1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردانہ حملوں میں کمی، ’وجہ آپریشن ضرب عضب‘

عاطف بلوچ5 ستمبر 2016

سن دو ہزار پندرہ میں پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ ناقدین کے بقول اس کی وجہ آپریشن ضرب عضب اور خفیہ اداروں کا چوکنا ہونا ہے۔

Pakistan Karachi Terror-Anschlag auf Sicherheitsteam für Polio Impfung
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

سن دو ہزار پندرہ میں جہاں عالمی سطح پر دہشت گردانہ حملوں میں کمی واقع ہوئی ہے، وہیں پاکستان میں بھی ایسے حملوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں اگرچہ دہشت گردانہ حملوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے تاہم وہ زیادہ خطرناک ثابت ہوئے ہیں۔ سن دو ہزار چودہ کے مقابلے میں سن دو ہزار پندرہ کے دوران ہوئے فی حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی زیادہ رہی ہے۔

پاکستان کے معروف صحافی سلیم صافی کے بقول پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کی تعداد میں کمی ایک اہم پیشرفت ہے جبکہ سکیورٹی اداروں کے فعال کردار کے باعث مستقبل میں ان میں مزید کمی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان حملوں میں کمی کی بڑی وجہ عرب ممالک سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کی شام، عراق یا اپنے ممالک میں واپسی بھی ہے۔

سلیم صافی نے بتایا کہ سن دو ہزار سات اور آٹھ میں پاکستان میں بہت زیادہ حملے ہوئے لیکن جب سے شام و عراق میں داعش فعال ہوئی، تب سے بہت سے غیر ملکی اور عرب جنگجوؤں کو ایک نیا محاذ مل گیا ہے اور وہ پاکستان چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

سلیم صافی نے اس تناظر میں پاکستانی فوج کے کردار کو بھی سراہا۔ انہوں نے ان حملوں میں کمی کے لیے آپریشن ضرب عضب کو اہم قرار دیا اور کہا کہ شہری علاقوں میں خفیہ اداروں کی طرف ’کومبنگ کارروائی‘ نے بھی ایسے حملوں کی روک تھام میں اہم کردار کیا۔

سلیم صافی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ داعش نے پاکستان اور افغانستان میں بھی قدم جمانے کی کوشش کی اور کر رہی ہے لیکن یہ انتہا پسند تنظیم اس ریجن میں کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح داعش کو عرب ممالک میں پذیرائی ملی ہے، وہ انہیں پاکستان یا افغانستان میں نہیں مل سکی ہے۔ اس تناظر میں انہوں نے پاکستانی سکیورٹی فورسز کی طرف سے کی جانے والی کارروائیوں کو بھی اہم قرار دیا۔

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار پندرہ کے دوران پاکستان میں مجموعی طور پر ایک ہزار نو حملے ہوئے جبکہ سن دو ہزار چودہ میں ایسے حملوں کی تعداد ایک ہزار آٹھ سو تئیس تھی۔ ان اعدادوشمار کے مطابق ایک سال کے عرصے میں ہی ان حملوں میں مجموعی طور پر 45 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں کیے گئے ان حملوں میں ہلاک شدگان کی تعداد سترہ سو اکسٹھ تھی جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد 39 فیصد کم ہو کر ایک ہزار اکاسی ہو گئی۔

سلیم صافی کے مطابق گزشتہ برس ہونے والے دہشت گردانہ حملے اس لیے زیادہ خطرناک ثابت ہوئے کیونکہ اب جنگجو کمزور ہو چکے ہیں اور وہ کسی علاقے پر قبضہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، اس لیے وہ زیادہ لوگوں کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے اب جنگجوؤں نے اپنے حملوں کو زیادہ ’مؤثر‘ بنانے کی کوشش شروع کر دی ہے اور جو حملہ آور ہوتا ہے، اس کی بہت اچھے طریقے سے تربیت کی جاتی ہے۔

دوسری طرف گزشتہ برس کے دوران افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ طالبان کی شورش سے تباہ حال اس ملک میں سن دو ہزار چودہ کے مقابلے میں سن دو ہزار پندرہ میں دہشت گردانہ حملوں میں 127 فیصد اضافہ ہوا۔

سن دو ہزار پندرہ کے دوران پاکستان میں مجموعی طور پر ایک ہزار نو حملے ہوئے جبکہ سن دو ہزار چودہ میں ایسے حملوں کی تعداد ایک ہزار آٹھ سو تئیس تھیتصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

پاکستان میں ایسے حملوں میں کمی کے باوجود امریکا کی طرف سے ’ڈو مور‘ کے مطالبے پر سلیم صافی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان بھی واشنگٹن حکومت سے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کے ہی اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں کمی واقع ہوئی ہے، اس لیے اس طرح کے مطالبات مناسب نہیں ہیں۔

سلیم صافی نے الزام عائد کیا کہ افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ ماضی میں امریکا کی غلط پالیسیاں ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے عراق جنگ کا تذکرہ بھی کیا، جس سے مبینہ طور پر داعش نے جنم لیا۔

امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سن دو ہزار چودہ کے مقابلے میں گزشتہ برس دہشت گردانہ حملوں میں تیرہ فیصد جبکہ ایسے حملوں میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد میں چودہ فیصد کمی نوٹ کی گئی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں