’دو سمندروں کو جوڑنے والا عجوبہ‘: نہر سوئز کے ڈیڑھ سو سال
17 نومبر 2019
عالمی سطح پر فن تعمیرات کا عجوبہ کہلانے اور دو سمندروں کو جوڑنے والی نہر سوئز کے افتتاح کو آج اتوار سترہ نومبر کو ٹھیک ڈیڑھ سو سال ہو گئے ہیں لیکن مصر کی اپنی اس ریاستی ملکیت سے توقعات آج بھی مسلسل بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔
اشتہار
بحیرہ روم اور بحیرہ احمر نامی دو سمندروں کو ملانے والے اور انسانوں کے تعمیر کردہ اس آبی راستے کو اکتوبر 1956ء میں اس دور کے مصری صدر جمال عبدالناصر نے ریاستی ملکیت میں لینے کا جو اعلان کیا تھا، اس پر مصر میں تو بہت زیادہ خوشیاں منائی گئی تھیں لیکن یورپ میں اس اقدام پر ناامیدی کا اظہار کیا گیا تھا۔
یہ آبی راستہ آج بھی مصر کے لیے آمدنی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ مصر میں قومیائے جانے سے پہلے اس نہر کی ملکیت زیادہ تر برطانوی فرانسیسی کمپنی سوئز سوسائٹی کے پاس تھی۔ شروع میں برطانیہ اور فرانس نے اس دور کی قاہرہ حکومت کو مذاکرات کے ذریعے اس اقدام سے روکنے کی کوشش کی تھی۔
اسرائیل کی مدد سے برطانوی فرانسیسی فوجی قبضہ
جب یہ مذاکراتی کوششیں ناکام ہو گئیں، تو برطانیہ اور فرانس نے اسرائیل کی مدد سے مصر کے سوئز کینال والے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے بعد معاملہ ایک تنازعے کی صورت میں جب اقوام متحدہ میں پہنچ گیا، تو امریکا اور سابقہ سوویت یونین کے مشترکہ دباؤ کے باعث فرانسیسی، برطانوی اور اسرائیلی دستے اس مصری علاقے سے واپسی پر مجبور ہو گئے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نہر سوئز مصر کے لیے شروع سے ہی قومی اہمیت کی ایک علامت ہے اور قاہرہ اسے اپنی ریاستی پیش رفت کا استعارہ بھی سمجھتا ہے۔ اس کے علاوہ صدر جمال عبدالناصر کی طرف سے اس نہر کو قومیا لینے کے فیصلے کا ایک محرک عرب قوم پسندی بھی تھا۔
صدیوں پرانا خواب
سوئز کینال کی تعمیر سے قبل بحیرہ روم اور بحیرہ احمر کو جوڑنے والے انسانوں کے تعمیر کردہ کسی آبی راستے کا تصور تو صدیوں پرانا تھا۔ سولہویں صدی میں عثمانی ترکوں نے بھی ایسا سوچا تھا۔ پھر 1798ء میں نیپولین کے دور میں فرانسیسی ماہرین تعمیرات بھی مصر گئے تھے، جہاں انہوں نے اپنے ابتدائی تعمیراتی تخمینے لگا کر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ ایسا کوئی بھی منصوبہ حقیقت پسندانہ نہیں ہو گا۔ اس کے بعد برطانوی ماہرین کا تجربہ اور اس کا نتیجہ بھی ایسا ہی رہا تھا۔
اس منصوبے پر عملی پیش رفت فرڈینانڈ دے لَیسیپ نے کی تھی۔ اس نہر کی تعمیر کے لیے شروع میں ہزاروں یورپی کارکن وہاں لائے گئے تھے۔ پھر جب وہ بھی کم پڑ گئے، تو اس دور کے مصری حکمران محمد سعید نے 1861ء میں بالائی مصر سے مزید تقریباﹰ 10 ہزار کارکنوں کو زبردستی بلوایا، جنہوں نے اس منصوبے میں مدد کی۔ اس کے ایک سال بعد اس پروجیکٹ پر کام کرنے کے لیے مزید 18 ہزار کارکن بلانا پڑے تھے۔
حیران کن اعداد و شمار
نہر سوئز کی تعمیر کے منصوبے نے اس دور کے مصر کو بھی بہت زیادہ بدل دیا تھا۔ اس نہر کے کنارے آباد ہونے والے شہروں میں سے پورٹ سعید ایک ایسا بڑا تجارتی مرکز بن گیا، جس کا رابطہ باقی ماندہ ساری دنیا کے تجارتی نیٹ ورک سے قائم ہو گیا تھا۔
شروع میں اس نہر کو 'ہائی وے آف دا برٹش ایمپائر‘ کا نام دیا گیا تھا اور اس کی وجہ سے لندن اور ممبئی کے درمیان سمندری فاصلہ تقریباﹰ 20 ہزار کلومیٹر سے کم ہو کر ساڑھے گیارہ ہزار کلومیٹر رہ گیا تھا۔ اس سے جہاز رانی کی بین الاقوامی صنعت کو بھی بہت توقی ملی تھی۔
17 نومبر 1869ء کو افتتاح
1870ء میں اس آبی راستے سے 486 بحری جہاز گزرے تھے، جن میں تقریباﹰ 27 ہزار مسافر سوار تھے۔ 1913ء میں ان بحری جہازوں کی تعداد تقریباﹰ 5100 ہو گئی تھی، جس میں سفر کرنے والے مسافروں کی تعداد بھی تقریباﹰ دو لاکھ 35 ہزار بنتی تھی۔
آخرکار نئی پاناما کینال کا افتتاح
کئی برسوں کی تعمیر اور مقررہ وقت میں دو سال کی تاخیر کے بعد آخر کار توسیع شدہ پاناما کینال کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔ مستقبل میں 14 ہزار کنٹینرز والے بحری جہاز بھی اس آبی گزر گاہ کو استعمال کر سکیں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بحر الکاہل سے بحر اوقیانوس
پاناما کینال بیاسی کلومیٹر طویل ہے۔ توسیع کے اس منصوبے کے تحت اس آبی گزرگاہ کے مختلف مقامات کو مزید گہرا بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ واٹر نیویگیشن گیٹس کی تعداد میں اضافہ کر دیا گیا ہے تاکہ زیادہ جہاز بحر الکاہل سے بحر اوقیانوس میں داخل ہو سکیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Arangua
تاریخی سفر
اس توسیع شدہ آبی گزرگاہ میں سے سب سے پہلے ’’کوسکو شیپنگ پاناما‘‘ نامی جہاز گزرا ہے۔ یہ جہاز ایک چینی جہاز کمپنی کی ملکیت ہے۔ کیپٹن یوڈ روڈیرگس کا کہنا تھا، ’’سب سے پہلے اس توسیع شدہ بحری راستے سے گزرنا میرے لیے ایک ناقابل فراموش تجربہ ہے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Franco
مصنوعات کی تعداد دو گنا
تقریباﹰ پچاس میٹر چوڑے اور 366 میٹر طویل بضری جہاز بحر الکاہل سے بحر اوقیانوس میں داخل ہو سکیں گے۔ توسیع شدہ پاناما کینال سے اب سالانہ 600 ملین ٹن مصنوعات ٹرانسپورٹ کی جا سکیں گی۔ ابھی تک سالانہ تین سو ملین ٹن مصنوعات اس راستے سے ٹرانسپورٹ کی جاتی تھیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Ordonez
توسیع مہنگی اور تاخیر سے
پاناما کینال کی توسیع پر 5,25 ارب امریکی ڈالر کی لاگت آئی ہے۔ یہ لاگت ابتدائی تخمینوں سے تقریباﹰ دو ارب ڈالر زائد ہے۔ مجموعی طور پر اس کی تعمیر کے لیے چالیس ہزار کارکن شامل رہے۔ انہوں نے کئی پہاڑوں کو کاٹا، ایک سو پچاس ملین کیوبک میٹر زمین کو کھودا گیا اور ایک لاکھ بانوے ہزار ٹن لوہا استعمال کیا گیا۔
پاناما کینال کو اس ملک کے تقریبا چالیس لاکھ افراد کی شہ رگ سمجھا جاتا ہے۔ پاناما سالانہ بنیادوں پر اس سے تقریباﹰ ایک ارب ڈالر منافع کماتا ہے۔ آئندہ دس برسوں میں یہ منافع تقریباﹰ چار ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد پاناما کینال پر رکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Rivera
امریکا سے آزادی
امریکا کے سابق صدر جمی کارٹر نے 1999ء میں پاناما کینال کا انتظام پاناما حکومت کے حوالے کیا تھا، تب تک اسے امریکا کنٹرول کرتا تھا۔ 1903ء میں اس کی تعمیر سے ایک برس قبل امریکا نے اس علاقے پر قبضہ کرتے ہوئے غیرمعینہ مدت تک اس کے استعمال کا ایک معاہدہ کر لیا تھا۔ سترہ برس پہلے جب پاناما نے اس کا کنٹرول سنبھالا تو پہلی مرتبہ اس آبی گرز گاہ سے منافع حاصل ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ایک صدی سے زیادہ کا سفر
اس آبی گزرگاہ سے سب سے پہلا بحری جہاز پندرہ اگست 1914ء کو گزرا تھا اور ’انکونا‘ نامی اس بحری جہاز پر کل دو سو مسافر سوار تھے۔ 1905ء سے 1914ء تک اس کی تعمیر کے دوران تقریباﹰ چھ ہزار افراد وفات پائے۔
نکاراگوا میں پاناما کینال سے بھی بڑی اور کشادہ آبی گزرگاہ تعمیر کی جا رہی ہے۔ اس کا آغاز سن 2015ء میں تحفظ ماحول کی تنظیموں کے احتجاجی مظاہروں کے سائے میں ہو چکا ہے۔ نکاراگوا کینال، پاناما کینال کی حیثیت پر سوال اٹھا سکتی ہے کہ یہ اس براعظم کا سب سے اہم تجارتی راستہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
8 تصاویر1 | 8
بحری آمد و رفت کی اس ترقی سے اس نہر کے باقاعدہ افتتاح کے وقت اس دور کے مصری حکمران اسماعیل پاشا کی طرف سے 17 نومبر 1869ء کے روز کہی جانے والی یہ بات بھی سچ ثابت ہو گئی تھی، ''میرا ملک اب صرف افریقہ کا حصہ نہیں رہا۔ میں نے اسے یورپ کا حصہ بھی بنا دیا ہے۔‘‘
سالانہ اربوں ڈالر کی آمدنی
نہر سوئز کو مزید چوڑا کرنے کے جس منصوبے پر کام 2015ء میں مکمل ہو گیا تھا، اس کے بعد سے اس آبی راستے کی ٹرانسپورٹ کی اہلیت بھی تقریباﹰ دگنی ہو چکی ہے۔ پہلے اگر روزانہ تقریباﹰ صرف 49 بحری جہاز ہی اس نہر سے گزر سکتے تھے، تو آج یہ تعداد 100 ہو گئی ہے۔
مصر کے لیے یہ نہر مالیاتی حوالے سے کتنی اہمیت کی حامل ہے، اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ مالی سال 2018ء اور 2019ء میں قاہرہ کو اس سے ہونے والی آمدنی کا تخمینہ تقریباﹰ چھ بلین ڈالر لگایا گیا تھا۔ لیکن اگر مصر کی نہر سوئز سے وابستہ ریاستی توقعات کو دیکھا جائے تو شمالی افریقہ کی اس ریاست کا خیال یہ ہے کہ وہ آج بھی اس نہر سے اتنا زیادہ فائدہ نہیں اٹھا رہی، جتنا کہ ممکن ہے۔
کَیرسٹن کنِپ (مقبول ملک)
انتہائی شاندار نئے کروز شپ
بحری جہاز تیار کرنے والی یورپی صنعت کو ایشیائی ملکوں کے اداروں کی طرف سے سخت مقابلے اور دباؤ کا سامنا ہے۔ لیکن بات اگر کروز شپ تیار کرنے کی ہو، تو یورپی برتری ابھی تک مسلمہ ہے، جیسے کہ یہ تصویریں بھی ظاہر کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
تیز رفتار ترقی کرنے والی صنعت
اس سال دنیا کے مختلف ملکوں کے پچیس ملین یا ڈھائی کروڑ سے زائد انسان کروز بحری جہازوں پر سمندری تعطیلات گزاریں گے۔ یہ تعداد 2016ء کے مقابلے میں ایک ملین زیادہ ہے۔ زیادہ مسافروں کا مطلب ہے زیادہ جہازوں کی ضرورت۔ اس سال دنیا بھر میں 448 کروز سپش کے عالمی بیڑے میں 26 نئے شپ شامل کیے جا رہے ہیں۔ ان میں چھوٹے دریاؤں کے لیے بنائے گئے شپ بھی شامل ہوں گے اور گہرے سمندروں کے لیے بہت بڑے بڑے بحری جہاز بھی۔
تصویر: cmm-marketing.com by Bianca Berger, Eus Straver and Marc Hansen
گہرے سمندروں کے لیے بارہ نئے کروز شپ
صرف اسی سال کروز بحری جہازوں کے عالمی بیڑے میں گہرے سمندروں میں سفر کرنے والے جو نئے کروز شپ شامل کیے جا رہے ہیں، ان کی تعداد 12 ہے۔ ان بحری جہازوں پر ایک وقت میں مجموعی طور پر 28 ہزار سے زیادہ مسافر سفر کر سکیں گے۔ بحری جہاز سازی کی صنعت کی تنظیم CLIA کے مطابق عالمی سطح پر ایسا ہر چوتھا نیا کروز شپ کسی نہ کسی جرمن شپ یارڈ یا اس کی کسی ذیلی کمپنی کا تیار کردہ ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Marks
’اوویشن آف دا سیز‘ کا پہلا سمندری سفر
یورپی کمپنیوں کو بہت بڑے بڑے پرتعیش کروز شپ تیار کرنے کا عشروں کا تجربہ ہے۔ یہ کام بہت مہارت رکھنے والی کمپنیاں اپنے بہت ماہر اور تجربہ کار کارکنوں کے ذریعے کرتی ہیں۔ جرمنی میں فولاد کی صنعت کی نمائندہ ٹریڈ یونین آئی جی میٹل کا کہنا ہے کہ یورپی شپ بلڈنگ کمپنیوں کے پاس ایسے باصلاحیت انجینئر اور تکنیکی ماہر موجود ہیں، جو شپ بلڈنگ سے متعلق کسی بھی خواب کو حقیقت کا روپ دے سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Wagner
کروز شپ بلڈنگ پر تین یورپی شپ یارڈ چھائے ہوئے
دنیا بھر میں کروز شپ بلڈنگ کی صنعت پر تین بڑے یورپی شپ یارڈ چھائے ہوئے ہیں۔ ان میں اٹلی کی کمپنی فنکانتیئری، فرانس کی ایس ٹی ایکس اور جرمنی کے شہر پاپن برگ میں قائم مائر شپ یارڈ شامل ہیں۔ 2016ء کے اوائل تک اطالوی کمپنی Fincantieri کے پاس 24 نئے بحری جہازوں کی تیاری کے آرڈر تھے، جرمنی کے مائر شپ یارڈ (تصویر) کے پاس 21 اور فرانس کی STX کے پاس 12 نئے کروز بحری جہازوں کی تیاری کے آرڈر۔
تصویر: Meyer Werft
جاپانی کمپنی کی طرف سے مقابلہ
کروز شپ بلڈنگ کے شعبے میں سرگرم واحد غیر یورپی ادارہ جاپانی کمپنی مِٹسوبیشی ہیوی انڈسٹریز ہے، جس کے پاس 2016ء کے اوائل تک صرف ایک شپ کی تیاری کا آرڈر تھا۔ پھر مِٹسوبیشی نے کروز شپ بلڈنگ کا کام ترک کر دیا۔ جرمنی کا مائر شپ یارڈ 2013ء تک صرف ایک کروز کمپنی آئیڈا کے لیے سات بہت بڑے بڑے لگژری شپ تیار کر چکا تھا۔ آئیڈا نے 2011ء میں مِٹسوبیشی کو دو جہازوں کے آرڈر دیے لیکن یہ کام تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔
تصویر: AP
آئیڈا کی واپسی
2015ء میں آئیڈا نے تصدیق کر دی کہ جرمنی کا مائر شپ یارڈ اس کے لیے دو نئے بحری جہاز تیار کرے گا۔ ہر شپ میں ڈھائی ہزار سے زائد مسافروں کے لیے کیبن ہوں گے اور دونوں شپ مائع قدرتی گیس سے چلیں گے۔ ایک بحری جہاز 2018ء کے موسم خزاں میں آئیڈا کے حوالے کیا جائے گا اور دوسرا 2021ء کے موسم بہار میں۔ یہ جہاز ماحول کے لیے کم نقصان دہ ہوں گے۔
تصویر: picture alliance/dpa/I. Wagner
جدید ترین بحری جہازوں کے برے ماحولیاتی اثرات کم
آج کل اکثر جدید ترین شپ ایسے ڈیزائن کیے جاتے ہیں کہ وہ پٹرول یا ڈیزل کے بجائے مائع قدرتی گیس پر چلتے ہیں۔ یوں ماحول کے لیے ضرر رساں گیسوں کا اخراج کم ہوتا ہے۔ ان دنوں الیکٹرک موٹروں اور کم بجلی استعمال کرنے والی ایل ای ڈی لائٹوں کے استعمال پر بھی زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔ ان جہازوں کی تیاری میں کم وزن بلڈنگ مٹیریل کے استعمال سے توانائی کے شعبے میں ان کی کارکردگی کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/I. Wagner
بہت بڑے جہازوں میں سے بھی سب سے بڑا کروز شپ
’ہارمنی آف دا سیز‘ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا کروز شپ ہے۔ یہ 66 میٹر چوڑا ہے اور 362 میٹر لمبا۔ اس 16 منزلہ بحری جہاز میں 20 ڈائننگ رومز، 23 سوئمنگ پولز اور ایک پارک بھی جس میں 12 ہزار پودے لگے ہیں۔ اس جہاز پر 5,480 مسافروں اور عملے کے 2000 سے زائد ارکان کے لیے گنجائش ہے۔ اس شپ کو ’تیرتا ہوا شہر‘ بھی کہا جاتا ہے، جسے بنانے والی فرانسیسی کمپنی کو ایک بلین یورو سے زائد کی قیمت ادا کی گئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Dubray
15 اپریل 1912ء ، کروز شپنگ کی تاریخ کا برا دن
’ٹائٹینک‘ 269 میٹر لمبا ایک نو منزلہ کروز شپ تھا۔، جس میں 2687 مسافروں اور عملے کے 860 ارکان کے لیے گنجائش تھی۔ اس کے پہلے اور آخری سفر کے وقت اس میں 2200 مسافر اور عملے کے سینکڑوں ارکان بھی سوار تھے۔ ان میں سے 1500 ہلاک ہو گئے تھے۔ ان سب کو بچایا جا سکتا تھا۔ لیکن تب کارپیتھیا نامی ایک اور کروز شپ صرف ایک گھنٹے اور بیس منٹ کی تاخیر سے سمندر میں اس جگہ پر پہنچا تھا، جہاں ٹائٹینک ڈوبا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کروز شپ بلڈنگ میں نیا ممکنہ حریف ملک چین
چین مستقبل میں یورپی کروز شپ بلڈنگ کمپنیوں کے لیے نیا کاروباری حریف ثابت ہو سکتا ہے۔ گزشتہ برس قریب ایک ملین چینی باشندوں نے کروز شپنگ کی۔ 2030ء تک یہ تعداد آٹھ ملین تک پہنچ سکتی ہے۔ جولائی 2015ء میں اطالوی ادارے Fincantieri نے چینی شپ بلڈنگ کارپوریشن (CSSC) کے ساتھ مل کر ایک نیا منصوبہ شروع کیا، جس کے تحت کروز شپنگ کی چینی منڈی کے لیے بحری جہاز تیار کیے جائیں گے۔