دہشت گردی کا انسداد اور پاک افغان سرحدی باڑ
26 مارچ 2018امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان آئندہ برس تک افغانستان کے ساتھ اپنا پانچ سوپندرہ میل طویل بارڈ سیل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
پاک افغان کشیدگی، کابل حکومت کا وفد اسلام آباد میں
پاک افغان سرحدی دیہات میں دیوار برلن جیسی تقسیم کی تیاریاں
لیکن پاکستان میں کئی پختون قوم پرست اور تجزیہ نگار اس حکومتی اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ معروف پختون قوم پرست رہنما سینیٹر عثمان کاکڑ نے اس پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’دہشت گردی سرحد بند کرنے یا سیل کرنے یا پھر کوئی دیوار تعمیر کرنے سے ختم نہیں ہوگی، بلکہ یہ اس وقت ہوگی جب ہم اپنی پالیسیاں تبدیل کریں گے۔ ہمارے لوگ تو افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے کی بات کرتے ہیں۔ اسٹریجک ڈیپٹھ کے فلسفے لے کر آتے ہیں۔ اچھے اور برے طالبان کی بات کرتے ہیں۔ آج کل تو جنرل مشرف کھلم کھلا جہادیوں کی تعریفیں کر رہے ہیں۔ یہ سب ہماری سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ جب تک ہم یہ سوچ اور رویہ تبدیل نہیں کریں گے۔ دہشت گردی ختم نہیں ہوگی، چاہے ہم کتنی ہی دیواریں بنالیں یا جتنے بڑے علاقے کو سیل کر دیں۔‘‘
لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا بھی عثمان کاکڑ کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔’’اگر سرحد سیل کرنے یا باڑ لگانے سے مسئلہ حل ہوتا تو آج بھار ت چیخ کر یہ کہہ نہ رہا ہوتا کہ اس کے علاقے میں مداخلت ہو رہی ہے۔ جس طرح بھارت میں دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ ریاستی پالیسی ہے ۔ بالکل اسی طرح پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کا بڑا گہرا تعلق ریاستی پالیسیوں سے ہے۔ میرے خیال میں اس سے دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ کابل اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی بڑھے گی کیونکہ کابل ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتا۔ وہ تو طورخم پر بھی سرحد نما ڈھانچے کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اس باڑ کو کیسے تسلیم کرے گا۔ ان کے خیال میں اسلام آباد کی طرف سے یہ ڈیورنڈ لائن کو بارڈ بنانے کی ایک کوشش ہے۔ جس کی وہ بھر پور انداز میں مخالفت کریں گے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’دونوں ممالک کو سرحد کے دونوں اطراف دہشت گردوں کی جو پناہ گاہیں ہیں ان کو ختم کرنا چاہیے۔ سرحد کو مشترکہ طور پر مانیٹر کرنا چاہیے کیونکہ یہ بارڈ اتنا طویل اور دشوار گزار ہے کہ کوئی ایک ملک اس کی مانیٹرنگ تنہا نہیں کر سکتا۔ لہذا دونوں ممالک کو مشترکہ کوششیں کرنا چاہیے۔‘‘
کابل سے تعلق رکھنے والے افغان تجزیہ نگار وحید اللہ عزیزی نے اس حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے جنگ کو ختم کرنا ہوگا، جو دہشت گردی کو ہوا دے رہی ہے۔ سرحد پر باڑ لگانا ایک حسا س مسئلہ ہے، لہذا دونوں حکومتوں کو اس مسئلے پر پہلے بات چیت کرنی چاہیے ۔ باہمی مشاورت کے بغیر کوئی کام بھی کار گر ثابت نہیں ہوگا۔‘‘
اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکڑ ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اپنی قومی سلامتی کے لیے ہر وہ کام کرنا چاہیے، جو وہ ضروری خیال کرتا ہے۔’’اس پر کام دو برسوں سے ہو رہا ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ گزشتہ برس اس مسئلے پر پاکستان اور افغانستان کے سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان کشیدگی بھی ہوئی تھی۔ کابل کے اس پر تحفظات ہوسکتے ہیں لیکن ہم اس کی وجہ سے اپنی قومی سلامتی کی سودے بازی تو نہیں کر سکتے۔ دنیا بھر میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سرحد کی سخت مانیٹرنگ کی جاتی ہے اور پاکستان بھی ایسا ہی کر رہا ہے۔ سرحد کے اطراف کچھ مجرمانہ عناصر بھی ہیں، جو اس باڑ کے خلاف ہیں کیونکہ اس سے اسمگلنگ اور دوسرے غیر قانونی دھندے بھی متاثر ہوں گے لیکن میرے خیال میں پاکستان کا موقف بالکل صحیح ہے اور ہمیں اس پر کام جاری رکھنا چاہیے۔‘‘