میانمار سے ہجرت کر کے بنگلہ دیش پہنچنے والے دہشت زدہ روہنگیا بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے کے لیے مسخرے اپنی ناک پر گول رنگین فوم چڑھائے مہاجر بستیوں میں پھرتے نظر آتے ہیں۔
اشتہار
اپنے عزیزوں کی ہلاکتیں، اپنے گھر بار جل جانے اور اپنے علاقے سے فرار ہو کر بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا باشندوں کے ساتھ وہ بچے بھی شامل ہیں، جن کے چہروں پر ایک گھنی اداسی اور دہشت ہے اور جنہیں دیکھ کر بالکل نہیں لگتا کہ وہ مسکرا بھی سکتے ہیں۔ مگر رنگین چہروں والے مسخروں کی کرتب بازیاں اور اٹھ کھیلیاں ان اداس بچوں کو قہقہے بانٹ رہی ہیں۔
25 اگست سے میانمار کی ریاست راکھین میں جاری عسکری آپریشن کے بعد سے چھ لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش پہنچے ہیں اور یہاں ایک مہاجرین بستی ایسی بھی ہے، جسے دنیا کی سب سے بڑی مہاجر بستی قرار دیا جا رہا ہے۔
مہاجر بستیوں میں یہ مسخرے ان بچوں کو وہ کچھ لوٹا رہے ہیں، جو ان کے چہروں کی حقیقی زینت اور ان کی اصل ضرورت ہے، یعنی مسکراہٹیں اور ہنسی۔
کوٹوپالونگ مہاجر بستی سمیت متعدد دیگر مہاجر کیمپوں میں ہزارہا روہنگیا بچے موجود ہیں، جنہیں خوراک، پینے کے صاف پانی اور سر چھپانے کی جگہ کی اشد ضرورت ہے، مگر مسکراہٹ کی ضرورت شاید سب سے زیادہ ہے۔
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
8 تصاویر1 | 8
محمد نور کوٹوپالونگ کی عارضی خیمہ بستی میں اپنی والد اور تین بہن بھائیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ اس کیمپ میں غذا اور پینے کے پانی کی شدید قلت ہے۔ یہ دس سالہ لڑکا اپنے اس خاندان کے ساتھ گزشتہ ماہ بنگلہ دیش پہنچا۔ اس کے والد راکھین میں جاری تشدد میں مارے گئے، جسے اقوام متحدہ ’نسل کشی‘ قرار دیتی ہے۔
راکھین میں خوف، دہشت، تشدد اور حملوں کے تناظر میں بنگلہ دیش کی یہ گرد آلود، کیچڑ زدہ اور بھوک اور پیاس سے لتھڑی مہاجر بستی بھی بہتر معلوم ہوتی ہے۔
اس بستی میں چار مسخرے اپنے چہروں پر مختلف رنگ جمائے، رنگین لباس پہنے مستیاں کر رہے ہیں اور لوگوں کا ایک ہجوم وہاں جمع ہے۔ محمد نور کا اس موقع پر کہنا تھا، ’’یہ بہت مزاحیہ ہے۔ میں نے پہلے کبھی ایسا نہیں دیکھا تھا۔ میں بس ہنس ہنس کا لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔‘‘
بنگلہ دیش پہنچنے والے روہنگیا مہاجرین کے مصائب
03:12
بنگلہ دیش کے کئی تھیٹر گروپس ’ڈرامہ تھراپی‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے مشکل ترین صورت حال میں پرفارم کرنے کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اور اب ایسے ہی مختلف گروپ مہاجر بستیوں میں جا جا کر لوگوں میں قہقہے بانٹ رہے ہیں۔