دہشت گردی کے خلاف جنگ اور پاکستان، سال دو ہزار گیارہ کا ایک جائزہ
30 دسمبر 2011یہ تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں تین ہزار کم بتائی جا رہی ہے۔ اگرچہ سال دو ہزار گیارہ میں پچھلے سال کے مقابلے میں دہشت گردی کے کم واقعات ہوئے، تاہم مبصرین کے بقول ان میں سے بعض انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔
سال دو ہزار گیارہ میں ایبٹ آباد آپریشن ہوا جس میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس واقعے کے بعد پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کافی تناؤ دیکھنے میں آیا۔ بعد ازاں ایبٹ آباد آپریشن کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بھی تشکیل دیا گیا، جس کی کارروائی تا حال جاری ہے۔
اسی سال آل پارٹیز کانفرنس بھی منعقد ہوئی جس میں امن کو موقع دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی سال کراچی میں پاک بحریہ کی تنصیبات کو بھی دہشت گردوں نے نشانہ بنایا اور دو طیارے تباہ کر دیے۔ سال دو ہزار گیارہ میں پنجاب کے گورنرسلمان تاثیر کو ناموس رسالت کے قانون کے حوالے سے مبینہ طور پر ایک متنازعہ بیان دینے پران کے ایک اپنے ہی محافظ نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔ بعد ازاں طالبان نے ان کے ایک بیٹے کو بھی اغوا کر لیا، جسے مبینہ طور پر پاک افغان سرحد کے قریب رکھا گیا ہے اور اس کی رہائی کے لیے مبینہ طور پر تاوان کی بھاری رقم اور کئی گرفتار طالبان کی رہائی کی شرط رکھی گئی ہے۔
رواں سال اقلیتی امور کے وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو بھی دہشت گردی کے ایک حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ اسی سال دو پاکستانیوں کو قتل کرنے والے سی آئی اے کے ایک ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری عمل میں آئی اور بعد ازاں دیت کی ادائیگی کے بعد اسے رہا کر دیا گیا۔ اس پر پاکستان کی کئی جماعتوں کی طرف سے احتجاج بھی کیا گیا۔ سن دو ہزار گیارہ کے جون کے مہینے میں جی ایچ کیو میں تعینات ایک بریگیڈیر کو ایک کالعدم تنظیم سے رابطوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
اسی سال صحافی سلیم شہزاد اور ولی خان بابر کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے بدترین واقعات بھی دیکھنے میں آئے۔
دو ہزار گیارہ کی دوسری ششماہی میں پاک امریکہ تعلقات نہایت کشیدہ رہے اور پاکستانی فوجی چیک پوسٹ پر نیٹو حملے کے بعد تو صورت حال مزید خراب ہو گئی۔ اس کے ردعمل میں پاکستان نے جرمنی کے شہر بون میں منعقدہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے ہونے والی ایک اہم کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔
دفاعی امور کے ایک ماہر ریٹائرڈ بریگیڈیر فاروق حمید خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ سال دو ہزار گیارہ میں ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد پاکستان میں سی آئی اے کے نیٹ ورک کو کافی حد تک محدود کر دیا گیا۔ ان کے بقول سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو حملہ، پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پالیسی پر نظر ثانی اور پاک امریکہ تعلقات کی ازسرنو تشکیل بھی اس سال کے اہم واقعات ہیں۔ ان کے بقول سال دو ہزار گیارہ کے آخر میں طالبان کی طرف سے پاک فوج کے خلاف حملوں کے حوالے سے سیز فائر کی سی کیفیت بھی دیکھنے کو ملی۔ ان کے بقول طالبان کی یہ پالیسی پاکستانی حکومت کی طرف سے امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرنے اور امن کو ایک موقع دینے کے فیصلے کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔
دہشت گردی کے امور کے ممتاز ماہر پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ سال دو ہزار گیارہ میں اگرچہ پچھلے سال کے مقابلے میں دہشت گردی کے کم واقعات دیکھنے میں آئے لیکن دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا۔ ان کے بقول اگلے سال بھی یہی رجحان برقرار رہنے کا امکان ہے۔ اور افغان طالبان سے ہونے والی بات چیت اگر کامیاب ہو گئی تو دو ہزار بارہ میں دہشت گردی کے واقعات میں مزید کمی آ سکتی ہے۔
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ آنے والے سال میں دہشت گردی کی متوقع صورتحال کے حوالے سے اندازہ لگانا آسان نہیں ہے تاہم زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ آنے والا سال اس سلسلے میں بہتری ہی لے کر آئے گا۔
رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور
ادارت: حماد کیانی