دہشت گردی میں معاونت، چار بنگلہ دیشی قصور وار
31 مئی 2016فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق 26 سے 31 برس تک کہ ان بنگلہ دیشیوں کو تین بکتر بند گاڑیوں میں عدالت لایا گیا۔ یہ بنگلہ دیشی اپنے ملک میں ایک بڑے حملے کے لیے پیسے جمع کر رہے تھے۔ سنگاپور میں یہ پہلا واقعہ ہے جب کسی پر دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے رقم جمع کرنے کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا ہے۔ ان افراد کو سزا کچھ دن بعد سنائی جائے گی۔
عدالت میں ان افراد نے جامنی رنگ کی ٹی شرٹس پہنی ہوئی تھیں، جن پر’قیدی‘ لکھا ہوا تھا، ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں جبکہ پاؤں بھی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ اس دوران سنگاپور کی پولیس ان پرکڑی نظر رکھے ہوئی تھی۔ اس موقع پر عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ ان افراد نے ایک دہشت گردانہ حملے کے لیے 60 سے لے کر 1360 سنگاپوری ڈالر جمع کیے تھے۔ اس جرم میں انہیں 10 سال تک قید اور پانچ لاکھ سنگاپوری ڈالر جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
سنگاپورکے تعمیراتی شعبے میں بنگلہ دیشی اور دیگر شہریت رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں کام کر رہے ہیں۔ سنگاپور کی حکومت کو خدشہ ہے کہ امریکا کے ساتھ مضبوط عسکری تعلقات ہونے کے سبب انہیں بھی شدت پسندانہ حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس مقدمے میں استغاثہ کی جانب سے کہا گیا ہے اس گروہ کے31 سالہ لیڈر رحمان میزا نور نے کئی مرتبہ شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ میں شامل ہونے کی کوشش کی ہے لیکن وہ ترکی اور الجزائر کا ویزا نہ ملنے کے باعث ایسا کرنے میں ناکام ہوگیا تھا۔ اور پھر ایک تعمیراتی کمپنی میں ملازم کی حیثیت سے یہ شخص سنگاپورآ گیا تھا۔
اس مقدمے میں زمان دولت اور ایک اور شخص پرجرم ثابت نہیں ہوا اور اب ان دونوں کا کیس الگ سے چلایا جائے گا۔ زمان دولت نے عدالت میں کہا، ’’ میں نے دو سو ڈالر ضرور دیے ہیں لیکن مجھے یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ رقم کسی دہشتگردانہ کارروائی کے لیے استعمال ہو گی۔‘‘
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ان افراد سے بم بنانے اور سنائپر رائفل استعمال کرنے کے طریقوں کے علاوہ بنگلہ دیش کے سرکاری اور فوجی افسران کے ناموں کی فہرست بھی ملی تھی جن کو ممکنہ طور پر نشانہ بنایا جانا تھا۔
سنگاپور میں گزشتہ برس انتطامیہ نے 27 بنگلہ دیشی شہریوں کو حراست میں لیا تھا جن پر بھی اپنے ملک میں ایک دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی کا الزام تھا۔ ان افراد کو بعد میں بنگلہ دیش کے حوالے کر دیا گیا تھا۔