دو عالمگیر وباؤں، دو عالمی جنگوں کے باوجود زندگی سے بھرپور
15 فروری 2021
’’انسان موت سے ڈرتا تب ہے جب زندگی اسے مسلسل مصروف اور جہد میں نا رکھے۔‘‘ یہ بات جرمنی کی بزرگ ترین خواتین میں سے ایک مِینا ہیہن نے اپنی زندگی کے پہلے انٹرویو میں کہی۔ انہوں نے دو روز قبل اپنی 108 ویں سالگرہ منائی۔
اشتہار
مِینا ہیہن (Mina Hehn) 1914ء میں شروع ہونے والی پہلی عالمی جنگ سے بھی ایک سال پہلے 1913ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ دو روز قبل ہفتے کے روز انہوں نے اپنی 108 ویں سالگرہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کی وجہ سے ایسے منائی کہ اس تقریب کی مہمان صرف ایک ہی خاتون تھیں، مِینا کی 82 سالہ بیٹی۔
موت کے لیے گھر کا انتخاب
جاپان میں شدید بیمار افراد کی اکثریت ہسپتال ہی میں مرنا پسند کرتی ہے مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جو ہسپتال کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے گھر میں مکمل تنہائی میں ہی موت سے جا ملتے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
کتے کے ساتھ
جب میتسُورو نینُوما کو معلوم ہوا کہ وہ پھیپھڑوں کے کینسر کی وجہ سے بس موت کے منہ میں جانے والے ہیں، تو انہوں نے ہسپتال کی بجائے گھر میں مرنا پسند کیا۔ اس طرح انہیں اپنے پوتے کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کا موقع ملا اور رِن نامی اپنے کتے کے ساتھ بھی۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
اپنے گھر کی چار دیواری
69 سالہ میتسُورو کے سونے کے کمرے کی یہ چار دیواری رنگوں سے روشن ہے، یہ رنگ انہوں نے اپنے پوتے کے ساتھ بکھیرے۔ ایک فزیکل تھراپسٹ ان کے معائنے کو آتا ہے، مساج کرتا اور ان کی ٹانگوں کو جنبش دیتا ہے۔ وہ کئی ماہ سے بسترِ مرگ پر ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتال میں ڈیمینشیا مزید بگڑ گیا
یاسودو تویوکو ٹوکیو میں اپنی بیٹی کے ہاں رہ رہے ہیں۔ اس 95 سالہ مریضہ کو معدے کے سرطان اور ڈیمینشیا کا مرض لاحق ہے۔ ان کی بیٹی ہی ان کا خیال رکھتی ہے۔ یاسوڈو کو ان کی بیٹی ہسپتال سے گھر اس لیے لے آئیں، کیوں کہ انہیں لگا کہ ان کی والدہ ہسپتال میں کم زور ہو گئیں تھیں اور ان کا ڈیمینشیا کا مرض بگڑ گیا تھا۔ جاپان میں مریضوں کی گھر میں دیکھ بھال ایک غیرعمومی بات ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
طویل انتظار
ہر کوئی رضاکارانہ طور پر اپنی زندگی کے آخری چند ہفتے گھر پر رہنا پسند نہیں کرتا۔ کاتسو سایتو کو جب معلوم ہوا کہ انہیں لیکیومیا لاحق ہے، تو انہوں نے قریب المرگ مریضوں کے لیے مخصوص قیام گاہ (ہوسپیس) کا انتخاب کیا، مگر وہاں جگہ ملنے میں انہیں طویل انتظار کرنا پڑا۔ انہیں جب وہاں منتقل کیا گیا، تو وہ فقط دو ہی روز بعد انتقال کر گئے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں میں جگہ کا فقدان
ہسپتالوں اور قریب المرگ مریضوں کی قیام گاہوں (ہوسپیس) میں بستروں کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جاپان میں طویل العمر افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس وقت جاپان میں ہر چار میں سے ایک شخص 65 برس سے زائد عمر کا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق سن 2030 میں جاپانی ہسپتالوں کو قریب نصف ملین بستروں کی کمی کا سامنا ہو گا۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
ہسپتالوں کے مہنگے کمرے
یاشوہیرو ساتو پیپھڑوں کے سرطان کے باعث انتقال کے قریب ہیں۔ وہ ہسپتال کے ایک انفرادی کمرے میں رہنا چاہتے ہیں مگر چوں کہ ریٹائرڈ افراد کمرے کا کرایہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتے اور ہیلتھ انشورنس انفرادی کمروں کے لیے پیسے نہیں دیتی، وہ ٹوکیو میں ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
چلتے ڈاکٹر
فزیشن یو یاسوئی (دائیں) نے ایک موبائل کلینک قائم کر رکھا ہے، جو قریب المرگ افراد کو ان کے گھروں میں نگہداشت فراہم کرتا ہے۔ 2013ء میں قائم ہونے والا یہ کلینک اب تک پانچ سو افراد کو گھروں میں فوت ہونے والے افراد کی دیکھ بھال کر چکا ہے۔ یو یاسوئی کے مطابق زندگی کے آخری دنوں میں طبی نگہداشت بہت کارگر ہوتی ہے۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
موت تنہائی میں
یاسوئی کے چند مریض اپنے گھر والوں کے ساتھ رہتے ہیں یا ان کے خاندان یا دوست انہیں باقاعدگی سے دیکھنے آتے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں، جنہیں کوئی ڈاکٹر یا نگہداشت کرنے والوں کے علاوہ کوئی دیکھنے نہیں آتا۔ ٹوکیو میں یاسوہیرو کا کوئی نہیں۔ وہ ٹوکیو کے اس فلیٹ میں مکمل طور پر تنہا ہیں۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
شاید بعد کی زندگی بہتر ہو
یاسوہیرو کا کہنا ہے کہ وہ یہاں کسی پر بوجھ نہیں بننا چاہتے کیوں کہ ’انہیں موت کے بعد کی بہتر زندگی درکار ہے‘۔ 13 ستمبر کو یوسوہیرو کی سانس بند ہو گئی تھی اور اس وقت ان کے پاس ان کے فلیٹ میں ڈاکٹروں اور نرسوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔
تصویر: Reuters/Kim Kyung-Hoon
9 تصاویر1 | 9
دو عالمی وبائیں اور دو عالمی جنگیں
جنوبی جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ میں اشٹٹ گارٹ شہر کی رہنے والی مِینا کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی میں مجموعی طور پر کروڑوں انسانوں کی موت کی وجہ بننے والی دو عالمگیر وبائیں اور دو عالمی جنگیں دیکھ چکی ہیں۔
وہ ابھی تک زندگی سے اتنی بھرپور اور اپنے معمولات اور عادات کی اتنی پابند ہیں کہ کوئی بھی دوسرا انسان انہیں دیکھتے ہوئے رشک ہی کر سکتا ہے۔
مِینا اشٹٹ گارٹ میں بزرگ شہریوں کی ایک رہائش گاہ میں رہتی ہیں اور جانتی ہیں کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا اب تک پوری دنیا میں کس طرح لاکھوں انسان کی موت اور کروڑوں کے بیمار ہو جانے کی وجہ بن چکی ہے۔
انہوں نے 1918ء میں پھیلنے والی اور لاکھوں انسانوں کی موت کی وجہ بننے والی ہسپانوی فلو کی عالمی وبا بھی دیکھی تھی۔ تب ان کی عمر پانچ برس تھی۔
وہ یہ بھی دیکھ چکی ہیں کہ کس طرح دو مرتبہ عالمی جنگوں میں کروڑوں انسان مارے گئے اور ان کا اپنا ملک جرمنی بھی بری طرح تباہ ہو گیا تھا۔
خوش باش زندگی گزارنے کے لیے کچھ تجاویز
گھریلو مسائل ہوں، دفاتر میں ذہنی دباؤ یا پھر کوئی اور مسئلہ۔ تناؤ ہماری صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ ایک اچھی زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنا جسمانی اور ذہنی خیال رکھیں۔ خوش باش زندگی گزارنے کے لیے کچھ تجاویز
تصویر: Reuters/E. Gaillard
ٹینکالوجی کا متوازن استعمال
ٹیلی فون کا مسلسل استعمال، انٹرنیٹ سرفنگ یا پھر مسلسل ویڈیو گیمز کھیلنا۔ اس سے اعصابی تناؤ سے مقابلہ کرنے کی ہماری صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ معتدل انداز میں ٹیکنالوجی کا استعمال ہماری صحت کے لیے بھی اچھا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ رات سونے سے ایک گھنٹا قبل ہی ٹی وی دیکھنے یا انٹرنیٹ سرفنگ کا سلسلہ ختم کر دینا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/empics/D. Lipinski
گہرے سانس لیجیے
کسی مقام پر سکون سے بیٹھ کر گہرے سانس لینا تناؤ کو فوری کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ اسے میڈیٹیشن بھی کہا جاتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ میڈیٹیشن کے دوران کسی ایک نقطے پر توجہ دی جائے اور دھیرے دھیرے میڈیٹیشن کے دورانیہ کو بڑھایا جائے۔ ایساکرنے سے توجہ دینے کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور سکون ملتا ہے۔
تصویر: Colourbox
صبح سیر کیجیے
صبح سویرے کی سیر انسان کو ہشاش بشاش کرتی ہے اور ایک اچھا دن گزارنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ صبح ٹریفک کا شور اور آلودگی بھی کم ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/fotototo
وزرش کو زندگی کا حصہ بنائیے
ہفتے میں پانچ روز روزانہ آدھا گھنٹہ ورزش ہمیں ذیابیطس، موٹاپے اور دیگر بیماریوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ وزرش ذہنی دباؤ کو کم بھی کرتی ہے اور ہمیں ایک اچھی اور خوشگوار زندگی گزارنے میں مدد کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/BSIP/A. Benoist
نیند پوری کریں
اچھی نیند کا مطلب ہے کہ آپ اچھے موڈ کے ساتھ اٹھیں گے۔ ویب سائٹ ہیلتھ لائن کے مطابق نیند کے دوران جسم اپنے آپ کو اگلے دن کے لیے تیار کرتا ہے۔ نیند پوری کرنا موٹاپے سے بھی دور رکھتا ہے۔
تصویر: Colourbox
مثبت سوچنا
بعض اوقات مثبت سوچنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اپنے ذہن کی تربیت کی جا سکتی ہے۔ اگر اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ منفی خیال آتے ہی کچھ اچھا سوچنے کی کوشش کی جائے یا اپنے آپ کو کسی کام میں مصروف کر لیا جائے یا پھر کوئی کتاب پڑھنا شروع کر دی جائے تو منفی خیالات سے جان چھوٹ سکتی ہے۔
تصویر: Colourbox
اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزارنا
ہمارا بہت سا وقت دفتر میں یا اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیاں انجام دینے میں گزرتا ہے۔ ایسے میں ہم بہت قیمتی وقت اپنوں سے دور ہو کر گزارتے ہیں۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ ہم اپنے پیاروں کے ساتھ وقت گزاریں یہ لمحات ہماری زندگی کو معنی خیز بناتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/B.K. Bangash
اچھے کی امید
مثبت سوچ ہمارے اندر اچھے مستقبل کی امید پیدا کرتی ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ ماضی کو بھول جائیں، مستقبل کی فکر نہ کریں اور حال میں رہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Timkiv
8 تصاویر1 | 8
طویل العمری کا راز
مِینا ہیہن نے اپنی سالگرہ کے بعد جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو جو انٹرویو دیا، وہ ان کی زندگی کا پہلا انٹرویو تھا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ نا شراب پیتی ہیں، نا سگریٹ نوشی کرتی ہیں اور نا ہی چاکلیٹ کھاتی ہیں، ''میں کافی زیادہ کام کرتی ہوں، خود کو زندگی کے ساتھ مصروف رکھتی ہوں اور باقاعدگی سے سیر کے لیے جاتی ہوں۔‘‘
مِینا ہیہن کے بارے میں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ وہ گزشتہ تقریباﹰ 95 برسوں سے ہر روز صرف ایک ہی اخبار پڑھتی ہیں اور وہ بھی شروع سے لے کر آخر تک۔ ان کا یہ پسندیدہ اخبار ان کے آبائی شہر سے شائع ہونے والا روزنامہ 'اشٹٹ گارٹ نیوز‘ ہے۔
جرمنوں کو بہتر طور پر جانیے، وہ چیزیں جو ان کے لیے اہم ہیں!
جرمنی کا دفتر برائے شماریات گزشتہ چار برسوں سے ایک سروے کروا رہا ہے۔ اس میں جرمن شہریوں سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں اور وہ اپنی زندگی میں کیا کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ جرمن باشندوں کے جوابات کچھ یوں تھے۔
تصویر: picture-alliance/Chromorange/Bilderbox
اچھے دوست اور بہترین دوستی، 85 فیصد
گزشتہ چار برسوں کے دوران کرائے گئے اس سروے میں 14 برس سے زائد عمر کے شہریوں کو شامل کیا گیا تھا۔ پچاسی فیصد سے زائد جرمنوں کا کہنا تھا کہ ان کے لیے کسی نا کسی جگری دوست کا ہونا یا بہترین دوستی قائم رکھنا بہت ہی ضروری ہے۔
تصویر: Imago/imagebroker/theissen
خاندان، 80 فیصد
اس سروے میں شامل اسی فیصد جرمنوں کا کہنا تھا کہ ان کے لیے ان کا خاندان، خاندان سے جڑے رہنا یا خاندان کے لیے کام کرنا زیادہ اہم ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
شریک حیات کے ساتھ خوشگوار زندگی، 75 فیصد
سن دو ہزار سترہ میں پچھہتر فیصد جرمنوں کے لیے اپنے پارٹنر کے ساتھ خوشگوار زندگی گزارنا اہم تھا۔ تاہم سن دو ہزار بیس میں اس شرح میں تھوڑی سی کمی واقع ہوئی ہے، اب یہ شرح چوہتر فیصد بنتی ہے۔
تصویر: Colourbox/A. Smalenski
زندگی میں آزادانہ فیصلے، 70 فیصد
سن دو ہزار بیس میں ستر فیصد جرمنوں کا کہنا تھا کہ ان کے لیے آزادنہ فیصلے کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ سروے میں شامل ستر فیصد جرمنوں کا کہنا تھا کہ انہیں اپنی زندگی کا رخ خود متعین کرنے کی مکمل آزادی چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سماجی انصاف، 64 فیصد
سن دو ہزار بیس میں سماجی انصاف کا موضوع چونسٹھ فیصد جرمنوں کے لیے اہم تھا۔ سن دو ہزار سترہ میں یہ شرح پینسٹھ فیصد تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Dedert
پرلطف زندگی، 63 فیصد
ایسے جرمنوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے، جن کی ترجیح پرلطف زندگی گزارنا ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں یہ شرح تقریباﹰ انسٹھ فیصد تھی لیکن سن دو ہزار بیس میں یہ بڑھ کر تقریباﹰ تریسٹھ فیصد ہو گئی۔
تصویر: Fotolia/pressmaster
اولاد کی خواہش، 59 فیصد
سن دو ہزار سترہ میں سروے میں شامل انسٹھ فیصد جرمنوں کا یہی کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ ان کا کوئی بچہ ہو جبکہ سن دو ہزار بیس میں بھی جرمنوں کی اس خواہش میں کوئی بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wolfraum
ہر طرح کی مدد کے لیے تیار، 53 فیصد
سن دو ہزار سترہ میں تقریباﹰ چون فیصد جرمنوں کا کہنا تھا کہ وہ دوسروں کی ہر قسم کی مدد کے لیے تیار ہیں۔ سن دو ہزار بیس میں اس شرح میں کمی دیکھی گئی اور اب تقریباﹰ تریپن فیصد جرمن باشندے کسی بھی دوسرے انسان کی ہر طرح سے مدد کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Robert B. Fishman
کامیاب کیریئر، 52 فیصد
سروے میں شامل باون فیصد افراد کا کہنا تھا کہ ان کے لیے کامیاب کیریئر انتہائی اہم ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ اور انیس کے دوران جرمنوں میں کامیاب کیریئر کی خواہش اکاون فیصد تھی۔
تصویر: Fotolia/Jürgen Fälchle
کچھ نیا سیکھنے کا شوق، 48 فیصد
اس سروے میں شامل اڑتالیس فیصد جرمنوں کا کہنا تھا کہ نجی زندگی ہو یا پھر دفتری معاملات، وہ کچھ نا کچھ نیا سیکھنے کی تلاش میں رہتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Baumgarten
نئے تجربات، 44 فیصد
سن دو ہزار سترہ میں بیالیس فیصد جرمنوں کا کہنا تھا کہ وہ ایک ہی قسم کی روٹین سے تنگ آ چکے ہیں اور زندگی میں نئے تجربات کرنا چاہتے ہیں۔ سن دو ہزار بیس میں یہ شرح بڑھ کر تقریباﹰ چوالیس فیصد ہو گئی تھی۔
سن دو ہزار سترہ میں تقریباﹰ چالیس فیصد جرمنوں کے لیے دوسرے ممالک اور ان کی ثقافتوں کے بارے میں جاننا اہم تھا۔ تاہم کورونا وائرس اور سفری پابندیوں کے باوجود جرمنوں کی اس خواہش میں اضافہ ہی ہوا ہے اور اب بیالیس فیصد جرمن باشندے یہ خواہش رکھتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. El-Sahed
فطرت سے قربت، 42 فیصد
قدرتی ماحول میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی خواہش رکھنے والے جرمنوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ سن دو ہزار سترہ میں سروے میں شامل تقریباﹰ چالیس فیصد جرمن شہری قدرتی ماحول میں زیادہ وقت گزارنا پسند کرتے تھے جبکہ سن دو ہزار بیس میں یہ شرح بڑھ کر تقریباﹰ بیالیس فیصد ہو گئی۔
تصویر: Philipp von Ditfurth/dpa/picture-alliance
مذہب اور عقیدہ، 25 فیصد
سن دو ہزار بیس میں جن جرمن شہریوں کے انٹرویوز کیے گئے، ان میں سے پچیس فیصد کا کہنا تھا کہ مذہب اور عقیدہ ان کے لیے اہم ہے۔ سن دو ہزار سترہ اور انیس کے مقابلے میں اس شرح میں قدرے اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Jörg Carstensen/dpa/picture-alliance
سیاسی سرگرمیاں، 11 فیصد
سروے میں شامل گیارہ فیصد افراد نے اپنی زندگی میں سیاسی سرگرمیوں کو اہم قرار دیا۔ حالیہ تین برسوں کے دوران سیاسی معاملات میں دلچسپی لینے والے جرمنوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
تصویر: Matthey/Fotostand/picture alliance
15 تصاویر1 | 15
جرمنی میں 1913ء میں پیدا ہونے والی عورتوں کی اوسط عمر 60 سال تھی۔ لیکن مِینا اس اوسط عمر سے بھی تقریباﹰ نصف صدی زیادہ جی چکی ہیں۔
موت کا ڈر اور وطن سے محبت
اس سوال کے جواب میں کہ آپ کے لیے اپنا وطن کتنا اہم ہے، مِینا ہیہن نے کہا، ''بہت اہم۔ وطن صرف ملک ہی نہیں، آبائی شہر اور آبائی علاقہ بھی ہوتا ہے۔ وطن سے دور کچھ بھی اتنا خوبصورت نہیں ہوتا، جتنا وطن میں۔‘‘
بڑھاپے میں موت کے خوف سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ''موت کا خوف؟ نہیں، اتنا وقت نہیں ہوتا۔ انسان موت سے ڈرتا تب ہے جب زندگی اسے مسلسل مصروف اور جہد میں نا رکھے۔ میں خود کو اپنے معمولات میں مصروف رکھتی ہوں۔ اب تک تو مجھے موت کا ڈر نہیں ہے۔ کبھی بعد میں دوبارہ پوچھیے گا، ہوا تو میں بتا دوں گی۔‘‘
م م / ک م (ڈی پی اے)
زندگی کو مختصر کرنے والی چیزیں
طویل زندگی کی خواہش ہر کوئی کرتا ہے لیکن روزمرہ کی زندگی میں ہم کچھ ایسے کام کرتے ہیں، جن سے ہماری زندگی کے کچھ گھنٹے، کچھ دن یا کچھ سال کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ کہیں آپ بھی ایسا تو نہیں کر رہے؟
تصویر: lassedesignen/Fotolia
ٹیلی وژن
برطانوی جریدے اسپورٹس اینڈ میڈیسن کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک گھنٹہ ٹی وی دیکھنے سے آپ کی زندگی سے 22 منٹ کم ہو جاتے ہیں یعنی اگر آپ اوسطاً ہر روز چھ گھنٹے ٹی وی دیکھتے ہیں، تو آپ کی زندگی سے پانچ سال کم ہو سکتے ہیں۔
تصویر: Colourbox
جنسی تعلق
حال ہی میں ایک برطانوی طبی جریدے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مہینے میں ایک بار جنسی تعلق قائم کرنے والے مردوں کے جلد انتقال کر جانے کا خطرہ اُن مردوں کے مقابلے میں دوگنا ہوتا ہے، جو ہفتے میں ایک بار ایسا کرتے ہیں۔
تصویر: Fotolia/drubig-photo
نیند
سونا جسم کے لیے ضروری ہے لیکن بہت زیادہ سونے سے آپ کی عمر کم بھی ہو سکتی ہے۔ آٹھ گھنٹے سے زیادہ بستر پر پڑے رہنے سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ مطلب یہ کہ باقاعدگی سے نیند ضرور لیں، لیکن آٹھ گھنٹے سے زیادہ نہیں۔
تصویر: Gina Sanders - Fotolia
صرف بیٹھے رہنا
کیا آپ کو دفتر میں کئی گھنٹے بیٹھنا پڑتا ہے؟ JAMA (جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن) کی انٹرنل میڈیسن کی تحقیق کے مطابق دن میں گیارہ گھنٹے بیٹھنے سے موت کا خطرہ 40 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔ کام کے درمیان میں وقفے لیں اور ہو سکے تو کچھ دیر کھڑے رہ کر کام کریں۔
تصویر: Fotolia/F. Prochasson
اکیلا پن
انسان کے لیے کسی کا ساتھ، کسی سے بات چیت کرنا ضروری ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ذہنی دباؤ سے دور رہنے کے لیے اکیلے ہی رہنا پسند کرتے ہیں لیکن دراصل وہ خود کو دنیا کی خوشی سے محروم کر رہے ہیں۔ ڈپریشن عمر کم ہونے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
تصویر: Fotolia/Artem Furman
بے روزگاری
حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، جس میں 15 ممالک کے 40 سال کی عمر تک کے دو کروڑ افراد کا مشاہدہ کیا گیا، بے روزگار افراد کے اچانک موت کا شکار ہو جانے کا خطرہ ملازمت پیشہ افراد کے مقابلے میں 63 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔
تصویر: Fotolia/Paolese
ورزش
جسم کے لیے ورزش انتہائی ضروری ہے لیکن صرف شوق کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ ورزش کرنا نقصان دہ ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ ڈاکٹر یا ٹرینر کی رائے کے مطابق ورزش کی جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
لمبی چھٹی
یہ صحیح ہے کہ اپنے جسم کو آرام دینے کے لیے آپ کو کام سے وقفے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بہت زیادہ آرام نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ کام کے بعد بہت لمبا آرام مدافعتی نظام کو کمزور بھی کر دیتا ہے۔