دو سو سے زائد کلومیٹر تک تیرنے والے کتے کو بچا لیا گیا
16 اپریل 2019
خلیج تھائی لینڈ میں دو سو کلومیٹر سے زائد سمندر میں تیرنے والے ایک کتے کو بچا لیا گیا ہے۔ اب اس بہادر کتے کو جنوبی تھائی لینڈ کی بندرگاہ سونگ کھلا پہنچا دیا گیا ہے۔
اشتہار
اس بہادر کتے کی سمندر میں اپنی جان بچانے کی کوشش کا احوال خلیج تھائی لینڈ کے سمندری علاقے میں سے تیل نکالنے والی انٹرنیشنل کمپنی شیوران تھائی لینڈ کے ایک ملازم ویٹیساک پیالاو نے اپنے فیس بک پیج پر بیان کیا ہے۔ جس مقام پر اس کتے کو سمندر سے نکالا گیا، وہ ساحل سے 135 میل یا 220 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔
ویٹیساک پیالاو کے مطابق کتے کو سمندر میں قائم تیل پروڈکشن کے لیے قائم پلیٹ فارم سے پہلی مرتبہ دیکھا گیا اور وہ تیرتا ہوا اس پلیٹ فارم کی جانب بڑھ رہا تھا۔ تُند سمندری موجوں کے باوجود یہ کتا اپنی ہمت سے پلیٹ فارم کے ڈھانچے کے نچلے حصے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔
شیوران کے ملازمین نے جب اسے پلیٹ فارم کے نچلے حصے میں دیکھا تو انہوں نے اس کے بدن کے گرد رسی ڈھال کر اُسے اوپر کھینچ لیا۔ شیوران کمپنی کے ملازم نے مزید بیان کیا کہ اس کتے کو فوراً ہی اوپر لایا گیا وگرنہ زوردار موجیں اُسے بہا کر اپنے ساتٰھ کسی اور سمت لے جا سکتی تھیں۔
ویٹیساک پیالاو نے اس کتے کا نام تھائی زبان میں’بون راڈ‘ رکھا ہے۔ انگریزی میں اس کا مطلب ’سروائیور‘ یا بچ جانے والا ہے۔ یہ نام رکھنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے پیالاو نے لکھا کہ اتنی دور تک تیرتا ہوا اپنی جان بچانے میں کامیاب رہنے والے ایسے بہادر کتے کے لیے ایک منفرد نام بہت ضروری ہو گیا تھا۔
شیوران کمپنی کے عملے کا خیال ہے کہ یہ کتا امکاناً مچھلیاں پکڑنے والے کسی ٹرالر سے سمندر میں گر گیا ہو گا اور پھر وہ دوبارہ اُس تک پہنچنے کی کوشش میں کسی اور سمت موجوں کے ساتھ تیرتا چلا گیا۔ پیر پندرہ اپریل کو یہ کتا شیوران کے پلیٹ فارم سے جنوبی تھائی لینڈ کی بندرگاہ سونگ کھلا پہنچا دیا گیا ہے۔
ویٹیساک پیالاو کا کہنا ہے کہ اگر اس کتے کا کوئی مالک سامنے نہ آیا تو وہ اسے اپنے پاس رکھنے کے لیے تیار ہے۔ سونگ کھلا میں واچ ڈاگ تھائی لینڈ نامی تنظیم کی مقامی شاخ کے اہلکار نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ اتنی لمبی تیراکی کے بعد بھی یہ کتا بالکل صحت مند ہے۔
خلا سے ہم ماحولیات کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟
قریب ساٹھ برس قبل انسان نے خلا کے شعبے میں قدم رکھا۔ تب سے اب تک خلائی ٹیکنالوکی میں ڈرامائی جدت پیدا آئی ہے اور اس کی وجہ سے ماحول سے متعلق ہماری معلومات بھی بڑھی ہے۔
تصویر: Pew Charitable Trusts
علم میں اضافہ
بیسویں صدی کے وسط تک خلا میں سیٹیلایٹ چھوڑے جانے سے قبل ہمیں اپنے ماحول سے متعلق بہت کم معلومات تھیں۔ آج ہم جمع ہونے والے ڈیٹا کے ذریعے اپنے بدلتے سیارے کی کہانی سمجھ سکتے ہیں۔ 1985ء میں انہی سیٹیلائیٹس کی مدد سے ہمیں اوزون کی تہہ میں ہوئے چھید سے متعلق معلومات ملی تھی۔
تصویر: Pew Charitable Trusts
زمینی کا انتباہی نظام
بعض سیٹیلائیٹس ماحولیاتی تبدیلیوں پر نگاہ رکھتی ہیں، مثلاﹰ پگھلتی برف، سمندری سطح میں اضافہ اور حتیٰ کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی شرح۔ مثال کے طور پر جیسن تھری سیٹلائیٹ جسے سن 2016ء میں خلا میں بھیجا گیا، اس سلسلے کی جدید ترین سیٹلائیٹ ہے۔ یہ سمندری سطح میں اضافے پر نگاہ رکھتی ہی۔ اس سے حاصل ہونے والا ڈیٹا ماحولیاتی تبدیلیوں کے سمندروں پر اثرات کو سمجھنے میں کلیدی نوعیت کا ہے۔
تصویر: NASA.gov
مصروفِ عمل
خلائی ٹیکنالوجی کی وجہ سے انسان کے ہاتھ نگرانی اور جائزے کے بہترین آلات آئے ہیں، جس سے جنگلات کی کٹوتی اور غیرقانونی طور پر مچھلیوں کے شکار حتیٰ کہ کسی مقام پر تیل کے رساؤ تک کی جانچ ہو سکتی ہے۔ محققین اس سے جان سکتے ہیں کہ کب اور کہاں ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
تصویر: DW/N. Pontes
قدرتی آفات پر نگاہ
خلا میں موجود سیٹیلائٹس قدرتی آفات مثلاﹰ سمندری طوفان، جنگلاتی آگ اور سیلابوں سے متعلق اہم معلومات فراہم کرتی ہیں۔ ان کی مدد سے حاصل شدہ ڈیٹا متاثرہ علاقوں میں انسانوں کی مدد کے لیے استعمال ہوتا ہے اور ان سے کسی قدرتی آفت کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/NOAA
خلائی باغ بانی
خلا میں پودے اگانے کے تجربات ہمیں نہایت مفید معلومات دے چکے ہیں۔ اس معلومات کو زمین پر پائیدار زراعت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر خلانورد دریافت کر چکے ہیں کہ کس طرح کم پانی استعمال کر کے سبزیاں اگائی جا سکتی ہیں۔ چین نے حال ہی میں چاند کے تاریک حصے پر کپاس کا بیج بو کر تاریخ رقم کی ہے۔ یہ معلومات مستقل کے کسانوں کے نہایت کام آئے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NASA
راکٹ کے دھوئیں کا مسئلہ
بدقسمتی سے خلائی ٹیکنالوجی کا ایک منفی پہلا بھی ہے۔ ہر بار جب راکٹ زمین سے روانہ کیا جاتا ہے تو ایندھن کی وجہ سے خارج ہونے والی گیس میں المونیا نامی کیمکل ہوتا ہے، جو ماحول کے لیے نہایت نقصان دہ ہے۔ خلائی تحقیقاتی ادارے اب ماحول دوست ایندھن پر تحقیق کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ISRO
خلائی ملبہ
اس وقت زمین کے مدار میں قریب بیس ہزار ایسے ٹکڑے گردش کر رہے ہیں، جو مختلف راکٹ کی وجہ سے خلا میں پہنچے۔ ان میں اسکیو اور نٹ وغیرہ بھی شامل ہیں اور پرانے راکٹوں کا ملبہ بھی۔ گو کہ یہ زمین کے کرہء ہوائی سے باہر ہیں، مگر ان پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اگر یہ خلائی فضلہ بہت زیادہ کثیف ہو گیا تو سیٹیلائیٹس کے لیے نقصان کا باعث بنے گا۔