1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ ساتھ، عوام پریشان

فرید اللہ خان، پشاور12 فروری 2014

پاکستانی شہر پشاور میں آج صبح عسکریت پسندوں نے ایک طالبان مخالف ملیشیا کے رہنما کے گھر میں گھس کر نو افراد کو ہلاک کر دیا۔ پشاور میں گزشتہ دو دنوں کے دوران دہشت گردانہ حملوں میں 22 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

تصویر: A Majeed/AFP/Getty Images

پاکستانی حکومت اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، دوسری جانب دہشت گردی کے واقعات میں بھی مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ یہ صورتحال خیبر پختونخوا اور قبائلی عوام کے لیے انتہائی تشویش کاباعث ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کی رُو سے سال رواں کے پہلے 42 دن کے دوران پشاور میں دہشت گردی کے23 واقعات رونماء ہوئے جن میں 298 افراد ہلاک جبکہ ساڑھے چار سو سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ سال رواں کے دوران خود کش حملوں اور بم دہماکوں کے ساتھ ساتھ اب سنیما گھروں اور امن کمیٹیوں کے رضاکاروں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔

دوسری طرف کالعدم تحریک طالبان نے پشاور سمیت صوبے کے کئی دیگر علاقوں میں رونماء ہونیوالے واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کا کہنا ہے کہ ان دھماکوں میں ملوث افراد کی تلاش کرنا حکومت کا کام ہے طالبان توامن مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں۔

گزشتہ روز پشاور کے ایک سنیما میں ہونے دہشت گردانہ حملے میں 13 افراد ہلاک ہو گئےتصویر: Reuters

شاہد اللہ شاہد کے مطابق طالبان شوریٰ نے بعض حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیموں سے رابطے بھی کیے ہیں اور انہیں بتایا ہے کہ حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات کے دوران اس طرح کی کاروائیوں سے گریز کیا جائے تاکہ مذاکراتی عمل کو نقصان نہ پہنچے۔

مذاکرات اور دہشت گردانہ حملے ایک ساتھ جاری رہنے کے حوالے سے سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار سید انصر عباس نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’جب ایک طرف امن کے قیام کے لیے بات چیت اور مذاکرات جاری ہوں اور دوسری جانب دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہوں تو ایسے میں یہی تاثر اُبھرتا ہے کہ بعض قوتیں جو اندرونی بھی ہوسکتی ہیں اور بیرونی بھی، نہیں چاہتیں کہ اس خطے میں امن قائم ہو۔ شاید اسی وجہ سے وہ اس طرح کی کاروائیوں میں ملوث ہیں، وہ یہی چاہتے ہیں کہ یہاں دہشت گردی کا راج ہو۔‘‘

صوبائی حکومت دہشت گردی کی نئی لہر کو وفاقی حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ قرار دے رہی ہے۔ جب اس سلسلے میں خیبرپختونخوا کے سینیئر صوبائی وزیر سراج الحق سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا، ”صوبائی حکومت کے بس میں جو کچھ بھی ہے وہ کر رہی ہے۔ اس تمام صورتحال میں قبائلی علاقے ملوث ہیں اور قبائلی علاقے مرکز کے کنٹرول میں ہیں۔ ہمارا شروع ہی سے یہی مؤقف رہا ہے کہ وہ عوامل جن کی وجہ سے ہمارے صوبے کا امن تباہ ہوا ہے انہیں ختم کیا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہاں جان، مال اور عزت کی حفاظت ہو اور اس کے لیے حکومت نے ایک پلان تیار کیا ہے لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ ان تمام واقعات کا براہ راست تعلق سرکار کے غلط پالیسیوں سے ہے اور ہم شروع ہی سے یہی کہہ رہے ہیں کہ مرکز اپنی پالیسی کو تبدیل کرے۔ قبائلی علاقوں میں حالات بہتر بنائیں اور سرحدوں کی سیکورٹی میں بہتری لانے کے لیے اقدامات کریں تاکہ خیبر پختونخوا کے حالات اس کی وجہ سے خراب نہ ہوں۔‘‘

طالبان نے پشاور سمیت صوبے کے کئی دیگر علاقوں میں رونماء ہونیوالے واقعات میں ملوث ہونے کی تردید کی ہےتصویر: A. Majeed/AFP/Getty Images

لیکن پختونخوا میں حزب اختلاف کا مؤقف اس سے بالکل مختلف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے قیام امن کے نام پر عوام سے ووٹ لیا لیکن آٹھ ماہ ہونے کے باوجود مؤثر پالیسی سامنے نہ آسکی۔ صوبائی اسمبلی میں عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک سے جب اس سلسلے میں ڈوئچے ویلے نے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ’’لاشیں روزانہ کی بنیاد پر یہاں گر رہی ہیں اور صوبائی حکومت مرکزی حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ یہاں صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔‘‘

بابک کا مزید کہنا تھا، ’’دہشت گردوں کا نیٹ ورک دن بدن پھیلتا جارہا ہے اور یہ بھی انتہائی تشویش ناک بات ہے کہ اب تو انہوں نے بندوبستی علاقوں میں رہائش اختیار کرنا شروع کردی ہے لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی۔‘‘

عوام کو اُمید تھی کہ حکومت اور طالبان کے مذاکرات کے ساتھ ہی صوبے میں امن قائم ہوگا لیکن حالیہ دنون میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ان کی مایوسی میں اضافے کا باعث بن رہا ہے اور عوام مذاکرات کے عمل سے بھی مایوس ہوتے جارہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں