دو ہزار چالیس تک جرمن آبادی میں اضافہ صفر اعشاریہ چھ فیصد
13 اپریل 2024
یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی کی آبادی میں سن دو ہزار چالیس تک محض صفر اعشاریہ چھ فیصد تک کا معمولی اضافہ متوقع ہے۔ یہ بات بیرٹلزمان فاؤنڈیشن کے ایک تازہ مطالعاتی جائزے کے نتیجے میں سامنے آئی۔
اشتہار
وفاقی دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق جرمنی کے ایک معتبر اور بڑے غیر سرکاری ادارے بیرٹلزمان فاؤنڈیشن کی طرف سے کرائے گئے ایک مطالعاتی جائزے سے پتہ چلا ہے کہ اول تو آئندہ 15 برس کے بعد تک جرمنی کی مجموعی آبادی میں اضافہ بہت ہی معمولی ہو گا۔ دوسرے یہ کہ یہ اضافہ بھی جرمنی کی آبادی کے لحاظ سے مختلف چھوٹی بڑی وفاقی ریاستوں میں بہت غیر متوازن ہو گا۔
اس اسٹڈی رپورٹ کے مصنفین کے مطابق موجودہ وفاقی جمہوریہ جرمنی کے مغرب میں فرانس کے ساتھ سرحد پر واقع چھوٹی سی وفاقی ریاست زارلینڈ اور ملک کے مشرق میں آسٹریا، چیک جمہوریہ اور پولینڈ کے ساتھ ملنے والی قومی سرحدوں پر واقع وفاقی صوبوں میں مقامی آبادی 2020ء کے مقابلے میں 2040ء تک کم ہو جائے گی۔
اکتوبر 1990ء میں ماضی کی دونوں جرمن ریاستوں (مشرقی حصے پر مشتمل جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک یا جی ڈی آر اور مغربی حصے پر مشتمل وفاقی جمہوریہ جرمنی) کے اتحاد کے بعد سے موجودہ جرمن ریاست 16 وفاقی صوبوں پر مشتمل ہے۔
اشتہار
ان میں سے تین ایسے شہر ہیں، جو وفاقی صوبے بھی ہیں اور شہری ریاستیں کہلاتے ہیں۔ یہ جرمن سٹی اسٹیٹس وفاقی دارالحکومت برلن، شمالی بندرگاہی شہر ہیمبرگ اور ملک کے شمال ہی میں واقع بندرگاہی شہر بریمن ہیں۔
بیرٹلزمان فاؤنڈیشن کی اسٹڈی کے مطابق تینوں شہری ریاستوں کو نکال کر باقی 13 وفاقی صوبوں میں رواں صدی کے اگلے عشرے کے اختتام تک آبادی میں ہونے والی تبدیلی حیران کن حد تک متنوع اور غیر متوازن ہو گی۔
مثلاﹰ 2040ء تک جنوب مغربی صوبے باڈن ورٹمبرگ کی آبادی میں تو 4.6 فیصد تک اضافہ ہو جائے گا مگر مشرقی جرمن صوبے سیکسنی انہالٹ کی آبادی میں تب تک 12.3 فیصد کی کمی ہو چکی ہو گی۔
شہری ریاستوں کی آبادی میں اضافہ زیادہ
اس مطالعاتی جائزے کے مطابق 2040ء تک جرمنی کی شہری ریاستوں کی آبادی میں اضافہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں واضح طور پر زیادہ ہو گا۔ مثلاﹰ تب تک برلن کی آبادی میں 5.3 فیصد اور ہیمبرگ کی آبادی میں 3.5 فیصد اضافہ ہو چکا ہو گا۔
ان دونوں صوبوں کے مقابلے میں آج سے قریب سولہ برس بعد تک وفاقی جرمنی کی تیسری شہری ریاست بریمن کی آبادی میں ہونے والا اضافہ کم ہو گا، جو 1.1 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ بریمن اپنی آبادی کے لحاظ سے ویسے بھی برلن اور ہیمبرگ سے کافی چھوٹا صوبہ ہے۔
ماہرین نے یورپی یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک جرمنی کی آبادی میں ان آئندہ تبدیلیوں کا اندازہ شرح پیدائش، شرح اموات اور جرمنی میں تارکین وطن کی آمد اور رخصتی کی سالانہ شرحوں کو مد نظر رکھتے ہوئے لگایا۔
وفاقی دفتر شماریات کے مطابق 2020ء میں جرمنی کی مجموعی آبادی 83.15 ملین تھی۔
م م / ش ر (ڈی پی اے، اے ایف پی)
جرمنی میں فلیٹ کرائے پر چاہیے؟ تو یہ باتیں ذہن نشیں کر لیں
جرمنی میں کرائے کے گھروں میں رہنے کا رواج دیگر یورپی ممالک سے زیادہ ہے۔ اس ملک کی 48 فیصد آبادی کرائے کے مکانوں میں رہتی ہے۔ جرمنی میں کرائے پر کوئی جگہ لینے سے قبل کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ دیکھتے ان تصاویر میں
تصویر: picture-alliance/Wolfram Steinberg
کرائے کی بیرکس
یہ برلن کے علاقے پرینزلاؤر برگ کے علاقے کی ایک عمارت ہے۔ 1990ء کے دور تک اس طرح کے اکثر فلیٹ خالی رہتے تھے تاہم اب لوگوں کی دلچسپی ایک مرتبہ پھر ایسی پرانی عمارتوں میں بڑھ رہی ہے۔ ایسی عمارتوں کو ’الٹ باؤ‘ یا پرانی بلڈنگ کہتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/ZB
پلاٹن باؤ
سابقہ مشرقی جرمنی میں تقریباً تمام ہی مکانوں کو کرائے پر دینے کا اختیار حکومت کے پاس ہی تھا۔ اس کمیونسٹ ریاست میں ’پلاٹن باؤ‘ ، جنہیں کنکریکٹ کی سلوں سے بننے ہوئے گھر بھی کہا جا سکتا ہے، ہر جگہ دکھائی دیتے تھے۔ ’الٹ باؤ‘ کے مقابلے میں لوگ ان میں رہنے کو فوقیت دے رہے ہیں کیونکہ ان میں تمام جدید سہولیات موجود ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے کرائے بھی قدرے کم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Burgi
بالکنی
2015ء کے ایک جائزے کے مطابق اڑتالیس فیصد جرمن کرائے کے گھروں جبکہ 52 فیصد اپنے گھروں میں رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے فلیٹس میں رہناپسند کرتے ہیں، جن کی بالکنی ہو۔ کچھ لوگ اپنی بالکنی میں بار بی کیو کرتے ہیں یا اسے ایک بیٹھک کے طور پر استعمال کرتے ہیں جبکہ کچھ اسے پھولوں اور پودوں سے سجا دیتے ہیں۔
جرمنی کے کچھ شہروں اور خاص طور پر برلن میں اکثر عمارتوں کے درمیان ایک بڑا سا صحن موجود ہوتا ہے، جس کا کام دو بلڈنگوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا بھی ہوتا ہے۔ اسے ایک ایسی منفرد جگہ بھی کہا جاتا ہے، جہاں علاقے کے رہائشی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ یہاں پر سائیکلیں بھی کھڑی کی جاتی ہیں جبکہ کچرے دان بھی رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZB/M. Krause
نمبر کے بجائے نام
جرمنی میں ہر عمارت کے باہر اس کا نمبر لکھا ہوتا ہے تاہم بلڈنگ میں رہنے والوں کی نشاندہی ان کے فلیٹ نمبروں سے نہیں بلکہ ان کے ناموں سے ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایک فلیٹ میں مل کر رہنا
جرمنی میں فلیٹ شیئرنگ کو ’WG‘ کہا جاتا ہے۔ اس طرح کسی بھی فلیٹ یا مکان کو کرائے پر لے کر کئی افراد کمرے آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ خاص طور یہ یہ نظام کرائے میں اضافے کی وجہ سے بڑے شہروں میں بہت زیادہ فروغ پا رہا ہے۔ ہوسٹل میں جگہ نہ ملنے پر اکثر طالب علم فلیٹ شیئرنگ کرتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
چھوڑنے سے پہلے رنگ و روغن
جرمنی میں کرائے کے مکان کے حوالے سے ایک اور روایت یہ ہے کہ گھر چھوڑنے سے پہلے آپ کو اس کی دیواروں پر سفید رنگ کرنا ہوتا ہے تاکہ نئے کرائے دار کو فلیٹ صاف ستھرا ملے۔ تاہم دوسری جانب مالک مکان اور کرائے داروں کے مابین ایسے معاہدے بھی ہوتے ہیں، جن میں رنگ کرنا لازمی نہیں ہوتا۔
تصویر: picture alliance/Denkou Images
باورچی خانہ
جرمنی کے کچھ شہروں میں کرائے کے گھروں میں باورچی خانہ اور برتن موجود نہیں ہوتے۔ اس طرح کرائے دار کو یہ تمام چیزیں خود ہی خریدنی پڑتی ہیں۔ اکثر گھر چھوڑنے والا شخص یہ تمام چیزیں نئے آنے والے کو کم قیمت میں فروخت بھی کر دیتے ہیں اور اس طرح نئے کرائے دار کے وقت اور پیسے دونوں کی بچت ہو جاتی ہے۔
تصویر: DW/S. Braun
چھوٹے چھوٹے غسل خانے
جرمنی میں موجود پرانے طرز پر تعمیر عمارتوں میں موجود فلیٹس میں اکثر غسل خانے نہیں ہوا کرتے تھے۔ ایسی عمارتوں میں بعد میں نہانے کے لیے جگہیں بنائی گئیں اور اس کے لیے کوئی چھوٹی اور بچی کچی جگہ کا انتخاب کیا گیا۔ کئی عمارتیں تو ایسی ہیں، جہاں کسی بڑے کمرے کو ہی غسل خانے میں بدل دیا گیا۔ برلن کی ایک عمارت میں یہ ’شاور‘ باورچی خانے کے ایک کونے میں بورڈ لگا کر تعمیر کیا گیا ہے۔
تصویر: DW/S. Braun
ہر کمرہ خواب گاہ نہیں
جرمنی میں کرائے کے اشتہار میں عام طور پر مکان کا رقبہ اور کمروں کی تعداد لکھی جاتی ہے۔ اس میں بیڈ روم اور ڈرائنگ روم کے علاوہ باورچی خانے اور غسل خانے کی الگ الگ تفصیلات شامل ہوتی ہیں۔ میونخ، فرینکفرٹ اور شٹٹگارٹ میں فلیٹس کے کرائے بہت مہنگے ہیں۔