤل رومر کو دیا جائے گا۔ انہیں یہ انعام ماحولیاتی تبدیلیوں، ٹیکنالوجی اور اقتصادی نمو کے درمیان تعلق کے حوالے سے ان کی تحقیق پر دیا جائے گا۔
اشتہار
سویڈش رائل اکیڈمی کے بیان میں بتایا گیا کہ نارڈ ہاؤس اور رومر کی تحقیق نے ماحولیاتی تبدیلیوں اور تکنیکی جدت کے تناظر میں پائیدار اقتصادی ترقی کو بہتر طور پر سمجھنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ پروفیسر نارڈ ہاؤس ییل ( Yale) یونیورسٹی جبکہ رومر نیو یارک کے اسٹیرن یونیورسٹی آف بزنس سے وابستہ ہیں۔
نوبل انعام کے ساتھ ان دونوں محققین کو تقریباً نو ملین سویڈش کرونن بھی دیے جائیں گے، جو آٹھ لاکھ ستر ہزار یورو بنتے ہیں۔ معاشیات کا یہ پرائز ان پانچ میدانوں میں دیے جانے والے نوبل انعامات میں شامل نہیں ہے، جو الفریڈ نوبل کی وصیت کے مطابق دیے جاتے ہیں۔
ڈائنامائٹ کے موجد الفریڈ نوبل نے طب، طبیعات، امن، کیمیا اور ادب کے میدانوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں میں نوبل انعام تقسیم کرنے کی وصیت کی تھی۔ اسی لیے اقتصادی شعبے میں دیے جانے والے نوبل انعام کو ’نوبل میموریل پرائز ان اکنامک سائنسس‘ کہا جاتا ہے۔
1969ء سے نوبل انعام برائے اقتصادیات دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا اور اب تک سب سے زیادہ امریکی محققین اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ گزشتہ برس امریکی ماہر معیشت رچرڈ تھالر کو اقتصادی نفسیات کے شعبے میں ان کی تحقیق پر نوبل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا تھا۔
گزشتہ دنوں کے دوران طب، طبیعات اور کیمیا کے شعبوں میں نوبل انعامات حاصل کرنے والوں کے اعلان سامنے آ چکے ہیں۔ روایتی طور پر نوبل انعامات دس دسمبر کو الفریڈ نوبل کے یوم وفات کو موقع پر باقاعدہ طور پر دیے جاتے ہیں۔
نوبل انعام حاصل کرنے والی متنازعہ شخصیات
1901ء سے جب سے نوبل انعام دینے کا سلسلہ شروع ہوا ہے، مختلف حلقے اس بارے میں ایک دوسرے سے بالکل الگ موقف رکھتے ہیں۔ نوبل تاریخ کی اب تک کی متنازعہ ترین لمحات کی تصاویر۔
تصویر: AP
کھاد بھی اور کیمیائی ہتھیار بھی
نوبل انعام کی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا اختلافی فیصلہ جرمن کیمیا دان فرٹز ہابر کو نوبل انعام سے نوازنہ تھا۔ انہیں 1918ء میں کیمیا کا نوبل انعام دیا گیا۔ انہوں نے امونیا کا ایسا مرکب ایجاد کیا، جسے کھاد بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ہابر کو’’ کیمیائی ہتیھاروں کا خالق‘‘ بھی کہاجاتا ہے۔ ان کی ایجاد کردہ کلورین گیس پہلی عالمی جنگ میں بڑی تباہی کا باعث بنی تھی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
ہلاکت خیز ایجاد
جرمن سائسندان اوٹو ہان (درمیان میں) کو جوہری انشقاق کی دریافت پر 1945ء میں کیمیا کا نوبل انعام دیا گیا۔ انہوں نے اپنی اس ایجاد کو عسکری شعبے میں استعمال کرنے کے حوالے سے تحقیق نہیں کی تھی تاہم اسے براہ راست جوہری بم بنانے میں استعمال کیا گیا۔ نوبل کمیٹی انہیں 1940ء میں نوبل انعام دینا چاہتی تھی لیکن انہیں ہیروشیما اور ناگاساکی میں کیے جانے والے حملوں کے بعد 1945ء میں یہ اعزاز دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/G. Rauchwetter
ایک ایجاد پر پابندی
سوئس محقق پاؤل مؤلر کو 1948ء میں ’ڈی ڈی ٹی‘ بنانے پر طب کو نوبل انعام دیا گیا۔ ’ڈی ڈی ٹی‘ کیڑے مار دوا ہے، جو ملریا جیسی دیگر بیماریوں پر قابو پانے میں قدرے مددگار ثابت ہوئی۔ اس نے دوسری عالمی جنگ اور بعد کے دور میں بہت لوگوں کی جان بچائی لیکن تحفظ ماحول کی تنظیموں کا خیال ہے کہ یہ ایجاد انسانی صحت اور جنگلی حیات کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کے بعد ڈی ڈی ٹی کے زرعی استعمال پر پابندی عائد کر دی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UN
پریشان کن ایوارڈ
جرمن امن پسند کارل فان اوسیتزکی کو اسلحہ سازی کےخفیہ جرمن منصوبے کو فاش کرنے پر 1935ء میں امن کے نوبل انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اس فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے نوبل کمیٹی کے دو ارکان مستعفی ہو گئے تھے۔ کارل فان اوسیتزکی کو غداری کے مقدمے میں جیل بھیج دیا گیا جبکہ ہٹلر نے نوبل کمیٹی پر جرمن معاملات میں دخل اندازی کا الزام عائد کیا۔
تصویر: Bundesarchiv 183-R70579
شدید تنقید اور احتجاجاً استعفے
سابق امریکی وزیر خارجہ ہینری کسنگر اور شمالی ویتنام کے رہنما ’لے ڈک تھو‘ کو امن کا نوبل انعام دینے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ 1973ء کے اس فیصلے پر نوبل کمیٹی کے دو ارکان مستعفی ہو گئے تھے۔ ان دنوں کو فائر بندی کی کوششوں پر یہ ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا۔ تھو نے تو اسے لینے سے انکار کر دیا تھا جبکہ کسنگر کے ایک نمائندے نے یہ ایوارڈ وصول کیا۔ اس فیصلے کے بعد بھی جنگ مزید دو سال جاری رہی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آزاد خیال اور آمر سے روابط
آزاد منڈیوں کی وکالت کرنے والے ملٹن فریڈمین کو معاشیات کا نوبل انعام دینے کو متنازعہ ترین فیصلوں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔ فریڈمین کے چلی کے آمر آگستو پینوشے کے ساتھ روابط کی وجہ سے دنیا بھر میں بائیں بازو کے حلقوں نے 1976ء کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کی نظریات سے متاثر ہو کر چلی کی حکومت نے لوگوں پر تشدد شروع کیا اور کئی ہزار افراد لاپتہ ہو گئے۔
تصویر: PD
مبہم امن انعام
1994ء میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات، اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن اور وزیر خارجہ شیمون پیریز کو مشترکہ طور پر امن کے نوبل انعام کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اس کا مقصد مشرقی وسطٰی امن منصوبے میں تیزی لانا تھا۔ تاہم اس سے بات چیت کے عمل پر کوئی اثر نہیں پڑا اور ایک سال بعد ایک اسرائیلی قوم پرست نے رابن کو قتل کر دیا۔ نوبل کمیٹی کے ایک رکن نے یاسر عرفات کو’ دہشت گرد‘ کہتے ہوئے عہدے سے استعفی دے دیا تھا۔
تصویر: Jamal Aruri/AFP/Getty Images
فرضی یادداشت اور نوبل انعام
قدیم مایا نسل کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی ریگوبیرتا مینچُونے 1992ء میں امن کا نوبل انعام حاصل کیا۔ انہیں سماجی انصاف اور نسلی و ثقافتی مفاہمت کے لیے ان کی کوششوں پر اس ایوارڈ کا حق دار ٹھہرایا گیا۔ تاہم یہ فیصلہ اس وقت کافی متنازعہ ثابت ہوا، جب یہ خبر منظر عام پر آئی کہ شائع ہونے والی ان کی یادداشت جزوی طور پر فرضی ہے۔ بہت سے حلقوں کا خیال ہے کہ وہ اس ایوارڈ کی بالکل بھی حقدار نہیں تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Fernandez
قبل از وقت امتیاز
امریکی صدر باراک اوباما کو 2009ء میں ملنے والے امن کے نوبل انعام نے بہت سے حلقوں کو حیران کر دیا تھا اور حیران ہونے والوں میں اوباما خود بھی شامل تھے۔ انہیں بین الاقوامی سفارت کاری اور اقوام کے مابین تعلقات کو مستحکم کرنے کے ان کے ارادوں پر یہ ایوارڈ دیا گیا تھا۔ ناقدین اور اوباما کے حامیوں کا موقف تھا کہ انہیں یہ ایوارڈ اس وقت دینا چاہیے تھا کہ جب ان کے منصوبوں کے نتائج سامنے آتے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بعد از مرگ اعتراف
2011ء میں طب کا نوبل انعام جولیس ہوف، بروس بؤٹلر اور رالف اشٹائن مین کو نئے’ امیون سسٹم سیل‘ کی دریافت پر مشترکہ طور پر نوبل انعام برائے طب دیا گیا۔ اعلان سے چند دن قبل اشٹائن مین کا سرطان کی وجہ سے انتقال ہو گیا تھا۔ قانون کے مطابق بعد از مرگ کوئی بھی نوبل انعام وصول نہیں کرسکتا۔ تاہم نوبل کمیٹی یہ کہتے ہوئے اشٹائن مین کے حق میں فیصلہ کیا کہ نامزدگی کے وقت انہیں اس سائنسدان کی موت علم نہیں تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Rockefeller University
ایک بڑی غفلت
نوبل انعام اپنی نامزدگیوں اور اصل حقداروں کو نظر انداز کیے جانے کے حوالوں سے متنازعہ رہے ہیں۔ بھارت میں پر امن تحریک کے بانی گاندھی کو پانچ مرتبہ اس انعام کے لیے نامزد کیا گیا مگر ایک مرتبہ بھی فیصلہ ان کے حق میں نہیں ہوا۔ 2006ء میں ناروے کی نوبل کمیٹی کے گیئر لنڈےسٹاڈ نے کہا ’’ نوبل انعام کی 106 سالہ تاریخ کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ مہاتما گاندھی کو امن کا نوبل انعام نہیں دیا گیا۔‘‘