دہشت گردانہ واقعات ميں بچ جانے والے کيسی زندگياں گزارتے ہيں؟
عاصم سلیم
14 جنوری 2018
دنيا کے مختلف ممالک میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں ميں بال بال بچ جانے والے افراد، فنکار اور صحافی ڈنمارک کے دارالحکومت ميں ملے اور انہوں نے اس عزم کا اظہار کيا کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے ليے جدوجہد جاری رکھيں گے۔
اشتہار
فرانسيسی طنزيہ جريدے شارلی ايبدو سے منسلک ايک خاتون صحافی زينب الغزوی نے کہا ہے کہ جب تک دہشت گردانہ کارروائيوں سے متاثرہ لوگ خاموش رہيں گے، ايسے عوامل کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے ليے خطرات بڑھتے رہيں گے۔ الغزوی سات جنوری سن 2015 کے اس روز چھٹی پر تھيں، جب فرانسيسی دارالحکومت پيرس ميں جہاديوں نے ان کے دفتر پر حملہ کرتے ہوئے بارہ افراد کو ہلاک کر ديا تھا۔ دہشت گردانہ حملوں ميں بال بال بچ جانے والے افراد کے کوپن ہيگن ميں چودہ جنوری کو منعقدہ ايک اجتماع کے موقع پر انہوں نے کہا، ’’جب ہم ميں سے زيادہ سے زيادہ لوگ اپنی آواز بلند کريں گے اور اپنی آزادی کا دفاع کريں گے، تو کچھ افراد کے ليے خطرہ کم ہو گا۔‘‘
اس اجتماع ميں شريک سويڈش کارٹونسٹ لارس ولکس نے بھی کہا کہ اگر انہوں نے اپنا کام ترک کر ديا تو اس سے کچھ حاصل نہيں ہو گا۔ ولکس وہی فنکار ہيں، جنہوں نے سن 2007 ميں پيغمبر اسلام سے متعلق ايک خاکہ بنايا تھا۔ ان کے اس عمل کے بعد کئی مسلم اکثریتی ملکوں ميں احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گيا تھا۔ سويڈش فنکار ولکس کو قتل کرنے کی کئی مرتبہ کوشش کی جا چکی ہے۔ آخری مرتبہ وہ 2015ء ميں کوپن ہيگن ہی ميں ’فن، توہين مذہب اور آزادی‘ کے عنوان تلے ہونے والی ايک کانفرنس ميں شريک تھے کہ انہيں مارنے کی کوشش کی گئی ليکن وہ بچ نکلے۔
صحافی زينب الغزوی اور کارٹونسٹ لارس ولکس، دونوں ہی کافی پيچيدہ زندگياں گزار رہے ہيں۔ ہر وقت ان کے ارد گرد محافظ دکھائی ديتے ہيں اور انہيں ہر دن اپنی مصروفيات طے کرتے وقت محافظوں سے مشورے لينے پڑتے ہيں۔
دوسری جانب ايسے دہشت گردانہ حملوں ميں بچ جانے والے کچھ افراد اپنی سرگرمياں ترک بھی کر ديتے ہيں۔ پيٹرک پسکوٹ صرف اٹھارہ برس کے تھے، جب ناورے سے تعلق رکھنے والے نيو نازی آندريس بيہرنگ نے جولائی سن 2011 ميں ايک مقام پر حملہ کرتے ہوئے 77 افراد کو ہلاک کر ديا تھا۔ انہوں نے کہا، ’’اگر آپ ايسے کسی واقعے ميں بچ جاتے ہيں، تو يہ آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ اپنے طريقے سے اس تجربے کو پيچھے چھوڑيں۔ اپنی زندگی تبديل کرنے کی کنجی آپ ہی کے پاس ہوتی ہے۔‘‘ پسکوٹ نے اس واقع کے بعد اپنی سياسی سرگرمياں ترک کر دی تھيں۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2017 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کےشکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست ہے۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے قریب تین ہزار واقعات پیش آئے جن میں قریب 10 ہزار افراد ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا جہاں قریب ساڑھے تیرہ سو دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انسان ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد، اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم رہی۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.44 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 9.00 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 466 دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سن 2014 میں ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2016 میں دہشت گردی کے 366 واقعات رونما ہوئے جن میں اکیس سو انسان ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.6 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 736 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے نو سو افراد ہلاک اور سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان، داعش کی خراسان شاخ اور لشکر جھنگوی نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی جس کی ایک اہم وجہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب نامی فوجی آپریشن بنا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 366 واقعات میں قریب ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔
تصویر: Reuters/F. Salman
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ ساتویں نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ الشباب کے شدت پسندوں نے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.6 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت بھی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جہاں دہشت گردی کے نو سو سے زائد واقعات میں 340 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن 2015 کے مقابلے میں اٹھارہ فیصد زیادہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2016ء میں لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں میں پانچ بھارتی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
ترکی
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ترکی پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ترکی میں 364 دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد افراد ہلاک اور قریب تئیس سو زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے۔ لیبیا میں بھی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں لیبیا کا اسکور 7.2 رہا۔