پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک ماہ سے جاری حکومت مخالف دھرنوں میں شریک سینکڑوں مظاہرین کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔
اشتہار
سابق کرکٹر عمران کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے ایک رہنما جہانگیر ترین نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب پولیس نے چھاپے مار کر ان کی جماعت کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا ہے۔ جمعہ 12 ستمبر کو شروع ہونے والے چھاپوں کو یہ سلسلہ آج ہفتے کے روز بھی جاری رہا۔
اسلام آباد میں احتجاجی دھرنے
اسلام آباد میں پاکستان کی دو اپوزیشن جماعتیں اپنے ہزارہا کارکنوں کے ہمراہ وزیراعظم نواز شریف کے استعفے کے مطالبے کے ساتھ دھرنے دیے ہوئے ہیں۔ 30 اور 31 اگست کی درمیانی شب پولیس نے ان مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔
تصویر: DW/S. Raheem
دھاوا بولنے والے شناخت
دھرنے کے دوران پاکستان عوامی تحریک کے بے قابو مظاہرین پاکستان ٹیلی وژن کی عمارت کے اندر بھی داخل ہو گئے، جس کے بعد پی ٹی وی کی نشریات کچھ دیر کے لیے منقطع ہو گئیں۔ تاہم کچھ ہی دیر کے بعد فوج پہنچ گئی اور یہ مظاہرین پُر امن طور پر پی ٹی وی کے احاطے سے باہر آ گئے۔ مقامی میڈیا کے مطابق حکومت کا کہنا ہے کہ دھاوا بولنے والوں میں سے ستِّر کے قریب افراد کو شناخت کر لیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
عمارتیں فوج کے حوالے
اس احتجاج کے موقع پر حکومت نے اہم سرکاری عمارتوں کے تحفظ کی ذمہ داری پاکستانی فوج کو سونپ دی تھی۔ یہ فوجی مختلف مقامات پر پہرہ دیتے اور گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ مظاہرین کی طرف سے پاکستان ٹیلی وژن کی عمارت پر دھاوے کے بعد نشریات کچھ دیر کے لیے منقطع ہو گئی تھیں۔ بعد ازاں فوج نے اس اہم عمارت کا کنٹرول سنبھال لیا۔
تصویر: Reuters
طاقت کا استعمال، سینکڑوں افراد زخمی
اسلام آباد میں ہفتے کی شب پولیس نے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔ اس موقع پر ڈھائی سو سے زائد افراد زخمی ہوئے، جنہیں مختلف ہسپتالوں میں داخل کیا گیا۔
تصویر: Reuters
پرامن دھرنے سے پرتشدد احتجاج تک
گزشتہ دو ہفتوں سے زائد عرصے سے جاری یہ دھرنے 30 اور 31 اگست کی درمیانی شب پرتشدد واقعے میں اس وقت تبدیل ہو گئے، جب پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال کے بعد مظاہرین نے بھی پولیس پر پتھراؤ شروع کر دیا۔ ان واقعات میں اب تک تین افراد ہلاک جب کہ دو سو سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters
سکیورٹی فورسز کی کارروائی
دھرنوں کی وجہ سے اسلام آباد میں اہم عمارتوں کی حفاظت کے لیے پولیس کی بھارت نفری طلب کی گئی تھی۔ مظاہرین کی جانب سے اہم عمارتوں کی جانب بڑھنے پر پولیس نے طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
مظاہرین پر آنسو گیس کا استعمال
ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب پارلیمان کی عمارت اور وزیراعظم ہاؤس کی جانب بڑھنے کی کوشش کرنے والے مظاہرین کے خلاف پولیس کی جانب سے آنسو گیس کا استعمال کیا گیا جب کہ ربر کی گولیاں چلائی گئیں۔
تصویر: Reuters
پنجاب پولیس کارروائی میں پیش پیش
مظاہرین سے نمٹنے کے لیے دارالحکومت کی پولیس کی مدد کے لیے وزارت داخلہ نے صوبہ پنجاب کی پولیس سے بھی مدد طلب کی تھی۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
مظاہرین کی جانب سے بھی پتھراؤ
پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور ربر کی گولیوں کے استعمال کے بعد مظاہرین نے بھی لاٹھیوں اور پتھروں کا استعمال کیا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
مظاہرین اور پولیس میں آنکھ مچولی
طاقت کے استعمال کے باوجود مظاہرین منتشر اور پھر جمع ہوتے رہے۔ سیکورٹی فورسز نے اہم عمارتوں تک جانے والے تمام راستوں کو بڑے بڑے کنٹینرز رکھ کر بند کر دیا گیا تھا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
عوامی تحریک اور محفل سماع
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ اور مذہبی رہنما طاہر القادری کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد اس دھرنے میں شریک ہے۔ گاہے بگاہے یہاں محفل سماع کا بھی اہتمام کیا جاتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پارلیمان کا ’تقدس‘
پاکستانی حکومت اور فوج دونوں نے کہ رکھا تھا کہ وہ پارلیمان اور دیگر اہم ریاستی اداروں کے تقدس کو یقینی بنائیں گے۔ اس لیے ایسی عمارتوں کے باہر سکیورٹی اہلکاروں کی بھاری نفری تعینات تھی۔
تصویر: DW/S. Raheem
احتجاج کے ساتھ میلہ بھی
پارلیمان کے سامنے شاہراہ دستور جسے اہم عمارات کی موجودگی کی وجہ سے انتہائی حساس علاقہ سمجھا جاتا ہے، وہاں گزشتہ دو ہفتوں سے وہاں مظاہرین چلتے پھرے نظر آتے رہے اور ایک میلے کا سا سماں رہا۔
تصویر: DW/S. Raheem
عوامی تحریک کی کرین
مظاہروں کو ریڈ زون میں داخلے سے روکنے کے لیے اس علاقے کو بڑے بڑے کنٹینرز رکھ کر بند کر دیا گیا تھا، تاہم عوامی تحریک اپنے ہمراہ لاہور سے ایک کرین ساتھ لیے ہوئے تھی، جس کے ذریعے ان کنٹینروں کو بآسانی راستے سے ہٹا دیا گیا اور لوگ ریڈ زون میں داخل ہو گئے۔
تصویر: DW/S. Raheem
گرمی بھی دھرنا بھی
احتجاجی خطابات عموماﹰ شام کے وقت ہوتے رہے، جب کہ باقی سارا دن یہ دھرنا دیے ہوئے مظاہرین موسم کی شدت سے بچنے کے لیے کہیں چھتریوں کی آڑ میں نظر آتے رہے ہیں اور کہیں ٹرکوں ہی کو سائبان کیے دِکھتے رہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
مقامی میڈیا کی بازی گری
مقامی ٹی وی چینلز بریکنگ نیوز کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے بھی کام لے رہے ہیں، جن میں کیمروں کے حامل ڈرونز کا استعمال بھی شامل ہے، جس کے ذریعے جلسے میں مظاہرین کی تعداد اور فضائی منظر کی مدد سے عوام کو لمحے لمحے کی خبر دینے کی تگ و دو دیکھی جا سکتی ہے۔
تصویر: DW/S. Raheem
15 تصاویر1 | 15
دوسری طرف حکومت مخالف عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے بھی پولیس پر اپنے حامیوں کی گرفتاریوں کا الزام عائد کیا ہے۔ طاہر القادری نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حکومت کا خاتمہ بہت قریب ہے۔
اسلام آباد کے انتہائی حساس علاقے ریڈ زون میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری گزشتہ ایک ماہ سے اپنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کا الزام ہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف گزشتہ برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں دھاندلی کے باعث اقتدار میں آئے تھے۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جب تک نواز شریف اپنے عہدے سے استعفےٰ نہیں دیتے اور دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے علاوہ انتخابی اصلاحات نہیں کی جاتیں وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ اس صورتحال کے باعث 180 ملین سے زائد آبادی والا یہ ملک سیاسی جمود کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔
عدالت کی طرف سے گرفتار مظاہرین کو جیل بھیجنے کا حکم
دوسری طرف اسلام آباد کی ایک عدالت نے اپوزیشن کے گرفتار شدہ 100 کارکنوں کو دو ہفتوں کے لیے جیل بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ ان کارکنوں کو غیر قانونی مظاہروں کے الزام میں جیل بھیجنے کا حکم سنایا گیا ہے۔ اس عدالتی حکم کے بعد مظاہرین اور پولیس کے درمیان صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سینکڑوں افراد نے اسلام آباد کی اس عدالت کے باہر جمع ہو گئے۔ بعض مظاہرین نے اس موقع پر پولیس کی ایک ویگن کو آگ لگنے کے علاوہ ٹائر جلا کر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ یہ مظاہرین ’گو نواز گو‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ تاہم قریب ڈھائی گھنٹے تک وہاں احتجاج کرنے کے بعد یہ مظاہرین پر امن طور پر منتشر ہو گئے۔
کوئٹہ میں کار بم دھماکا، تین افراد ہلاک
ادھر پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں آج صبح ہونے والے ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم تین افراد ہلاک جبکہ 24 دیگر زخمی ہو گئے۔
پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار عبدالرزاق چیمپ نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ کوئٹہ کے ایک بازار میں یہ دھماکا اس وقت ہوا جب سکیورٹی فورسز کی ایک گاڑی وہاں سے گزر رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک پیراملٹری اہلکار جبکہ دو عام شہری ہیں۔ عبدالرزاق کے مطابق دھماکے کے وقت بازار کی زیادہ تر دکانیں بند تھیں، ورنہ بہت زیادہ جانی نقصان ہو سکتا ہے۔
اس حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی۔ حکام کے مطابق ذمہ داروں تک پہنچنے کے لیے تفتیش کا عمل جاری ہے۔