دہشت گردی سے متعلق اقوام متحدہ کی فہرست، 139 نام پاکستان سے
عبدالستار، اسلام آباد
4 اپریل 2018
سیاسی، اقتصادی اور سفارتی مشکلات میں گھرے پاکستان کے مسائل میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے دہشت گرد افراد اور تنظیموں کی جو فہرست منگل کو اپ ڈیٹ کی، اس میں 139 نام پاکستان سے متعلق ہیں۔
اشتہار
اس فہرست پر پاکستان کے سیاسی مبصرین، معاشی امور کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے ’پریشان کن‘ قرار دیا ہے۔ فہرست میں کالعدم لشکر طیبہ اور کالعدم جماعت الدعوہ کے رہنما حافظ سعید، اس تنظیم کے ترجمان یحییٰ مجاہد اور اس جہادی گروپ کے ایک اور رہنما ذکی الرحمن لکھوی کے نام بھی شامل ہیں۔
دہشت گردی کا انسداد اور پاک افغان سرحدی باڑ
سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ کا کہنا ہے کہ سلامتی کونسل کی اس فہرست کی وجہ سے پاکستان کے لیے بہت سے مالیاتی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’فوری طور پر تو حکومت کو یہ کرنا پڑے گا کہ جن افراد کے نام اس لسٹ میں شامل ہیں، پاکستان کو ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنا پڑے گی۔ اگر ہماری عدالتیں ان افراد، تنطیموں یا گروپوں کو چھوڑ دیتی ہیں، تو ہمیں وہ وجوہات اور شواہد عالمی ادارے کو پیش کرنا پڑیں گے اور پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ ایسے کسی موقف کو کس حد تک تسلیم کرتے ہیں۔ اگر حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی اور وہ آزادنہ ہی گھومتے رہتے ہیں، تو پھر عالمی سلامتی کونسل پاکستان پر پابندیاں بھی عائد کر سکتی ہے، جن سے ہماری اقتصادی مشکلات شدید ہو سکتی ہیں۔‘‘
مالیاتی امور کے ماہر فیصل بلوچ کے خیال میں اس سے پاکستان کے لیے مصیبتوں کا ایک طوفان کھڑا ہو جائے گا، ’’بعض اوقات صرف تاثر ہی حقیقت سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔ اس فہرست کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کا یہ تاثر جائے گا کہ ہم دہشت گردوں کی مدد کرنے والے ممالک میں شامل ہیں اور بین الاقوامی برادری ہمارے خلاف سخت اقدامات کر سکتی ہے۔‘‘
فضل الرحمان خلیل کی آزادانہ نقل و حرکت اور امریکی خدشات
01:57
فیصل بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس تاثر کی وجہ سے لوگ ہم سے ہماری مصنوعات نہیں خریدیں گے۔ ہماری درآمدات بھی متاثر ہوں گی اور خصوصاﹰ ہائی ٹیکنالوجی مصنوعات خریدنے میں ہمیں مشکلات ہو سکتی ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے ہمیں قرض دینے سے بھی کترائیں گے کیونکہ اقوام متحدہ میں کئی کام عالمی سپر طاقت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ واشنگٹن کا مالیاتی اداروں پر اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا ہمیں چند افراد، جن پر دہشت گردی کا الزام ہے، ان کی وجہ سے پورے ملک کو داؤ پر نہیں لگانا چاہیے اور ان کے حوالے سے جو کچھ بین الاقوامی برادری کہہ رہی ہے، اس کو پورا کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔‘‘
فیصل بلوچ کی سوچ سے اتفاق کرتے ہوئے اکنامک افیئرز ڈویژن کے ایک افسر نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے لیے درآمدات کے حوالے سے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ حال ہی میں ہم نے ایک ہائی ٹیک آئٹم برطانیہ سے خریدنے کی کوشش کی اور تمام معاملات کے باوجود اس ڈیل کو منسوخ کر دیا گیا۔ اب اس فہرست کے بعد مالیاتی اور اقتصادی میدانوں میں ہمارے لیے مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔‘‘
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2017 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کےشکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست ہے۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے قریب تین ہزار واقعات پیش آئے جن میں قریب 10 ہزار افراد ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا جہاں قریب ساڑھے تیرہ سو دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انسان ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد، اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم رہی۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.44 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 9.00 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 466 دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سن 2014 میں ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2016 میں دہشت گردی کے 366 واقعات رونما ہوئے جن میں اکیس سو انسان ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.6 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 736 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے نو سو افراد ہلاک اور سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان، داعش کی خراسان شاخ اور لشکر جھنگوی نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی جس کی ایک اہم وجہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب نامی فوجی آپریشن بنا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 366 واقعات میں قریب ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔
تصویر: Reuters/F. Salman
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ ساتویں نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ الشباب کے شدت پسندوں نے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.6 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت بھی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جہاں دہشت گردی کے نو سو سے زائد واقعات میں 340 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن 2015 کے مقابلے میں اٹھارہ فیصد زیادہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2016ء میں لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں میں پانچ بھارتی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
ترکی
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ترکی پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ترکی میں 364 دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد افراد ہلاک اور قریب تئیس سو زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے۔ لیبیا میں بھی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں لیبیا کا اسکور 7.2 رہا۔
تصویر: Reuters/H. Amara
10 تصاویر1 | 10
اس موقف کے برعکس بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر بکر نجم الدین کا خیال ہے کہ پاکستان نے ابھی بھی سب کچھ نہیں کھویا۔ انہوں نے کہا، ’’یہ درست ہے کہ امریکا کا عالمی مالیاتی اداروں پر اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے لیکن یورپی یونین کے ممالک کا بھی ان معاملات میں عمل دخل ہے اور یہ ضروری نہیں کہ یورپی ممالک ہر معاملے میں امریکا کے ہمنوا بنیں۔ اس کی ایک بہترین مثال ایران کے ساتھ جوہری معاہد ہ ہے، جس میں یورپی ملکوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ اس لیے ہمیں اپنے یورپی دوستوں کو اس حوالے سے قائل کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر روس اور چین کا بھی اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ ہمیں ان سے بھی رابطے کرنا چاہییں۔ یہ فہرست امریکا کی طرف سے پاکستان پر دباؤ بڑھانے کی ایک کوشش ہے، جس سے نمٹا جا سکتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہم دانش مندانہ انداز میں اس مسئلے کو دیکھیں اور کوئی حل نکالنے کی کوشش کریں۔‘‘
پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس فہرست کے معاملے کو ہر سطح پر اٹھائے گی۔ حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما راجہ ظفرالحق نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس میں پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔ ہم ہر سطح پر اس مسئلے کو اٹھائیں گے اور اسے حل کرنے کی کوشش بھی کریں گے۔ لیکن میں بین الاقوامی برادری سے یہ بھی پوچھنا چاہوں گا کہ کیا انہیں کشمیر بھارتی مظالم نظر نہیں آتے۔ صرف ایک ہی ہفتے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے، بیسیوں نابینا ہوگئے ہیں۔ انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہو رہی ہے۔ عالمی ادارے اس پر کوئی ایکشن کیوں نہیں لیتے؟‘‘